انعام الحسن کاشمیری
بین کرتی آوازیں ہمارے اردر گرد، ہمارے اطراف میں، ہمارے معاشرے کے ہرروزن میں، ہر در میں اور ہربام کے اوپر اپنے تلخ وجود کے ساتھ رقص ابلیس کی صورت موجود تو ہیں لیکن ہمیں ان کے غیرمرئی وجود کاٹھیک طرح سے اندازہ نہیں ہوتا۔ ہم چونکہ انھیں دیکھ نہیں پاتے اس لیے یہ سمجھ نہیں سکتے کہ یہ آوازیں کہاں سے آرہی ہیں حالانکہ اگر ہم تھوڑی سی بھی عمیق نگاہ ڈالیں تو یہ ہمیں اپنے وجود کے اندر سے آتی ہوئی صاف طور پر معلوم ہوسکتی ہیں۔ اور اگر کسی کے پاس یہ عمیق نگاہ نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ ڈاکٹرنسترین احسن فتیحی کی نگارش ”بین کرتی آوازیں“ کا مطالعہ کرلے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ شورو غل، بھاگ دوڑ، آپا دھاپی کے ماحول سے یکسر دور، مکمل تنہائی اور خاموشی میں یہ کتاب پڑھی جائے، جو دراصل افسانوی مجموعہ ہے تو ہمیں یہ آوازیں پھر اپنی پوری طاقت کے ساتھ صاف شفاف طور پر سنائی دینے لگیں گی یہاں تک کہ ان تھرتھراتی آوازوں کے مجسم وجود پر ہمیں اپنا جسم بھی محوِ رقصاں دکھائی دینے لگے گا۔
”بین کرتی آوازیں“دراصل معاشرے کے ایسے المیوں کی نوحہ خوانی ہے، جن سے ہم ہرروز دوچار ہوتے ہیں۔ صبح سے شام اور شام سے صبح تک کی زندگی کے الگ الگ مراحل اور مدارج میں ایسے تجربات، مشاہدات اور واقعات جابجا بکھرے دکھائی دیتے ہیں لیکن ہم انھیں کہیں نظرانداز کرکے گزرجاتے ہیں اور کہیں ان کی تلخی کے بوجھ تلے دب کر اپنا وجود مسمار کرنے لگتے ہیں۔ ڈھیروں چھوٹے چھوٹے واقعات کہ جنھیں اگر ترتیب سے لکھنا شروع کردیاجائے، جو دفتروں کے دفتر بھرجائیں لیکن ہم اپنی سستی، کاہلی اور جزو رسی کی عادت سے مجبور ہوکر محض اس لیے اپنی حسیات کو مردہ کرنے اور اپنی آنکھیں موند لینے میں عافیت جانتے ہیں کہ ہمارے قدم رک نہ جائیں۔ ہم کسی ایک اندوہناک منظر کے کرب کے گرداب میں الجھ کر نہ رہ جائیں۔ ہم مدد کے لیے چیخ و پکار کرنے والوں کی کلیجہ شق کردینے والی صداؤں کو ان سنی کرتے ہوئے اپنا دامن چھڑاکر آگے بڑھ جانے ہی میں خیر سمجھتے ہیں۔ یہی وہ ہمارا انفرادی اور اجتماعی المیہ ہے جو ہماری ذات سے لے کر ہمارے معاشرے تک کو بے رحم موجوں کے خوفناک تھپیڑوں کے حوالے کردیتا ہے، جس کے بعد سوائے کسک اور آہ وفغاں کے، ہمارے پاس کچھ نہیں رہ پاتا لیکن ہم ہیں کہ اس اجتماعی شعور ودانش کی موت پر خوشی سے محوِ رقصاں رہتے ہیں۔ ہمارے تھرتھراتے جسم دھیرے دھیرے زوال کے پاتال میں اترتے چلے جاتے ہیں لیکن ہمیں اس کا احساس نہیں ہوپاتا۔ اس احساس کی تقویت کے لیے لازم ہے کہ ہم ”بین کرتی آوازیں“ کی چبھن، اس کی کسک اور اس کی ٹیس کو پورے التزام کے ساتھ محسوس کریں۔ ہم ”بین کرتی آوازیں“ کو اس کی روح کے ساتھ پڑھیں، ہم لفظ لفظ کو اس کی پوری حساسیت کے ساتھ اپنے وجود میں اتاریں، اس کے بعد ہی جاکر ہمیں ٹھیک طرح سے اندازہ ہوپائے گا کہ ڈاکٹرنسترین احسن فتیحی نے ہمیں کس پاتال سے کھینچ تان کر باہرنکالاہے اور کس گہرے کنویں کی نشاندہی کرتے ہوئے ہمیں اس کی جانب قدم بڑھانے سے روکنے کی کوشش کی ہے۔
