صبیح الحسن کے مختصر لیکن پر اثر افسانے۔ انعام الحسن کاشمیری 

You are currently viewing صبیح الحسن کے مختصر لیکن پر اثر افسانے۔ انعام الحسن کاشمیری 

صبیح الحسن کے مختصر لیکن پر اثر افسانے۔ انعام الحسن کاشمیری 

انعام الحسن کاشمیری 

جب تک کسی تخلیق کار کی نگارشات کو قبل ازیں پڑھا ہوا نہ ہو تب تک اس ک مجموعہ کلام کو پڑھنا ممکن نہیں ہوتا کہ طبیعت اس جانب آسانی سے مائل نہیں پوتی۔۔دراصل معلوم ہی نہیں ہوتا کہ زیر مطالعہ کتاب کے خالق کا معیار کیا ہے۔۔اس کا انداز تحریر کس نوعیت کاہے اور کیا کتاب پڑھ کر وقت کو علم و معلومات کے دائرے میں مقید کرلیاہے یا زیست کی تسبیح سے لحمات و اوقات کے کئی دانے توڑ کر نالی میں بہادیے ہیں ۔۔۔رسائل و جراِئد میں زیرتبصرہ افسانہ نگار کی نگارشات کے مطالعہ کے بعد یہ بات طے کرنے میں آسانی رہتی ہےکہ اس نے جو کتاب تخلیق کی ہے اور بڑی محبت کے ساتھ مطالعہ اور تبصرہ کے لیے ارسال فرمائی ہے اسے پڑھا جائے یا نہیں۔۔۔
اگرچہ زیرک لکھاری اپنا زیادہ زور دیباچہ ، ممتاز لکھاریوں کی آراء اور کتاب کی زیب ق زینت پر لگاتے ہوئے قاری کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کی تخلیق ادب کے اعلی معیارات کو نہ صرف چھوتی ہے بلکہ اس کے بغیر ادب کا تذکرہ بھی مکمل نہیں ہوتا۔۔۔
جناب صبیح الحسن کو میں نے پہلے نہیں پڑھا۔۔۔لیکن جہنم کا کیوبیکل کے افسانوی مجموعہ کا پہلا افسانہ پڑھتے ہیں شدت سے یہ خواہش ابھری کہ پوری کتاب کا مطالعہ کیا جائے۔۔۔صبیح الحسن نے اس افسانوی مجموعہ میں کمال کے تجربات کیے ہیں۔۔انھوں نے افسانوں اور افسانچوں کو یکجا پیش کیا ہے۔۔۔اگرچہ ان کے افسانے بھی افسانچوں ہی کی تھوڑی سی پھیلی ہوئی شکل ہیں۔۔۔انھوں نے 73 صفحات میں 14 افسانے ترتیب دیے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ کوئی افسانہ چار پانچ صفحات سے زائد پر مشتمل نہیں۔۔۔مختصر افسانہ لکھنا اور موضوع کی مکمل تفہیم اگرچہ ایک آرٹ ہے لیکن موجودہ زمانے میں زندگی کی بھاگ دوڑ انواع و اقسام کی مصروفیات کے باعث وقت کی بے انتہا قلت کے سبب اگرچہ قاری کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ جناب غلام عباس اور جناب احمد ندیم قاسمی ودیگر کلاسیکل افسانہ نگاروں کے طویل افسانے پڑھے۔۔پڑھنے سے مراد محض پڑھنا ہی نہیں بلکہ لطف بھی حاصل کرنا ہے۔۔۔آج کا افسانہ نگار قاری کی اسی مجبوری کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی طویل افسانہ لکھنے کی کوشش نہیں کرتا چنانچہ جس طرح دنیا سکڑ رہی ہے اسی طرح افسانے کی طوالت بھی سکڑ رہی ہے اور اب لوگ مختصر افسانہ یا افسانچہ پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔۔۔ناول کی صورت حال الگ ہے۔۔جناب صبیح الحسن نے مختصر افسانہ لکھتے ہوئے اس کے تمام تلازموں کی تکمیل احسن انداز میں کی ہے۔۔موضوع کے عنوانات سے لے کر کہانی کے اختتام تک ہرجگہ دلچسپی کے عناصر موجود ہیں۔۔۔اگرچہ کئی افسانے کرشن چندر کے بیشتر افسانوں کی طرح کہانی کے بغیر ہی موجود ہیں لیکن اس میں بھی قاری
کو کسی قسم کی کمی کا احساس نہیں ہوتا۔۔۔

