محمدشاہدحفیظ
شعبہ اردو،گورنمنٹ گریجویٹ کالج میلسی (پاکستان)
نسترن احسن فتیحی معروف محقق،نقاد ،ناول وافسانہ نگارہیں۔آپ سمستی پور،بہار(انڈیا)میں سید محمداحسن کے گھرپیداہوئیں۔۱۹۸۶ء میں ایم۔اردو کیااورگولڈ میڈلسٹ قرارپائیں۔۱۹۹۱ء میں پنجاب یونیورسٹی (چندی گڑھ) سے پی۔ایچ۔ڈی کیا۔مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے پروفیسر علی رفادفتیحی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں تو علی گڑھ (یوپی)میں مستقل سکونت اختیارکرلی۔نسترن احسن فتیحی بنیادی طورپرناول نگار ہیں۔تاہم انھوں نے “ایکوفیمینزم اور عصری تانیثی اردوافسانہ”(۲۰۱۶ء)سے تحقیق وتنقید کے میدانِ کارزار میں قدم رکھا۔اس کتاب کویوپی اردواکیڈمی سے پہلاانعام حاصل ہوااوربہاراردواکیڈمی سے دوسراانعام ملا۔تانیثیت اورتانیثی افسانے پر مشتمل یہ اہم کتاب( ۲۰۱۸ء) عکس پبلی کیشنز کراچی (پاکستان)سے بھی شائع ہوچکی ہے۔فکشن کے میدان میں ان کا پہلاناول “لفٹ “(۲۰۰۳ء)ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ سے ، دوسرا ناول”نوحہ گر”(۲۰۲۱ء ) ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے شائع ہوا۔اس کے علاوہ این سی پی یوایل کے لیے ایک پروجیکٹ “قانونی فرہنگ”(۲۰۱۷ء تا۲۰۱۸ء) پربھی کام کیا ہے۔موجودہ ادبی سرگرمیوں میں ایک آن لائن جریدہ دیدبان کی مجلس ادارت میں شامل ہونے کے ساتھ ساتھ کتابی سلسلہ کی تزئین،ترتیب اوراشاعت میں بھی شامل ہیں ۔
ڈاکٹرنسترن فتیحی کاپہلاافسانہ “تشنگی”۱۹۹۱ء میں “شاعر”میں شائع ہواتھا۔پھرکشمکش،ایڈییسو اورڈائل ٹون جیسے افسانے”شاعر”میں ہی تواترسے شائع ہوتے رہے۔ان کے افسانے اب تک پاکستان اورہندوستان کے مختلف مؤقرادبی رسائل وجرائد میں کاحصہ بنتے رہے ہیں ۔ جن میں شاعر،فنون،ادبِ لطیف،آج کل،جمنانٹ،زبان وادب،ثالث اور دربھنگہ ٹائمزوغیرہ کا نام لیاجاسکتاہے۔
“بین کرتی آوازیںان کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے۔جسے ۲۰۲۳ء میں پریس فارپیس فاؤنڈیشن پاکستان نےبڑے دیدہ زیب انداز میں شائع کیاہے۔پریس فارپیس فاؤنڈیشن نے بہت کم وقت میں خوبصورت اور اہم کتب شائع کر کے شہرت حاصل کرلی ہے۔ان کی کتابیں سفید امپورٹڈکاغذ،معیاری پرنٹنگ،خوبصورت کمپوزنگ ،ڈیزائننگ اورمتاثرکن ٹائٹل سے آراستہ ہوتی ہیں۔یہ کتاب اچھوتے اورمنفرد نام کی وجہ سے اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔
اس کتاب میں نسترن فتیحی کہانی کے بارے میں اپنانقطہ نظریوں پیش کرتی ہیں:
