احمد رضا انصاری چھوٹی عمر  اور بڑا کام/تبصرہ نگار : قانتہ رابعہ

You are currently viewing احمد رضا انصاری چھوٹی عمر  اور بڑا کام/تبصرہ نگار : قانتہ رابعہ

احمد رضا انصاری چھوٹی عمر  اور بڑا کام/تبصرہ نگار : قانتہ رابعہ

قانتہ رابعہ
سوشل میڈیا پر بسا اوقات ایسی چیزوں کی اتنی زیادہ تشہیر کی گئی ہوتی ہے کہ جب تک وہ ہاتھ میں نہ آجائیں قرار نہیں اتا لیکن یہ بے قرار اس وقت پچھتاوے میں بدل جاتا ہے جب اس چیز کو دیکھ نہ لیا جائے کتب ہوں تو ان کا مطالعہ نہ کر لیا جائے۔
ان کتابوں کے چند صفحات کے مطالعہ سے ہی اونچی دکان پھیکا پکوان جیسے محاورے ذہن میں دھمال ڈالتے ہیں ایسی کتب دیکھنے کیا سونگھنے  کے قابل بھی نہیں ہوتیں
لیکن اسی سوشل میڈیا پر ایسی چیزوں کا بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ دسترس میں ہوتی ہیں تو حیرت اور رشک کے ملے جلے جذبات سے دل و دماغ میں یہ بات آتی ہے کہ اگر یہ کتاب میرے مطالعے میں نہ ہوتی تو میں اس اس عمدہ کتاب سے لاعلم رہتی اور روح کو پیاسا ہی رہنے دیتی۔
جی احمد رضا انصاری جسے میں نے اس سے قبل نہیں پڑھا تھالیکن پریس فار پیس اور محترم بھائی پروفیسر ظفر اقبال صاحب کی آدب دوستی کے طفیل نادر کتب کے نسخے موصول ہوتے رہتے ہیں ۔گزشتہ دنوں ان کی طرف سے رباب عائشہ کی سدا بہار چہرے اور احمد رضا انصاری کی خونی جیت موصول ہوئیں۔
مجھے خونی جیت کا انتساب پڑھنے سے ایک لمحہ قبل رتی بھر بھی علم نہ تھا کہ خونی جیت کا موضوع کیا ہے اور یہ اردو ادب کی کس صنف سے تعلق رکھتی ہے؟
کتاب میں کہانیوں کا موضوع حیوانات اور ان کے مسائل ہیں لیکن انداز تحریر پختگی اور دلچسپی لیے ہوئے ہے یہ ممکن نہیں کہ آپ ان توتے بلی یا گدھوں کی کہانیاں پڑھتے ہوئے بوریت کا شکار ہوں یا کہانی میں جھول محسوس ہو۔
جو صفات انسانوں میں ہونی چاہیں وہ ان جانوروں کے اندر بھی بدرجہ اتم موجود ہیں ان انیس کہانیوں اور ایک ناولٹ میں گرچہ موضوع جانور اور ان کی زندگی ہے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ اکیس بائیس سالہ احمد رضا انصاری نے زندگی کے تمام سال ان جانوروں اور ان  کےرہن سہن کے  بارے میں تحقیق پر صرف کئے ہیں ۔مزے کی بات یہ بھی کہ انہوں نے ہر جانور پر خواہ وہ کوکو کینگرو ہو یا بنٹی گلہری ،لالی چڑیا ہو یا بینو بھیڑ ،شیرو کتا ہو یا ڈینو ہاتھی للو لومڑی یو یا کالو کوا جس کے بارے میں بھی لکھا ہے مکمل طور پر تحقیق اور بھر پور میسج دے کر کہانی میں رنگ بھرا ہے مثلاً ڈینو کے دانت کہانی معلومات کا خزانہ ہی نہیں ہاتھیوں کی نفسیات کے مطابق ایک عمدہ کہانی  ہے۔
سب جانتے ہیں کہ براعظم افریقہ میں گھنے جنگلات ہیں اور ہاتھیوں کی قیام گاہ بھی لیکن کم قارئین جانتے ہوں گے کہ ان جنگلات کے بیچوں بیچ سرسبز  میدان اصل میں ہاتھیوں کا ٹھکانہ ہیں اور ان میدانوں سے جنگل میں منتقلی اس وقت ہوتی  ہے۔ جب خزاں کے موسم میں گھاس سوکھ جاتی ہے اور یہ کہ ہاتھی کے بچے کو پاٹھا کہتے ہیں ،اور یہ کہ ہاتھی کو گنے بہت پسند ہیں اور یہ تو شاید جنگل کے باسی یا محکمہ حیوانات والے ہی جانتے ہوں کہ ہاتھی نہانے کے بعد اپنے اوپر کیچڑ ملتے ہیں
کیوں ملتے ہیں اس کا جواب کہانی میں موجود ہے؟
ہاتھی کے دانت تین سال تک نکلتے ہیں یہ بھی مجھے اس کہانی سے پتہ چلا ۔ہاتھی کی سونڈ اصل میں اس کا دشمن سے بچنے کے لیے بہت طاقتور ہتھیار ہے جو قدرت اسے عطا کرتی ہے۔
