کومل شہزادی
قرة العین حیدر کا نام اردوادب میں ایک اہم حوالہ ہے۔ ناول نگاری کا تذکرہ ان کے بغیر نامکمل ہےاور اردوناول نگاری کی روایت میں قرة العین حیدرکا نام اہمیت کا حامل ہے۔زیر تبصرہ تصنیف “قرة العین حیدر کے ناولوں میں تانیثی شعور” جس کے مصنف نعمان نذیر ہیں۔فکشن ہاؤس لاہور سے ٢٠٢١ء میں یہ تصنیف شائع ہوئی۔مصنف کا یہ ایم۔فل کا مقالہ تھا جو انہوں نے کتابی شکل دے کر اسے قارئین کی دسترس میں لایا۔ عصمت چغتائی اردو کی پہلی نسائی خاتون ہیں۔ علاوہ ازیں قرۃ العین حیدر، خالدہ حسین، فاطمہ حسن، جیلانی بانو، بانو قدسیہ، زاہدہ حنا، ممتاز شیریں، جمیلہ ہاشمی اور عذرا عباس شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی تحریروں سے اردو ادب کو مالا مال کیا ہے۔ قرۃ العین حیدر کا نام دوسرے ادیبوں کے مقابلے میں نہیں ہے۔ وہ اردو کے عظیم ناول نگاروں میں سے ایک ہیں اور آگ کا دریا افسانہ نگاری کا شاہکار ہے۔ اس نے اپنا ناول شعور کے دھارے کی تکنیک میں لکھا ہے، جیسے ورجینیا وولف اور جیمز جوائس۔ اس نے مختصر کہانیاں بھی لکھی ہیں جیسے کہ سیتا ہراں، جیلا وطن اور ایک سوانحی ناول، گردیشِ رنگ چمن، جو تاریخ اور ثقافت میں تبدیلیوں کے بارے میں ایک ثقافتی تاریخی دستاویز ہے۔
فیمنسٹ لٹریچر وہ ادب ہے جو فیمنزم کو ذہن میں رکھ کر لکھا جاتا ہے، یا تو واضح طور پر ایک خیال کے طور پر یا کسی کام کے مواد میں پائے جانے والے تھیم کے طور پر۔ حقوق نسواں صنفی مساوات کے لیے کوشاں ہے اور خواتین کی زندگیوں کو متاثر کرنے والے نظامی مسائل کو دور کرنے میں مدد کے لیے کام کرتی ہے۔ حقوق نسواں کا ادب یہ دکھا سکتا ہے کہ خواتین کی انفرادی زندگیوں میں اس طرح کے مسائل کیسے پیدا ہوتے ہیں اور معاشرے میں صنف کیسے کام کر سکتی ہے اس کے متبادل تصورات کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے حل پیش کر سکتے ہیں۔ یہ خواتین کے گرد بیانیے کو مرکز بنا سکتا ہے اور خواتین کے ماضی میں نہ سنے جانے والے تناظر اور کہانیوں کو آواز دے سکتا ہے۔ جب کہ اس عقیدے کے طور پر بیان کیا جاتا ہے کہ صنفیں برابر ہیں، حقوق نسواں کی تعریف ذاتی طور پر وہ لوگ کر سکتے ہیں جو اس کے اصولوں کو اپنے روزمرہ کے وجود میں لاگو کرنا چاہتے ہیں
عام طور پر، حقوق نسواں ادب کی خصوصیات میں صنفی اصولوں اور کرداروں پر سوال اٹھانا، صنفی مساوات کے لیے کام کرنا، اور نسائی مسائل کو حل کرنا (مثال کے طور پر، گھریلو، سیاسی، اور سماجی میلیکس) شامل ہیں۔مجھے ذاتی طور پر فیمنسٹ میں دلچسپی رہی جس کی بہت وجوہات ہیں۔لیکن فیمنسٹ کا مغرب ومشرق میں سوچنے کا انداز بہت مختلف ہے۔مشرق میں محض اس لفظ سے یہ سوچ ذہن میں افراد کے آتی ہے کہ یہ تانیثی سوچ کی حامل خواتین مرد کے خلاف آواز بلند کرتیں ہیں۔جبکہ فیمنسٹ فقط خواتین کے حقوق کے لیے اپنا کرداراداکرتی ہیں۔علاوہ ازیں فیمنزم اور اسلام کا مطالعہ کیاجائے تو اندازہ ہوکے اسلام میں فیمنزم پر بے شمار لکھا جاچکا ہے۔
