تاثرات : مہوش اسد شیخ
کتاب ریزگاری پبلش ہو کر منظر عام پر آئی تو اس کے مصنف کا نام میرے لیے نیا تھا۔ خوبصورت سرورق کی حامل ریزگاری پہلی نظر میں ہی دل کو بھاگئی۔ فیس بک پر ہر طرف اس کے چرچے ہونے لگے، دیکھتے ہی دیکھتے پہلا ایڈیشن ختم ہو گیا۔
آخر ایسا کیا ہے اس کتاب میں، یہ تو ایسے سیل ہوئی جیسے سچ مچ کی ریزگاری ہو۔ جلد ہی سننے میں آیا کہ دوسرا ایڈیشن آ گیا۔ دل سے بے اختیار ماشا اللہ نکلا۔ اب تو دل نے خواہش کی، یقیناً پڑھنے کی چیز ہے پڑھنا چاہیے۔
اس کا مطالعہ کرنا شروع کیا تو معلوم پڑا کیا چیز ہے ۔۔ اگرچہ مصنف کا نام میرے لیے نیا تھا لیکن انداز بیان کسی سینیئر لکھاری سا نہایت پختہ۔ لفاظی کے کیا کہنے، رواں اسلوب بھئی داد دئیے بنا چارہ نہیں۔ یہ عام افسانوی مجموعہ نہیں، منفرد افسانوں پر مشتمل ایک پیاری کتاب ہے۔ کتاب مکمل کیے کئی دن بیت گئے، اس پر لکھنے کا سوچتی رہی مگر میرے اپنے الفاظ تو کہیں کھو ہی گئے تھے، مصنف کی الفاظ ہی دماغ میں چکراتے پھر رہے تھے۔ کتنے ہی جملے ہیں جو بار بار یاد آتے ہیں، بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے ۔
” محبت کی کوئی عمر نہیں ہوتی، یہ کبھی بوڑھی نہیں ہوتی، آب حیات پی رکھا ہے نگوڑی نے۔“
” خوف کا کوئی وجود نہیں ہوتا، یہ محض ایک ذہنی کیفیت ہوتی ہے جو ہم خود پر طاری کر لیتے ہیں۔ “
امن یا جنگ ۔۔۔سر کاٹنے ہیں یا محبت بانٹنی ہے ۔۔۔پھول یا ببول۔۔۔آپ اپنی آیندہ نسلوں کے امین ہیں اور یہ آخری فیصلہ بھی آپ کا ہے ۔“
” تم سارا دن کیا لکھتے رہتے ہو؟ “ امی کا فطری تجسس جاگ اٹھا۔
” میں خود کو لکھتا رہتا ہوں امی! “
توبہ ہے لڑکے لکھنے کے لیے عمر پڑی ہے، پہلے خود کو پڑھ تو لو اچھی طرح ۔۔۔! “
” نہیں امی مجھے پہلے خود کو لکھنا ہے تاکہ یہ دنیا مجھے حرف بہ حرف پڑھ سکے۔“
” چراغ “ ہم ادبا کا حوصلہ بڑھاتا ایک شاندار افسانہ ہے۔” چراغ کی پھڑپھڑاتی ہوئی لو جلتی ہے تو کبھی یہ نہیں سوچتی کہ اس کی روشنی سے چار لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں یا چار سو لوگ۔ میں بھی ایک چراغ ہوں جسے جلتے سلگتے رہنا ہے اور اپنی آخری سانس تک لکھتے رہنا ہے۔ “
یہ افسانے ہمارے معاشرے کی کہانیاں ہیں، مصنف نے المیے، تلخیاں لفظوں میں ڈھال دیں ہیں ۔ یہ کردار ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں، کتنے ہی کرداروں میں آپ کو اپنی جھلک دکھائی دے گی، کتنے ہی کردار ہیں جس میں آپ کو مصنف دکھائی دے گا۔ مصنف نے خود اعتراف کیا ہے” میں پیاز کی پرتوں جیسا ایک شخص ہوں اور میرا تعارف آپ کے ہاتھوں میں ریزگاری کی صورت میں ہے۔ ہر کہانی میری ذات کی ایک پرت آپ پر عیاں کرے گی اور آخری صفحے تک پہنچ کر آپ مجھ سے مکمل واقف ہو جائیں گے۔ “
کچھ افسانوں نے رلا دیا۔ پڑھتے ہوئے دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا، لگا کسی نے دل مٹھی میں بھینچ دیا ہو۔ کئی افسانے سوچ کے نئے در وا کر گئے۔ چند ایک افسانوں کا اختتام مبہم سا تھا مجھے سمجھنے کے لیے کہانی پر ایک بار پھر غور کرنا پڑا ۔ بائیس افسانوں پر مشتمل یہ کتاب واقعی پڑھنے لائق ہے۔
کتاب کا مواد جتنا خوبصورت ہے، کتاب کی اشاعت بھی اتنی ہی شاندار ہوئی ہے۔
مصنف اور ادارے دونوں کے لیے ڈھیروں مبارک باد۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.