”بین کرتی آوازیں“ میں شامل افسانے اور افسانچے ہماری زندگی کے وہ المیے ہیں، جن سے ہمیں ہرروز سابقہ پڑھتا ہے جن کی اضطراب انگیزی ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر برانگیختہ تو کیے رکھتی ہے لیکن ہم لیکن ہم اپنی قوت مشاہد ہ کے عدم استقرار کے باعث ان کے مستقل اور دیرپا حل یاتدارک کی جانب قدم بڑھانے بوجہ گریزاں رہتے ہیں۔ ڈاکٹرنسترین نے بڑے خوبصورت انداز میں زندگی کے ان المیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے دکھ اور کرب سے ہمیں آشنا کرنے کی خوب کوشش کی ہے۔ یہ دکھ اور المیے دراصل ہمارے اپنے ہیں۔ ہم کسی بھی سماج، معاشرے یا تہذیب میں جاکر بھی ان کے وار سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ یہ ایسے افسانے ہیں جو سرسری نگاہ کے ہرگز متحمل نہیں ہوسکتے۔ اگر ایسی واجبی نگاہ ڈالی جائے تو یہ پوری کتاب ہی بالکل ردی معلوم ہوتی ہے۔ یہ افسانے دراصل ہماری پوری توجہ کے متقاضی ہیں کہ ہم مکمل فارغ وقت میں ان پر اپنی نظرگاڑیں، اور پھر آخر تک نہ اٹھائیں۔ یہ دلچسپی اور توجہ ان افسانوں کا پرت پرت کھول کر پھر ہمارے سامنے یوں آشکار کرتی ہے جیسے کوئی مہ جبیں اپنی زلفیں کھولے ہمارے سامنے آبیٹھی ہو، اور ہم میں پھر اتنی تاب باقی نہ رہے کہ اس کے چہرے سے نظریں ہٹاسکیں۔
ان افسانوں کی زبان و بیاں بڑی سادہ، دلچسپ اور متحیر کردینے والی ہے۔ گو کہ ان افسانوں میں کہانی کو اس کے اصل پیرائے میں بیان نہیں کیا گیا لیکن اس کے باوجود جب ایک افسانہ پڑھ لیاجائے، تو یہ کہانی ازخود ہمارے ذہن میں جنم لیتی اور اس کے لطف اندوز ہونے یا اس کے کرب کو اپنے وجود میں بکھیرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ ”کشمکش“ افسانہ میں محترمہ نے جس رقت انگیزی کے ساتھ مضمون باندھا ہے، اس کی ہر سطر ہی ہمارے دل کو اپنی مٹھی میں بھینچ کر اسے سینے سے باہر نکالنے کے لیے بے تاب دکھائی دیتی ہے۔ ہندوستان میں سائیکل رکشہ عام ہیں اور ایک مجبور و بے کس شخص جس نے تین روز سے کچھ کھایاپیا نہ ہو، جب ایک مسافر کو لیے جسے صبح کی پہلی بس پکڑنی ہے، پہاڑی راستے پر کھینچ کر پیڈل پوری تیزی کے ساتھ چلانے کی کوشش کررہاہو، تو یہ رقص ابلیس دکھائی دیتاہے۔ سائیکل کی رفتار سے دوگنا دل کی دھڑکن چلتی ہے، اور اختتام پر یہ دھڑکن اپنی پشیمانی اور حیرانی کے عناصر تلے دب کر ہمیشہ کے لیے خاموش ہوجاتی ہے۔