٢١٨صفحات پر مشتمل کتاب جس میں جامع انداز موضوع کا احاطہ کیا گیا ہے۔ صفحات کو محض کالا کرنے کی جستجو کی بجائے مصنف نے اختصار کے ساتھ اس کو چار ابواب میں منقسم کیا جس میں ناول میں کردار نگاری کافن اور تانیثیت بنیادی مباحث ،قرة العین کے تین ناولوں آگ کا دریا،آخر شب کے ہمسفر،چاندنی بیگم کا تانیثی جائزہ لیا ہے۔اپنے موضوع کے دائرے میں رہ کر انہوں نے یہ قلمبند کیا۔مجھے اس کتاب کی ذاتی طور پر جو خاصیت نظر آئی وہ انکے لکھے پیش لفظ میں یہ چند الفاظ ہیں:” ادب زندگی کا ترجمان ہے لیکن اگراسکی ترجمانی ایک جنس تک محدود ہوگی تواس کا مقصد ادھوراہی رہے گا۔” میں اس رائے سے ذاتی طور پر متفق ہوں۔ایسے تخلیق کار مردحضرات کم ہی ہیں جو صنفیت کے مسائل پر تحریرکرتے ہیں۔مشرقی معاشرے کی خواتین اس کام میں اولیت رکھتی ہیں۔انکے پہلے باب میں فن ناول نگاری کرداری ناول نگاری پر پر تفصیلی گفتگو کے بعد ناول کے آغاز پر مختصر روشنی ڈالی گئی ہے۔علاوہ ازیں ناول کی روایت اور ناول میں نسائی کرداروں کا بھی تذکرہ بہت جامع انداز میں کردیا ہے۔تانیثیت کےپس منظر، معاشرے میں عورت کی حیثیت،تانیثیت کامفہوم اور شاخیں ،فکشن میں تانیثی شعورپر اس باب میں عمدہ انداز میں تذکرہ کیا گیا ہے جو تانیثیت کے حوالے سے معلومات میں اضافے کا باعث ہے۔
دوسرا باب “آگ کا دریا کا تانیثی مطالعہ” ہے ۔آگ کا دریا ایک ضخیم ناول ہے جو نصاب میں بھی شامل ہے۔جس کی اردوادب میں ایک الگ پہچان ہے۔دوسرا اور تیسرا ابواب جن میں آخری شب کے ہمسفر اور چاندنی بیگم کا ذکر ملتا ہے۔ان تینوں ناولوں کو ایک ایک باب میں منقسم کرکے ان کا تفصیلی انداز میں تانیثی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔زیر نظر کتاب تانیثی شعور پر اس لیے اعلی ہے کہ اس میں مصنف نے نسائی جذبات واحساسات کو گہرائی سے قلمبند کیا ہے کہ ناولوں میں نسائی کرداروں کی عمدگی سے عکاسی کی گئی ہے۔انہوں نے ناول کے نسائی کرداروں کے جذبات واحساسات کو جس گیرائی سے مطالعہ کے بعد صفحہ قرطاس پراتارا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے ان کے نسائی کرداروں کا عمیق نظری سے مطالعہ کیا ہے۔اس کتاب میں طوالت اور الفاظ کی بے جا تکرار نہیں ملتی۔یہ کتاب اردوادب کے اساتذہ اور سکالر کے لیے مشعل راہ ہے۔علاوہ ازیں یہ تحقیق کے میدان میں اہم اضافہ ہے۔اُمید کی جاتی ہے کہ مستقبل میں انکے مزید شاہکار تخلیقات سامنے آئیں۔
نعمان نذیر کی یہ کتاب کافی حد تک اردو ادب نسوانی فلسفے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کر رہی ہے اور امید ہے کہ اس افق پر مزید لکھاری ابھریں گے۔
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.