احمد رضا انصاری کی تمام کہانیاں انسانوں میں اخلاقی صفات پیدا کرنے کے لیے بہترین تحریک ہیں ۔باتوں ہی باتوں میں وہ مل جل کر زندگی بسر کرنے میں پیدا ہونے والی مشکلات اور ان کے بہترین حل پیش کرتی ہیں ۔کہیں وہ اکیلا رہنے کو ایک اکیلا اور پیار محبت سے ساتھ رہنے کو دو گیارہ قرار دیتے ہیں تو کہیں نادیدہ دشمن سے مقابلہ کے طریقے بتاتے پائے جاتے ہیں ۔ان کی ہر کہانی محبت ،ایثار اور خیر خواہی پر مشتمل ہے۔  ہر کہانی بھر پور پیغام ہے امن و اشتی کا۔
اگر میرے پاس کوئی اختیار ہوتا تو میں اس ننھے منے ادیب کو خدا کی مخلوق کے لیے امن کا سفیر قرار دیتی ان کی خدمات محکمہ حیوانات والوں کو بطور سفیر پیش کرنے کی سفارش کرتی۔
احمد رضا انصاری کی قوت مشاہدہ غضب کی ہے ۔الفاظ پر کمانڈ اور ارد گرد کے مناظر کی انتہائی دلکش تصویر اپنے قلم سے پیش کرتے ہیں کہ قاری اپنے آپ کو اسی ماحول کا حصہ محسوس کرتا ہے ۔ان کو جزئیات نگاری پر کمال حاصل ہے۔ اگر وہ موسم کا ذکر کرتے ہیں تو انداز بیان اتنا موثر ہوتا ہے کہ سرد ہوا چلنے کا لکھیں تو قاری پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ گرمی کی شدت کا بیان ہو تو پسینہ بہتا محسوس ہوتا ہے ،ان کی ہر  کہانی معلومات سے لبریز خزانہ ہے جو بچوں کی ہر طرح کی معلومات میں خاطر خواہ اضافے کا باعث بن سکتی ہے ۔گھوڑوں کے رہنے کی جگہ اصطبل ،لومڑی کی بھٹ ،اور بھینسوں کا باڑہ کہلاتی ہےان کی تحریر میں  ہلکا پھلکا مزاح اور تجسس بھرپور دلچسپی کا باعث بنتا ہے  ۔بہت سی کہانیاں یہی رنگ لیے ہوئے ہیں جیسے ایک تھی مہروبالکل ڈرامائی انداز میں بلی کی کہانی ہے جو دشمنوں کو پکڑوانے کا باعث بنتی ہے۔  وجہ معلوم ہو گئی ،کہانی میں بکریوں کیوں رات کے وقت شور کرتی ہیں وغیرہ ۔ایک اور دلچسپی کی حامل چیز مختلف جانوروں کے منفرد نام ہیں۔ مجھے نہیں لگتا جانوروں میں کوئی جانور ان کی کہانی کا کردار نہ بنا ہو۔
اگر مچھلیوں میں گوگی ڈولی روبی ہیں توچینو چیل بھی کم نہیں ۔چکومی چکور موجود ہے توبیزو بندر بھی جاندار کردار میں سامنے آتا ہے۔ چنگ ڈو گدھے کے ساتھ سرخ سرخ گاجروں کا شوقین پنکی خرگوش بھی بہادری ایثار کی داستان بن جاتا ہے الغرض نو عمر مصنف احمد رضا انصاری کی یہ کتاب اردو ادب کے شائقین کے لیے زبردست تحفہ ہے ۔بچوں کی کتاب سے عدم دلچسپی کی شکایت کرنے والے اس کتاب کو خریدیں اور بچوں کو کہانیاں سنائیں اس کی زبان خوبصورت اور شستہ ہے ۔ماحولیات والوں کے ساتھ چڑیا گھر والوں کو اس کتاب میں خصوصی دلچسپی لینا چاہئیے۔
تاہم ایک منی سی تجویز ہے کہ کتاب کا نام مجھے مناسب نہیں لگا۔ خونی جیت میں جیت پر تو دھیان نہیں جائے گا بس خونی لفظ دہشت کے لیے کافی  ہو گا کتاب کا نام تومڑے کی بڑھیا ،انگور میٹھے ہیں ،یا بیل کا بندر بھی منتخب کیا جا سکتا تھا۔
کتاب عمدہ سرورق،بہترین طباعت اور موٹے فونٹ میں قابل تعریف ہے جسے پریس فار پیس فاؤنڈیشن نے شائع کیا ہے ۔میں انہیں اس کتاب پر مبارکباد پیش کرتی ہوں کتاب بہترین ساتھی ہی نہیں مربی بھی ہے ۔مصنف احمد رضا انصاری قابل تعریف ہیں جنہوں نے اس کمسنی میں اتنے بڑے کام کا بیڑہ اٹھایا اور خوش اسلوبی سے انجام دیا۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.