”ہٹلر“ میں بڑی عمدگی کے ساتھ ہجوم کی اجتماعی نفسیات بیان کی گئی ہے اور پھر اس کے نرغے میں آئے ہوئے لوگ کیا کچھ سوچتے ہیں، اس کی اظہار بھی بڑی عمدگی کے ساتھ اس طرح کیا گیا ہے کہ افسانہ پڑھتے ہوئے دراصل فلم پردہ سکرین پر چل رہی ہوتی ہے۔ اس افسانے کو پڑھ کر ہمیں اندازہ ہوتاہے کہ کسی خاص مقصد کے تحت جمع ہونے والے چند لوگوں پر مشتمل ہجوم کس طرح اپنے سے کوئی گنا زیادہ لوگوں پر بآسانی حاوی ہوجاتاہے یہی وجہ ہے کہ یہ فسادی ہجوم پورے شہر کو یرغمال بنا کررکھ دیتا ہے لیکن ہزاروں لاکھوں نفوس پر مشتمل یہ شہر اپنی حفاظت کے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔
مجموعی طور پر تمام افسانے ہی ہماری روزمرہ زندگی سے جڑے واقعات کی کسک کو بخوبی بیان کرتے ہیں۔ ان کا اظہار جس دلچسپ پیرائے میں کیا گیا ہے، اس کی مثالیں پوری کتاب میں جابجا بکھری دکھائی دیتی ہیں۔ ”یہ عجیب عورتیں“ افسانے میں یہ جملہ ”اسی سالہ خاتون کے خون میں کہاں سے اتنی گرمی آگئی کہ برف گراتے آسمان کے نیچے بیٹھنے کا حوصلہ پیدا ہوگیا تھا ان میں“ اس دلچسپ اظہار بیان کی ایک مثال ہے۔ اس طرح کے خوبصورت اور توجہ کو فوری طور پر اپنی جانب کھینچ لینے والے جملے ہرافسانے کا حسن بخوبی بڑھاتے ہیں جس سے افسانہ نگار کی مہارت کا خوب خوب اندازہ ہوتا ہے۔ یہ سب افسانے دل سے لکھے گئے ہیں اور انھیں دل ہی سے پڑھیں، تو ان کا حظ ٹھیک طور پر اٹھایاجاسکتاہے۔ یہ دراصل عام کتاب کی طرح چلتے پھرتے، بھاگتے دوڑتے پڑھنے والی نہیں، بلکہ جس ماحول اور جذبات تلے ڈاکٹرنسترین احسن فتیحی نے انھیں قلم بند کیا ہے، یہ اسی جذبے کے تحت پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ڈاکٹرنسترین احسن فتیحی نے اگرچہ یہ افسانے اپنے ماحول اور معاشرے سے متاثر ہوکر قلم بند کیے ہیں، لیکن انھیں پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارے دکھوں اور المیوں کو ان میں سمویاگیا ہے۔ بنیادی طور پر ہمارے خطے کے مسائل، مصائب اور پریشانیاں ومصائب ایک جیسے ہیں کہ ہماری سوچ، فکر اور ذہانت یکساں ہے اس لیے ان کی کوکھ سے جنم لینے والے چیزیں بھی ایک جیسا روپ اور رنگ لیے ہوئے ہوتی ہیں۔
پریس فار پیس فاؤنڈیشن یوکے نے ”بین کرتی آوازیں“ بڑی عمدگی کے ساتھ شائع کی ہے۔ اس کاخوبصورت گیٹ اپ، شاندارجلدکے اوپرآرٹ پیپر پر چھاپا ہوا دوہرا سرورق، اور معیاری کاغذ کے ساتھ اس کی اشاعت دل موہ لینے والی ہے۔ محترم ظفراقبال بڑی دلچسپی اور توجہ کے ساتھ نہ صرف کتب کی اشاعت عمل میں لارہے ہیں بلکہ انھیں عام قاری تک پہنچانے اور انھیں کتاب بینی کی طرف مائل کرنے میں بھی اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کررہے ہیں۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.