بارشوں کی شاعرہ/ مبصر:۔انتظار حسین ساقیؔ۔ 

You are currently viewing بارشوں کی شاعرہ/ مبصر:۔انتظار حسین ساقیؔ۔ 

بارشوں کی شاعرہ/ مبصر:۔انتظار حسین ساقیؔ۔ 

مبصر:۔
    انتظار حسین ساقیؔ۔ 
کائنات کی ہر چیز میں محبت کا پہلو نمایاں ہے۔کائنات کی دلکشی اور  خوبصورتی  ، محبت، پیار ،عشق اور اعلی اخلاق سے عبارت ہے اپنی کسی بھی
محبت بھری بات کا اظہار کرنے کے لیے شاعری کا سہارا لینااس معاشرے میں سب سے زیادہ خوب صورت عمل ہے ۔عام سی گفتگو کو شاعری خاص بنا دیتی ہے اگر کسی بے وزن ، بے ڈھنگے جملے  کو غزل کے کسی شعر یا نظم کے بند میں تخلیق کر دیں تو وہ شاعری بن جاتا ہے ۔اور اپنے ارد گرد ہونے والے تمام حالات و واقعات ، احساسات ، محبتوں ، چاہتوں  ، عقیدتوں  ، حسرتوں  ، شرارتوں اور آرزؤں کو لفظوں کے پیرہن میں لپیٹ کر اپنے جزبات اور احساسات کی ترجمانی کرنا شاعری کہلاتا ہے ۔یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ ایک اچھا شاعر ایک اچھا قلمکار اور ایک اچھا لکھاری اور ناول نویس لفظوں کی صورت  تحریر  کی صورت ، کبھی کسی غزل یا کسی گیت کی صورت ، کسی نظم  ، گیت یا کسی فلم کی صورت ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتا ہے ۔شاعری انسان کو کم ازکم ایک صدی تک  اپنی آغوش میں لوریاں سناتی رہتی ہے ۔نجانے کتنے لوگ اس دنیا ۓ فانی سے کوچ کر گۓ مگر اُنکی شاعری ،اُنکے خیال اور الفاظ آج بھی زندہ و جاوید ہیں ۔
علم وادب کے لیے جہاں فکر و فن کی آگہی ضروری ہے وہاں اچھے الفاظ کا چُناؤ ایک ادیب کو بہت دیر تک زندہ رکھتا ہے ۔آنکھوں میں ٹوٹے ہوۓ خوابوں کی کرچیاں سمیٹنا ، خزاں کے زرد پتوں پر بہاروں کے قصیدے لکھنا ، برفات رُتوں میں ساکن لمحوں کو یکجا کرنا یہ وہ کمالِ فن ہے جو شاعری کو جلا بخشتے ہیں ۔کچھ لوگ ساری زندگی لفظوں کے پیچ وخم میں اُلجھے رہتے ہیں اُ نکے بالوں میں اُ ترتی ہوئی چا ندی اس بات کی گواہ ہوتی ہے کہ اُنھوں نے نجانے کتنی راتیں چاند سے ، تاروں سے باتیں کرتےلفظ تراشے ہیں محبت کے جزیروں میں جب ویران پگڈنڈیوں پر چلتے چلتے آبلے ہمارا مقدر بن جاتے ہیں ۔ تو پھر کُند ذہن  آدمی بھی کا غز اور قلم کے ذریعے  ذہن میں اُترنے والے خیالوں کو غزل یا نظم کا روپ دے ڈالتا ہے۔اور پھر یہاں پر سانسیں بھی سُنائی نہیں دیتیں ۔وہاں پر شاعری اثر کرتی ہے ۔لفظ بولتے ہیں ۔ وہ سردیوں کی  ایک خو بصورت صبح طلوع ہو چکی تھی دُھند اور کُہر میں لپٹی سورج کی کرنیں بادلوں سے اٹکھیلیاں کرتی کتنی حسیں لگ رہی تھیں ۔ہر طرف دُھند اور جیسے دُھواں ساہو ۔ اور ساتھ کبھی ہلکی ہلکی بارش کی پھوار، ایسا خوب صورت موسم سردی کا احساس ہی نہیں ہونے دے رہا تھا۔میں حاصل پور پریس کلب میں ایک مشاعرے اور کتاب کی رونمائی  میں سید مبارک علی شمسی کی دعوت پر مدعو تھا۔ وہاں پر میری ملاقات اُس ہستی سے ہوئی جنکی کتاب کی رونمائی تھی یہ میری اُن سے پہلی ملاقات تھی کتاب کا نام “مودت نامہ”  تھا اور یہ محترمہ معظمہ نقوی کی کتاب تھی ۔اور آج میرے ہاتھ میں ان کی چوتھی کتاب  “آخری بارش ” ہے ۔ اس پر تبصرہ کے لیے اُنھوں نے کہا توبہت خوشی ہوئی ۔معظمہ نقوی کا تعلق پاکستان کے بہت مشہور شہر ڈی۔ جی۔ خان سے ہے ۔یہ سر زمین ادبی حوالے سے نہایت زرخیز اور بلند پایہ ہے اس زمین نے ادب کے حوالےسے بہت بڑے شاعر ،ادیب اور قلمکاروں کو جنم دیا۔ شعر وسخن اور ادبی حوالے سےبہت معتبر نام عظیم شاعر جناب سید شفقت کاظمی کا ہے اور اُ ن کے شاگرد جنہوں نے پوری دُنیا میں اپنی شاعری ، خطابت  ، عقیدہ گوئی ، مرثیہ نگاری ، غزل و نظم کے حوالے سے عظیم شاعر  “شہید محسن نقوی”ہیں،علاوہ ازیں  سرور کربلائی ،کیف انصاری ، سعیدہ افضل ،  حاجی زوار حسین گوہر، ارشاد ڈیروی و دیگر معتبر نام ڈی۔جی۔خان کی پہچان کاحوالہ ہیں ۔  معظمہ نقویؔ بھی اس ادبی فضاء میں اپنا الگ مقام پیدا کر چکی ہیں ۔اُن کی دو تالیف اور دو تصانیف منظرِ عام پر آ چکی ہیں ۔ انکی کتاب “آخری بارش” نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کتنے کم عرصہ میں اُ نھوں نے اپنی شاعری کا لوہا  منوایا ہے۔اُنھوں نے محنت اور لگن سے ملک بھر کی ادبی تنظیموں اور حلقوں سے بہت سے انعام واکرام ، گولڈ میڈلز  ، اسناد  ،اور شیلڈز حاصل کیے ہیں ۔ “معظمہ نقوی “لفظوں سے پیار کرنے والی ،ایک سلجھی ہوئی اور منجھی ہوئی شاعرہ ہیں ۔قلم و قرطاس سے عشق اور لفظوں کی حرمت کا پاس رکھنا انہیں ورثے میں ملا ہے ۔کیونکہ شفقت کاظمی جیسے برصغیر پاک وہند کے قادر الکلام شاعر جو کہ مولانا حسرت موہانی کے شاگرد و جانشین تھے آپکے دادا تھے یہ شعری شغف آپکو اسی نسبت سے ورثے میں ملا ہے ۔”آخری بارش” ان کی تخلیق میرے ہاتھوں میں ہے اتنی خوب صورت اور دلکش کتاب پہلے شاید میری نظر سے کبھی گزری ہو گی ۔ کتاب میں ہر صفحہ ہی ایک دلکش رنگ لیے ہے ۔ کتاب کے ہر صفحہ پر ہر نظم کی مناسبت سے  خوبصورت خیالی تصاویر ہیں ۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے تتلیوں کے رنگین پروں پر اپنے لفظ لکھ دیے ہوں ۔کتاب کے صفحات پر بکھرے پھول اور ان کی پتیاں قاری کے ذہن پر دلفریب منظر کشی کو نقش کرتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی دوشیزہ  اپنے ہاتھوں میں پھولوں کے گلدستے لیے کھڑی ہے اور ہر طرف اُن کی خوشبو بکھر رہی ہے ۔ کتاب کو ہر حوالے سے ایسے سجایا گیا ہے جیسے کسی دُلہن کو سولہ سنگھار کرکے آراستہ کیا جاۓ۔ اس کتاب کی پہلی خوبصورتی دیکھیں  ۔کتاب کا نام تو “آخری بارش  ” ہے ۔مگر اس کا انتساب  “محبت کی پہلی بارش کے نام ” ہے ۔ پھر اس کا  “پیش لفظ  “جو کہ اپنے عنوان سمیت دیدہ زیب ہے ۔ معظمہ نقویؔ نے چند سطروں میں ایک بہت بڑی داستان کو جنم دے کر گویا ایک کوزے کو سمندر  میں بند کردیا۔ ان کی ایک نظم جو مجھے بطورِ خاص بہت اچھی لگی آپ بھی ملاحظہ فر مائیں ۔

