صنف ۔۔۔۔۔ افسانہ
مصنفہ ۔۔۔۔ شفا چودھری
مبصرہ ۔۔۔۔۔ خالدہ پروین
اشاعتی ادارہ۔۔۔۔۔۔ پریس فار پیس (لندن)
وہاڑی (جنوبی پنجاب) کی سونا ،چاندی اور مٹھاس اگلتی سر زمین سے تعلق رکھنے والی خوش اخلاق ، خوش مزاج اور دردِ دل کی مالک شفا چودھری (بازغہ سیفی) ادب کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی صلاحیت سے مالامال ہیں تاہم ان کا خاص میدان افسانہ نگاری ہے۔ حساس اور منفرد موضوعات پر نفسیاتی الجھنوں اور گرہوں کو بیان کرتے ان کے افسانے شاہکار کا درجہ رکھتے ہیں ۔
تعارف و تبصرہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی بھی کتاب کا سرورق کتاب کی قرأت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ “گونگے لمحے” کے پر تجسّس عنوان سے مطابقت رکھتا تجریدی انداز کا حامل سرِورق قاری کو ایسی گونگی کیفیت میں مبتلا کر دیتا ہے جس کی الفاظ میں پیش کش نا ممکن ہو جاتی ہے ۔ گونگے لمحوں سے دل ، دماغ ، کان اور آنکھ پر مرتب ہونے والے اثرات کی عکاسی بہت دلکش انداز میں کی گئی ہے ۔
کتاب دو حصوں میں منقسم ہے :
1: افسانے
2: مختصر افسانے
پہلا حصہ۔۔۔۔ افسانے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتاب کا یہ حصہ 16 افسانوں پر مشتمل ہے جن میں “پنکھ” ، “خوابوں کے پرے” ، “عکس کے پار” ، “خاموش نظمیں” ، “شب کی آخری سانس” ، “خوشی” ، “گونگے لمحے’ ، “راز” ، “کاغذ کی کشتی” ، “تیسرا دن” ، “میرے گہنے” ، “غبارے” ، “مسکراہٹ کا رنگ” ، “حاصل” ، “دشتِ حیات” اور “فیصلہ” شامل ہیں ۔
یہ افسانے موضوعات کے تنوع ، علامتی انداز ، احساسات کی شدت ، نفسیاتی گرہوں کی عکاسی، منفرد کردار نگاری ، افسانوی فضا ، رومانوی اسلوب اور شاعرانہ زبان کی عمدہ مثال ہیں ۔
: پنکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک لڑکی کی زندگی کے مختلف مدارج لڑکپن ، جوانی، تلخ ازدواجی روپ اور بیٹی کے روپ میں اپنے لڑکپن کا نظارہ کے عام موضوع کو اسلوبِ بیان کی جدت نے انفرادیت کا حامل بنا دیا ہے ۔
ایک علامتی افسانہ جس میں کرداروں کو تجریدی نام ( زندگی، پرانی زندگی، نئی زندگی ، برگد کا درخت ) دیتے ہوئے کہانی کو آگے بڑھایا گیا ہے ۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مصلحت کا شکار ہو کر اپنے خوابوں سے دستبرداری اذیت کا باعث ثابت ہوتی ہے ۔ جیسے کہ پرانی زندگی برگد سے خوف زدہ ہو کر ان چاہے خوابوں کی تکمیل میں مشغول ہو جاتی ہے جبکہ نئی زندگی نہ صرف برگد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینے کا حوصلہ رکھتی ہے بلکہ پرانی زندگی میں بھی خوابوں کی تعبیر پانے کا حوصلہ ابھارنے کا باعث ثابت ہوتی ہے ۔
افسانے میں چھپا پیغام :
“تم نے خواب دیکھے تھے اور ان کی تعبیریں چاہی تھیں لیکن صرف چاہنے سے کچھ نہیں ملتا ۔ ”
قابلِ تعریف اور عروج وکامیابی کا ضامن ہے ۔
: خوابوں کے پرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواب تو سب دیکھتے ہیں ۔ خوابوں کو پانے کی خواہش بھی کیف و سرور کا باعث ہوتی ہے لیکن خوابوں کے پار کی تلخ حقیقت کو تسلیم کرنا اور قبول کرنا آسان نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ حسن (استاد کے مقام پر فائز) اجالا کی ہر ممکن کوشش حوصلہ افزائی اور چاہت کے باوجود شادی کا ارادہ صرف اس لیے ملتوی کر دیتا ہے کہ اجالا تاریک نگر کی باسی تھی ۔
