کتاب: خونی جیت
مصنف : محمد احمد رضا انصاری
تاثرات : مہوش اسد شیخ
کتاب” خوبی جیت “بہترین، دیدہ زیب سرورق جسے دیکھتے ہی بچوں کا دل کتاب پڑھنے کو یا کہانی سننے کے لیے مچل مچل اٹھے۔ صرف یہی نہیں اس خوبصورت کتاب کی ڈیزائننگ بہت زبردست ہوئی ہے، ہر کہانی کے ساتھ اس سے مطابقت رکھتے اسکیچ نے کتاب کا حسن دوبالا کر دیا ہے۔ بچوں کی دلچسپی کا مکمل سامان مہیا کیا گیا ہے۔ جہاں ادارے نے کتاب کی اشاعت انتہائی عمدہ کی ہے وہیں نوعمر مصنف محمد احمد رضا نے مواد بھی بہت عمدہ فراہم کیا ہے۔ اس کے قلم نے بھی پورا حق ادا کیا ہے۔ بچوں سے محبت کا بہت خوب ثبوت پیش کیا ہے۔ ان کے اذہان اور دلچسپی کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ بچوں کے لیے جہاں پریوں کی کہانیاں دلچسپی کا عنصر رکھتی ہیں وہیں بولتے ہوئے جانور اور پودے بھی انہیں لبھاتے ہیں۔ وہ حیرت و دلچسپی سے ایسی کہانیاں سنتے ہیں اور سوالات بھی کرتے ہیں جس سے ان کی عقلی طاقت کو تقویت ملتی ہے۔
ایک بات اور بہت پسند آئی ہے وہ یہ کہ جانوروں کے بہت پیارے پیارے نام رکھے گئے ہیں، کوکو کینگرو، لالی چڑیا، ڈینو ہاتھی، ریٹو بلی، چینو توتا، پنٹو بندر وغیرہ
پہلی کہانی ہی بہت شاندار ہے۔”اور سوچ بدل گئی”۔
واقعی سبھی انسان ایک سے نہیں ہوتے۔
“وجہ معلوم ہو گئی” ۔ اسمر نے بہت سمجھداری سے بکری کے بچوں کا مسئلہ حل کیا، اب مسئلہ کیا تھا وہ آپ کہانی پڑھ کر ہی جان سکتے ہیں ۔
“ریٹو کیسے بدلی؟” تعلیم اچھے اچھوں کو سدھار دیتی ہے۔ ماشا اللہ پیاری کہانی ہے۔
“چالاکی کا نقصان “،” ایک تھا جگنو “ بڑوں کی بات ماننے کا درس دیتی ہیں۔
ویسے اکثر کہانیاں یہ سبق دیتی دکھائی دیں کہ والدین اور بڑوں کی بات ماننی چاہیے نہ ماننے کی صورت میں نقصان اٹھانا پڑتا ہے لیکن ہر کہانی کا انداز مختلف تھا۔ یہ سوال تو میرے بیٹے نے بھی کیا کہ ہر کہانی میں ماں باپ کی بات ماننی ہوتی ہے۔ اسے یہ کتاب بہت پسند آئی ہے، ہر کہانی بہت شوق سے سنتا رہا ہے بلکہ بار بار فرمائش کرتا ہے کہ فلاں کہانی سنائیے، کوکو کینگرو کی کہانی کئی بار سن چکا ہے۔ ان کہانیوں کے ساتھ ان کے کرداروں کی تصاویر اس کے شوق کو ہوا دینے میں کامیاب ٹھہرے ہیں۔
“چینو کی ندامت “ نے ہمسائیگی کا حق ادا کرنے کا سبق بخوبی دیا۔” ٹنکو بونا “ اور” نادیدہ دشمن“ نے بھی کچھ ایسا ہی سبق دیا لیکن انداز یکسر مختلف تھا۔
“تومڑے والی بڑھیا“ بھی مزے دار کہانی تھی بڑھیا بڑی سیانی نکلی۔سرورق کہانی” خونی جیت “بہت خوب ایڈونچر کہانی تھی۔
“چینی چیونٹی“ کو بہت خوب سبق ملا کیا سبق ملا یہ تو کہانی پڑھ کر ہی پتہ چلایا جا سکتا ہے۔
۔ “شیرو” کہانی میں انسانوں پر کیا خوب چوٹ کی گئی ہے ۔ جانوروں سے لالچ کا مادہ اب انسانوں میں منتقل ہو چکا ہے۔تف افسوس
۔ “ایک تھی مہرو!“ ناقابل یقین مگر پیاری کہانی
“تین دوست تین بہادر “ مشرقی اور مغربی جنگل کے باسیوں کی جنگ کی کہانی، تین بہادر دوستوں نے کس بہادری سے اپنا علاقہ محفوظ کیا کیسے حکمت عملی سے کوئی بھی جانی نقصان کیے بغیر جنگ جیتی ۔ بچوں کے لیے بہت دلچسپ ناولٹ ہے۔
بیس کہانیوں اور ایک ناولٹ پر مشتمل خونی جیت بلاشبہ ایک پیاری کتاب ہے۔
اس کتاب سے جو میں نے سیکھا وہ یہ ہے کہ مجھے جانوروں کے مسکن کے نام اور ان کے بارے میں بہت سی معلومات ملی ہیں ورنہ اس سے پہلے مجھے کچھ علم نہ تھا کبھی جانوروں میں اتنی دلچسپی لی ہی نہیں تھی۔ مصنف نے کہانی کہانی میں معلومات کا اک ذخیرہ بھی قارئین تک بخوبی پہنچایا ہے۔”ڈینو کے دانت ” معلومات باہم پہنچاتی ایک بہترین کہانی تھی۔ اس فعل کے لیے مصنف کے قلم کے لیے ڈھیروں داد و دعائیں۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.