کوئی کہانی زندگی کاواضح اورمکمل چہرہ نہیں دکھاسکتی۔یہ بکھرے ہوئے ریزوں میں اپنی موجودگی درج کراتی رہے گی اورزندگی کی گزرگاہ پراپنے اپنے حصوں کی کرچیاں سمیٹ کر ہم اپناوجودزخمی کراورروح روشن کرتے رہے ہیں اورکرتے رہیں گے۔تاکہ آنے والے زمانوں کے لیے اس راہ گزرپرانسانیت کے ادراک کاجو دیاروشن ہے،وہ ہمیشہ روشن رہے۔
یہ کتاب دوحصوں پرمشتمل ہے۔پہلے حصے میں انیس افسانے اوردوسرے حصے میں گیارہ افسانچے شامل ہیں۔اس کتاب کی اشاعت بارے وہ لکھتی ہیں کہ:
کچھ خیرخواہ احباب اوردوستوں کے اصرارپراپنے منتخب افسانوں کوکتابی شکل میں شائع کروانے کاحوصلہ پیداہوا۔ورنہ میں یہی سمجھتی تھی کہ رسائل کے بعد سوشل میڈیاہی ان کے لیے بہترین پلیٹ فارم ہے جہاں یہ یقیناً کم وقت میں دورتک پھیل جاتے ہیں۔
موجودہ دورسوشل میڈیا کادور ہے ۔جس نے زندگی کی تمام جہات اورمعاملات کواپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ اسی طرح سوشل میڈیانے ادب کوبھی بہت متاثرکیاہے۔یقیناًمیڈیا نے کتب ،اخبارت،رسائل وجرائد کی اہمیت کم کی ہے لیکن دیکھاجائے تومیڈیائی دورمیں ادب کوجتنافروغ مل رہاہے اس سے پہلے کبھی نہیں ملا۔اس نے ادب اورادیب دونوں کو اپنی بے پناہ وسعتو ں میں سمیٹ لیاہے اورہرخاص عام کواپنی صلاحیتوں کے اظہاراورنکھارکابھرپورموقع فراہم کیا ہے۔سوال یہ پیداہوتاہے کہ سوشل میڈیااورادب کاآپس میں کیارشتہ ہے؟میڈیاپرپیش کیاجانے والامواد،ادب کہلانے کاحق دارہے؟میڈیائی ادب کی کیااہمیت ہے اورمستقبل میں اس کاحقیقی ادب پرکیااثرپڑے گا؟ ان سوالات کاجواب نسترن فتیحی نے اپنے دیباچے میں بہت خوبصورت جواب دے کرادب کے بارے میں دوٹوک الفاظ میں واضح کردیاہے۔اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
سوشل میڈیااورادب کےد رمیان ایک رشتہ ہےلیکن اس رشتے کے باوجودسوشل میڈیاادب نہیں ہے۔ادب کے مطالعے کے لیے وقت اورارتکازکی ضرورت ہوتی ہے کیوں کہ آپ کتاب کے ساتھ جدوجہدکرتے ہیں اورکتاب آپ کے ساتھ جدوجہدکرتی ہے۔اس طرح کتاب کے معنی اورمفہوم تک آپ کی رسائی ہوتی ہے ۔گویاادب آپ کے خیالات کی تشکیلِ نوکرتاہے اورایک منفردزاویے سے سوچنااورمحسوس کرناسکھاتاہے۔شاید سوچنے اورمحسوس کرنے کی یہی قوت انسانوں کومشین پرفوقیت عطاکرے گی۔اس لیے ادب میٹافورسزہےا وربنیادی سطح پرتبدیلی لاتاہے۔کیوں کہ یہ لوگوں کےد لوں اورروح کوچھوتاہے۔ادب کافوری اثرنہیں ہوتا،اس میں موجودپیغام پھیلنے میں وقت لگ سکتاہے لیکن جب ایساہوتاہے تویہ ایک طویل عرصے تک موجودرہتاہے۔