“وہ ان دیکھے باب کے صفحات پلٹ رہی تھی اور میں خواہش کر رہا تھا کاش یہ صفحات بنا پڑھے ہی رہتے ۔”
“آپ مجھ سے شادی کا کہہ رہے تھے” ۔ اس نے میری آنکھوں میں جھانکا ۔
“ہاں! وہ میں بتاتا ہوں”۔ میں گڑگڑا گیا ۔
” السلام علیکم سر!آپ کی تمام عمر شکر گزار رہوں گی جنہوں نے مجھے یہ سمجھنے میں مدد دی کہ یہ معاشرہ مجھے کبھی قبول نہیں کرے گا ۔ آپ کی اجالا اندھیروں میں لوٹ رہی ہے ۔”
: عکس کے پار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معاشرے میں موجود ناہمواریوں ، راہنماؤں کی فرض کی ادائیگی سے غفلت ، خود غرضی ، ظلم وبربریت ، سازشوں کی عمدہ عکاسی کرتا ہوا افسانہ ۔
بلا شبہ کسی کی آنکھوں میں موجود وحشت اور جھانکتے عکس کے پار جانے یا جاننے کی خواہش بغض اوقات متجسس انسان کو بھی وحشتوں سے دوچار کر دیتی ہے ۔ ہر حساس مگر بے بس انسان وحشت کا شکار ہو کر تاریکیوں میں گم ہو جاتا ہے ۔ جیسا کہ اس افسانے میں بےنام کرداروں کے ذریعے دکھایا گیا ہے ۔
آنکھوں میں موجود عکس کے پار جانے کا مجسم انداز نا صرف منفرد ہے بلکہ قاری کو افسانے میں گم ہونے اور محسوس کرنے پر مجبور کر دیتا ہے ۔
دلھن کے اغوا پر اساطیری انداز میں کہاروں کا پتھر ہو جانا اور بنچ کا مجسم ہو کر گفتگو کرنا ایسے عناصر ہیں جو شفا چودھری کی پہچان اور خاصہ ہیں ۔
: خاموش نظمیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منفرد عنوان کی حامل ایک باپ اور بیٹی کی محبت کی روایتی داستان ۔
بیٹی ماں کے مرنے کے بعد باپ کے لیے دل میں خواہش رکھتی ہے کہ کہ کاش اس کی ماں کی محبت میں نظمیں لکھنے والا باپ اس کے لیے بھی نظمیں لکھے اور اپنی محبت کا اظہار کرے ۔ باپ کا سرد رویہ اسے اظہارِ محبت اور شکوہ شکایت سے باز رکھتا ہے ۔ باپ کا شام کے وقت گھر سے باہر رہنا اس کے دل میں عدم توجہی کے احساس کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے ۔
باپ کا بیماری کے باوجود شام کو کام پر جانا ، رات کے وقت بیٹی کو کھانے کے لیے نہ جگانا ، برتن خود دھو لینا ، اچانک بشیر چچا کا اپنے بیٹے کے ساتھ گھر آنا ، ابا کا بیٹی سے رشتے ، نکاح اور رخصتی کی بات کرنا ، رخصتی کے بعد باپ کی وفات پر کارخانے کے مالک کی طرف سے ملنے والا تنخواہ کا لفافہ باپ سے بیٹی کی محبت کی ایسی خاموش نظمیں تھیں جن کی ہمیشہ اسے خواہش رہی تھی ۔
: شب کی آخری سانس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک حساس موضوع (جس پر لکھتے اور بیان کرتے ہوئے اکثر بےجا تنقید اور بعض اوقات رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے) کو مصنفہ نے بڑی عمدگی سے زیبِ قرطاس کیا ہے ۔
دل میں خوش کن اور رنگین تصورات بسائے زندگی کے نئے سفر کا آغاز کرنے والی لڑکی کی داستان جس سے وابستہ پیڑ خشک ہونے کے باوجود اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کا خواہش مند ہے ۔ دوری کا خوف اسے ظالمانہ انداز میں جکڑتے ہوئے ہر رنگ ، خوشبو اور خوشی سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ شمع کی مانند خاموشی سے جلنے اور اپنے آپ کو بےحس اور مفلوج تصور کرنے والی زندگی تھوڑی سی زندگی کا احساس لیے ہوئے تھوڑی جرات اور بغاوت کے بعد اپنے آپ کو خشک پیڑ سے آزاد کروانے میں کامیاب ہو جاتی ہے ۔