 طلسمِ شب
اکثر چاند راتوں میں
ویران راہگزاروں پر
چاندنی کی بارش میں
جب پیڑ بھیگ جاتے ہیں
تو خامشی کے ہونٹوں سے
ایک آواز آتی ہے
رات گنگناتی ہے !
اس نظم میں انھوں نے کتنے خیالات کو جزبات کو کتنے موسموں کو ایک جگہ اکٹھا کرکے آپ کی آغوش میں رکھ دیا ہے اُ ن کی ہر نظم ہی محبت کی الگ دُ نیا سمیٹے ہوۓ ہے ۔ اُن کی شاعری فنی اعتبار سے بہت جاندار ہے ۔اُن کی ایک اور  نظم جواُنھوں نے خوشبو کی شاعرہ  “سیدہ پروین شاکر” سے عقیدت و اُنسیت میں اُن  کو خراجِ تحسین کے طور پر پیش کی ہے جو  مجھے نہایت دیدہ زیب لگی ہے۔  اس کے علاوہ ان کی کتاب میں ایک احساس، محبت کبھی مرتی نہیں  ، ایک کہانی  ، آس  ، چہرہ ، یادیں  ،ادھورا چاند وغیرہ نہایت خوب صورت نظمیں ہیں جن کو تشبیہات ، استعاروں ، اور جدید بحروں سے آراستہ کیا گیا ہے ۔ “آخری بارش ” میں  ان کی شاعری پر بہت سی  قد آور ادبی شخصیات نے اپنی آراء درج کروائی ہیں ۔  جو اُن کی شاعری کے کمال فن کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔میرے نزدیک ان کے ادبی سفر میں یہ کتاب ان کی بہت بڑی کامیابی ہے ۔عشق کا سفر نہایت کٹھن اور دشوار گزار ہے لیکن  اگر لگن سچی ہو تو  ہر مشکل طے  ہو جاتی ہے ۔  “آخری بارش ” آپ کے ادبی سفر کی پہلی بارش ہے .اُن کی کتاب کے اندر جو لفظ ہیں وہ تو دل میں اُترنے والی وہ بوندیں ہیں جن سے دلوں میں کونپلیں پھوٹتی ہیں ایسی بارش ہے جس میں ماضی کے خوب صورت خیال اُمڈ آتے ہیں  ایسی بارش جس میں بھیگنے کو دل کرتا ہے ایسی بارش کہ جس کی بوندیں چرانے کو دل کرتا ہے ۔معظمہ نقوی نے اپنے سارے لفظ “آخری بارش ” کی صورت ایک لازوال کتاب کی صورت ہمارے سامنے رکھ دی ۔۔میں دُعا گو ہوں کہ ایسی ہزاروں بارشیں آپ کے علمی و ادبی سفر کا مقدر ہوں اور وہ ہمیشہ ایسی خوب صورت شاعری ہماری سماعتوں اور بصارتوں کے نام کرتی رہئیں ۔ابھی بہت سی منزلیں آپ کی منتظر ہیں ۔ ابھی بہت سی بارشیں آپ کی نوکِ قلم سے اُترنی ہیں ۔ ابھی بہت سارے ادھورے خوابوں کو پورا کرنا ہے ۔ ابھی آپ کو بہت سارے لفظ دھرتی کے سپرد کرنے ہیں ۔ اور اللہ رب العزت بصدقہء پنجتنِ پاکؑ آپکے علم و قلم میں کثیر برکت عطا فرمائیں ۔آمین  !
یہ شعر آپکے نام

؎ گھول دیا ہے کسی نے آنکھوں میں بدن اپنا
مگر نگاہ کو ضد ہے کہ رو شنی کم ہے

 ————


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.