نسترن فتیحی کی کتاب “بین کرتی آوازیں”میں شامل انیس افسانوں میں بین کرتی آوازیں،انگلی کی پورپرگھومتاچاند،یہ عجیب عورتیں،ڈائل ٹون، ایڈہیسواورکال بیلیا قاری کومتوجہ کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ان افسانوں میں انسانی تہذیب،رشتے اورنفسیات کی بدلتی اوربکھرتی ہوئی تصویروں کا عکس ملتا ہے۔انسان اورانسان کے درمیان جنگ ،نفرت اورمقابلے کی نفسیات کی جھلک نظرآتی ہے۔ان نئے اورپرانے افسانوں میں وہ احساسات الفاظ کی شکل میں کہانی بنتے ہیں جنھیں ترقی کی دوڑ میں انسان نے نظر انداز کردیاہے۔میڈیااورٹیکنالوجی کے دورمیں انسان ترقی توکررہاہے مگراس ترقی کی بڑی قیمت بھی چکانی پڑ رہی ہے۔
سبین علی لکھتی ہیں :
نسترن فتیحی بنیادی طورپرناول نگارہیں۔لیکن جب وہ افسانہ لکھتی ہیں تواس میں ناول نگاری کاشائبہ تک نہیں ملتا۔ان کے کرداراورواقعات بڑی مہارت سے مختصربیانیے میں سموئے ہوتے ہیں اوراکثرافسانوں میں کسی ایک احساس،واقعے یاایک کیفیت کولے کربنی گئی کہانی میں وحدتِ تاثر وحسنِ اظہارکاعمدہ نمونہ ملتاہے۔
“بین کرتی آوازیں” کتاب کانمائندہ افسانہ ہے جس میں سارانامی صحافی لڑکی کاکرداراپنے اردگردشورمچاتی آوازوں سے پریشان ہے یہ آوازیں اسے چاروں طرف سے اس طرح گھیرلیتی ہیں کہ ان کازہریلا شورہروقت اس کے کانوں میں گونجتارہتاہے۔ منافقت،ریاکاری ،خوشامداورلفافے کی صحافتی دنیا کو بے نقاب کرتی ایک اہم کہانی ہے جس میں انسانی خصوصاًنسوانی نفسیات کاخوبصورت مگرتلخ اظہارملتاہے۔
گھرآکراس نے اطمینان سے اپناکالم ماموں کے حوالے کیااورسکون کی نیندسوگئی۔دوسرے دن اخباراس کے ہاتھ میں تھا۔ماموں نے کالم میں کچھ تبدیلی کی تھی۔ ساراکی جمع کی ہوئی تفصیلات کے ساتھ منسٹروں کے کچھ حسین وعدوں کااضافہ تھا،ریلی کوبہترڈھنگ سے سنبھالنے کے لیے نظم وضبط کی تعریف تھی۔ہزاروں کی تعدادمیں آئے اس طبقے کے نمائندوں کی آواز،ضرورت اورمقصدکی ایک ہلکی سی آہٹ بھی اس کے کالم میں موجودنہ تھی۔
“انگلی کی پورپرگھومتاچاند” اور”ڈائل ٹون”بیگانگی اور وجودیت کامثالی اظہارہے۔ان افسانوں میں ماضی سے حال تک کاایسا تیزترین سفرہے جس میں رشتوں کے ہوتے ہوئے بھی انسان تنہائی اورشکست کا شکار ہے۔مادیت پرستی اورہوس زرکاشکارانسان اس بدعنوان معاشرے کاحصہ بن کر امارت پرست بن چکا ہے ۔
جوچہرے اس آنگن کی پیشانی کاچاندتھے وہ اب ایسے ہی غروب ہوچکے ہیںجیسے برسات کی اس کالی شام نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آنگن میں بسیراکرلیا ہو۔وہ آج بھی دلوں میں موجودمحبت اورخلوص کی حرارت کو محسوس کرسکتی ہے۔مگریہ بھی حقیقت ہے کہ درمیان میں میلوں کی مسافت نے محبت کی اس حرارت کونگل لیاہے۔دل ٹکڑوں میں تقسیم ہوکردھڑک رہے ہیں ،اپنی اپنی زندگی پوری کررہے ہیں ۔مگراب آنگن کی پیشانی پرکوئی چاندنظرنہیں آتا۔