افسانے کے علامتی انداز ، شاعرانہ اسلوب ، شمع ، خشک پیڑ، دیواریں در دیواریںں کی علامتوں اور رنگ و خوشبو کے استعاروں نے موضوع کی تبلیغ میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ہر لفظ اور جملہ اس غم اور تکلیف کا فصیح و بلیغ اظہار ہے جس کی اذیت صرف برداشت کرنے والا ہی جان سکتا ہے ۔
شمع اور بےبس زندگی کا مکالماتی انداز موثر اور قابلِ تعریف ہے ۔
مشکل مگر حساس موضوع پر عمدہ تخلیقی کاوش قابلِ داد ہے ۔
: خوشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سادہ بیانیہ میں لکھا گیا خوب صورت سماجی افسانہ جس میں غریب سخی کے گدھے کی گمشدگی سے گدھے کے ملنے کے سفر میں مصنفہ نے غریب کی اپنے جانور سے محبت ، گمشدگی سے در آنے والی پریشانی ، معاشی خستہ حالی ، جانور کی محبت و وفاداری ، بیوی کی محبت و ایثار ، ہوٹلوں پر حرام گوشت کی ترسیل ، مُلّا جیسے صاحبِ عزت کی بےحسی ، جیسے احساس وجذبات کی بہت عمدگی سے عکاسی کی گئی ہے ۔
غربت کے باوجود سخی کا سخاوت بھرا رویہ ہی اس کی اور سیما چاچی کی حقیقی خوشی کا باعث ہے ۔
: گونگے لمحے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک خوب صورت علامتی تحریر جس میں بلبلے کی علامت استعمال کرتے ہوئے تخلیق کار کو مقصدیت پر ابھارتے ہوئے نگاہوں سے پرے اصل منظر کو دیکھنے کی ترغیب دی ہے ۔
ایک مصنف کو زیرک نگاہی سے کام لیتے بے مقصد کہانیوں کے بجائے زندگی کے حقائق اور درد کو اپنی کہانیوں کا حصہ بنانا چاہیے ۔
تکلیف دہ موضوعات ، حساس کیفیات ، ظاہری خوشی کے پیچھے چھپا ہوا درد ، آنسوؤں کے پیچھے ٹوٹے ہوئے خواب ہی وہ گونگے لمحے ہیں جنھیں ایک تخلیق کار زبان عطا کرتا ہے ۔
تخیل کے لیے بلبلے کی علامت منفرد اور قابلِ تعریف ہے :
“اس نے مڑ کر بلبلے کی جانب دیکھا ۔ بلبلہ مسکرایا ،ایک الوداعی مسکراہٹ اس کی جانب اچھالی اور اس کے سینے سے ٹکرا کر پھٹ گیا ۔بلبلے کے پھٹنے سے جیسے سیلاب آ گیا ۔ ہر طرف پانی ہی پانی تھا ۔ اس کے سینے سے بے مصرف کہانیاں نکل کر اس میں ڈبکیاں کھانے لگیں ۔ وہ زندگی کی چاہ میں ہاتھ پاؤں مارتے مارتے آخر کار موت سے گلے جا ملیں ۔ اس کی نگاہ نے دور تک اس کا پیچھا کیا ۔ اس نے دیکھا لہروں کے دوش پر بہت سی ان کہی ، سہمی ، سسکتی کہانیاں اس کی جانب بہتی چلی آرہی ہیں ۔ اس نے دونوں بازو کھولے اور انھیں اپنے سینے میں سمو لیا ۔”
: راز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پر کشش عنوان کا حامل افسانہ جس میں نوچے ہوئے پروں ، بیڑیوں میں جکڑی ہوئی اور مکھوٹوں کو چہرے پر سجائے آدھی موت کا شکار اور پوری موت کی خواہش مند لڑکی کی داستان جسے زمین سے پھوٹتی روشنی یہ پیغام دیتی ہے کہ نوچے ہوئے پر ، پاؤں کی بیڑیاں اور مکھوٹھے اس کے بے جا خوف اور بےبسی کا نتیجہ ہیں ۔ جب وہ رازِ سحر جان کر ان کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے پرواز چاہے گی تو یہ سب کمزور اور بے حیثیت ٹھہریں گے ۔
افسانے میں درد کے بیان کی ترسیل میں مقفی زبان کا کردار قابلِ تعریف ہے :
“مجھے اب کچھ نہیں چاہیے ۔ زندگی کی سب بےاعتنایوں کو میں نے اپنے سینے میں چھپا لیا ، ہر درد کو اپنی ایک ایک پور میں سمو لیا ۔ میرے جسم نے درد سے دغا نہیں کیا ، میں نے ہنس کر ہر غم کا خیر مقدم کیا ، میں بے وفا نہیں ہوں ، میں بے ایمان بھی نہیں پھر ۔۔۔ پھر ۔۔۔ میرے ناتواں وجود میں اب طاقت نہیں ، میں ختم ہو چکی ہوں۔”