سب سے اہم چیز افسانے کی ابتدا ہے تاکہ قاری کی توجہ کو جکڑا جاسکے۔۔اس کے لیے بڑے دلچسپ اور متوازن جملے کی ضرورت ہوتی ہے جس میں صبیح الحسن کامیاب رہے۔۔جس طرح کے بجازو کے آغاز میں لکھتے ہیں” تاریک اور اداس کمرے میں تنہا لیٹا قطب دین لمحوں کا شمار کھوچکا تھا ۔ایک جمود اس کا احاطہ کیے ہوئے تھا۔”
افسانہ گھڑی میں ٹھہرا لمحہ میں افسانہ نگار یہ بتانے کی کوشش کررہاہے کہ سگی اولاد سے بڑھ کر کوئی نہیں لیکن یہ جاننے کے باوجود ہم اس سے پہلو تہی کرجاتے ہیں۔۔۔اس افسانے میں ایک سطر یوں ہے کہ ” چلیے آپ کو قبرستان چھوڑ آئوں۔یہ حقائق نہ سمجھنے والوں کے لیے وہی جگہ بہتر ہے”۔۔اس سطر میں ایسی تلخ حقیقت اور گہرا طنزپوشیدہ ہے کہ جو صرف اس کا ادراک رکھنے والے ہی جانتے ہیں۔۔۔پوری کتاب میں ایسے پرتاثیر جملے جابجا ملتے ہیں کہ جن کی حشرسامانی قاری کو چونکنے اور غور کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔۔۔
صبیح الحسن نے روایتی کے بجائے نت نئے ایسے موضوعات کومنتخب کیا ہے جو اگرچہ ہمارے آس پاس پھیلے ہمیں ہر لمحہ دکھائی دیتے رہتے ہیں لیکن ہم ان پر توجہ نہیں دے پاتے اور یوں یہ چیزیں ہمارے ادراک سے دور رہتی ہیں لیکن صبیح نے ان چیزوں کو بڑی چابک دستی سے اپنے قلم کی نوک میں قید کرکے ان کا عکس کاغذ پر اتار کر ہمارے سامنے پیش کردیا جس نے ہمارے ادراک کے بند کواڑوں کو کھول دیا ہے۔۔۔ہر افسانہ ایک سے بڑھ کر شاندار کاوش و جہد کا خوبصورت نتیجہ ہے۔۔۔الفاظ کا چنائو جملوں کی بناوٹ و سجاوٹ موضوعات کا انتخاب واقعات کے اظہار میں فنکاری اور قاری کی توجہ کےحصول میں مہارت نے صبیح الحسن کے افسانوں کو ایک الگ لیکن خوبصورت رنگ و آہنگ عطا کیا ہے۔۔۔انھوں نے تحریر میں الجھائو پیدا نہیں ہونے دیا اور نہ زبردستی کہیں واقعات کی بھرتی کی ہے۔۔وہ جس ترنگ کے ساتھ چلے اسی شوکت کے ساتھ انجام تک پہنچے۔۔۔پھر افسانوں میں دلچسپی اور تفہیم کے حسین امتزاج نے ان کی کشش کو دو آتشہ کردیا ہے۔۔اگرچہ یہ افسانے تصورات و خیالات کی گہرائی میں نہیں لے جاتے لیکن اس کے باوجود ان کی کسک ضرور محسوس ہوتی ہے یوں لگتا ہے مصنف نے تلخیوں کے زہر کو کتاب میں انڈیل دیا ہے۔انھوں نے روایت سے ہٹ کر جس طرح قلم کو تھاماہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ابھی اردو ادب میں تخلیقات کا سلسلہ جامد نہیں ہوا۔۔ابھی اس میں زندگی اور حس و دلفریبی اپنی پوری فطرت و سچائی کے ساتھ باقی ہے۔۔یہ الگ بات ہے کہ ٹک ٹاک کی دلدادہ نسل کے لیے دل کش و دل آویز تحریر لکھنا بڑے دل گردے اور جوکھم والا کام ہے۔۔۔تخلیق کار اپنی ساری قوت اور توانائی اس تخلیق کے منصہ شہود پر آنے میں جھونک دیتا ہے اور پھر جب قاری کی طرف سے خاطر خواہ پذیرائی نہ ملے توتخلیق کے وجود سے قطرہ قطرہ خون ٹپکنے لگتا ہے۔۔دھیرے دھیرے تخلیق کا وجود کملانے لگتا ہے یہاں تک کہ وہ ان قطروں کی صورت میں اپنا وجود فنا کرڈالتی ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک تخلیق کار کی موت ہوجاتی ہے۔۔یہ دراصل تخلیق کار کی نہیں پورے معاشرے کی موت ہوتی ہے لیکن معاشرہ اپنی موت سے بے خبر اپنی ہی لاش اپنے کاندھوں پر اٹھائے رقص میں مصروف رہتا ہے اور جب انھیں بتایا جائے کہ تم تو مرچکے ہو تو وہ ایسا بتانے والے کا منہ نوچ لیتے ہیں۔۔۔انھیں بس خواب و خیال کی دنیا۔میں رہنا ہی سب   سے زیادہ پسند ہے خواہ تعفن زدہ لاش کی صورت ہی میں سہی۔۔

کتاب معروف اشاعتی ادارے پریس فار پیس فائونڈیشن نے شائع کی ہے۔۔چنانچہ اس کا گیٹ اپ اور پیش کش حسب روایت نہایت شاندار اور دیدہ زیب ہے۔۔۔محترم ظفراقبال ذاتی توجہ اور لگن کے ساتھ نہ صرف بہترین کتب کی اشاعت کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں بلکہ وہ انھیں علمی طبقے اور عام قاری تک۔پہنچانے کی مشکل ذمہ داری بھی اٹھائے ہوئے ہیں۔۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.