“ڈائل ٹون”میں دورِحاضرمیں ٹیکنالوجی نے فاصلے تو کم کردیے ہیں مگراس قربت نے دوریوں میں ایسااضافہ کیاہے کہ انسان ایک چھت تلے بھی اجنبیت اورتنہائی کی زندگی گزاررہاہے۔
سبین علی لکھتی ہیں:
ان کے کرداروں میں وہ خبریں سانس لیتی ہیں جنھیں کمرشل مفادات کے لیے اخبارپھاڑ کرپھینک دیتے ہیں ۔ ان میں پسے ہوئے دیہی طبقات کی صدائیں ہیں اورتیزترشہری ثقافت میں زندگی کے ساتھ دوڑتے، بھاگتے، بچھڑ جانے اورسانس بحال کرنے کی تگ ودوکرتے محنت کش ہیں۔جوچاہ کربھی اپنی کہانی خودبیان نہیں کرسکتے مگرنسترن فتیحی کاحساس قلم ان کی آوازبنتاہے۔
“کال بیلیا”افسانے میں تانیثیت اورمزاحمت کاعنصرنمایاں ہے۔اس افسانے میں مرکزی کردارخانہ بدوش ہے جس کاتعلق ایک نیچ برادری سے ہے۔وہ اپنے علاقے کی محکوم اورنچلی ذات کی عورت ہو کر ظلم سہتی ہے پھر مزاحمت کرتی ہے اور باہرکی دنیامیں ایک رقاصہ بن کرعزت اورنام کماتی ہے۔”نسل “ایسے افسانے میں معاشرے کادوغلاپن دکھایاگیاہے جس میں عورت کی نقل وحرکت پرتوپابندی ہے لیکن ایک نایاب نسل کے شیرکی مادہ کوبچانے کے لیے تمام سرکاری مشینری حرکت میں آجاتی ہے۔یہ افسانہ انسان اورجانوروں کے حقوق کابیان کرتے ہوئے بتاتاہے کہ کون سی مخلوق اپنی نسل کے تحفظ اوربقاکے لیےجدوجہد کرتی ہے۔
سبین علی کی خوبصورت رائے ملاحظہ فرمائیں :
نسترن فتیحی کے افسانے کسی بھی قاری پہ الگ الگ طورپراثراندازہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ان افسانوں کے بارے میں بجاطورپرکہہ سکتے ہیں کہ یہ مراعات یافتہ کوبے چین کرنے کے ساتھ ساتھ اسی وقت پسماندہ اوربے چین افرادکے احساسات پرنرم پھائے جیسے ہیں۔
نسترن احسن فتیحی نے “بین کرتی آوازیں “میں انسانی زندگی کے تمام پہلوؤںکو کامیابی کے ساتھ برت کر تانیثی تقاضے پوری کرنے کی بھرپورکوشش کی ہے۔ان کے افسانوں میں جذبات، احساسات اورمزاجی کیفیات کے حامل کرداراپنے وجوداوربقاکی جنگ لڑتے دکھائی دیتے ہیں۔یہ سیاسی جنگ ہو،معاشی،معاشرتی یاادبی۔یہ کردار بے اطمینانی،بے چینی اوراضطرابیت کی دنیامیں ہلچل مچاکرسماجی صورتِ حال واضح کرتے ہیں۔ان کے فیصلے،نئی سوچ اورآگہی سماجی حالات و واقعات پراثراندازہوتی ہے اورنئی سماجی صورتِ حال پیداکرتی ہے۔
—————————-
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.