:کاغذ کی کشتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ایسے حساس اور تلخ موضوع پر لکھا گیا افسانہ جسے بہت کم زیبِ قرطاس کیا گیا ہے ۔ معنویت کا حامل عنوان باعثِ کشش ہے۔
محبت کو نظر انداز کرتے ہوئے خوشامد پسند مصنف کی داستان جو معیار کے باوجود سرعی کامیابی کے لیے نامور شخصیات سے تعلق کو باعثِ فخر سمجھتا ہے لیکن اس کی حیثیت ایک مہرے اور ذریعے سے زیادہ حیثیت نہیں ہو پاتی۔
افسانے کے مکالمے جان دار اور فلسفیانہ انداز قابلِ تعریف ہے ۔
: تیسرا دن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روپے پیسے کی ہوس کا شکار ہو کر حقیقی زندگی ( ازدواجی اور خانگی) سے دوری اختیار کرنے والے مرد کی داستان جو مادیت پرستی کے بت کی محبت میں مبتلا ہو گیا تھا لیکن ایک لمحہ آگہی کا ثابت ہوا جس نے یہ احساس دلایا کہ مال و دولت زندگی کے لیے ضروری ہیں لیکن حقیقی خوشی اس کا نتیجہ نہیں ۔
معاشرے کا ایک اہم مسئلہ جسے شفا چودھری نے مہارت سے افسانے کی صورت عطا کی ہے ۔ عنوان بہت عمدہ موزوں لیکن پر تجسّس ہے ۔ افسانے کا اختتام عنوان کی معنویت کو ظاہر کرتے ہوئے داد دینے پر مجبور کر دیتا ہے ۔
ابشام احمد کی مادی سوچ وفکر کے لیے بت کی علامت بہت شان دار ہے ۔بے شک انسان خود ہی اس بت کو تراشتا ، اس کی حفاظت کرتا اور خود ہی اس کو توڑتا ہے ۔
لمحہ لمحہ گزرتی اور سانس لیتی زندگی میں حقیقی زندگی وہی لمحات ہیں جو پیار محبت ، توجہ اور اپنائیت کی نذر ہوئے ہوں۔
: میرے گہنے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹی ( مہر بانو) کی پسند کے رشتے کو ماں کی طرف سے رد کیے جانے کے بعد بیٹی کے مکارانہ انداز اور والدین کا اسے بیماری سمجھ کر علاج معالجہ اور دم تعویذ کی کوششوں کی عمدہ عکاسی ۔
افسانے میں گہنے علامت بن کر سامنے آئے ہیں ۔ خواہش کے سامنے گہنے نہیں بلکہ شخصیت اہمیت رکھتا ہے ۔ بعض اوقات خواہش کی شدت دھوکا ، ڈراما اور عزت کی پروا کیے بغیر فرار کا باعث ثابت ہوتی ہے ۔
اختتام پر رات کی تاریکی میں مہر بانو کا غیر مرد کے ساتھ بیگ لیے گھر سے نکلنا اور گہنے چابی میز پر چھوڑ جانا اسی ذہنی کیفیات اور ترجیحات کا عکاس ہے ۔
مہر بانو کا سنہری لباس اور گہنے پہننا ، رات کے وقت کمرے میں گلاب کے پھولوں کی موجودگی ، صبح دیر تک گہری نیند سونا ، کمرے میں مرد کا سایہ اور کھڑکی کے راستے فرار ، گہنوں کی گمشدگی کا واویلا ، بےہوشی کے ڈرامے وہ ڈھکے چھپے انداز ہیں جو افسانے کے اسلوبِ بیان کا کمال ہیں ۔
فلیشز کی صورت میں کہانی تاثر کو گہرا کرنے کا باعث ہے ۔
: غبارے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسانہ “غبارے منفرد” سوچ اور خوب صورت اسلوب کا حامل افسانہ جس میں کھوکھلے باطن اور خوب صورت ظاہر کی عمدہ عکاسی کی گئی ہے ۔
اس افسانے میں روایت سے انحراف کرتے ہوئے عورت کی بجائے مرد کی محرومی اور اذیت کو موضوع بنایا گیا ہے ۔
ایک بیٹے کی ماں بیوہ خاتون سے محبت اور شادی کرنے والے مرد کی داستان حیات جسے سوائے کھوکھلے پن اور محرومی کے کچھ حاصل نہیں ہو پاتا کیونکہ اس کی ساتھی اپنے حصے کی محبت کے بعد اس کی نشانی کو سنبھالے اپنی زندگی جی رہی تھی ۔ اب وہ غبارے کی مانند وہ ایک ایسی عورت تھی جس کے نزدیک سابقہ زندگی کے علاوہ ہر رشتہ بے وقعت اور بے معنی تھا ۔
: مسکراہٹ کا رنگ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دولت کے حصول کی خاطر محبت بھرے دل کو ٹھکرانے والا تخلیق کار(مصور) جب مقابلے میں ملنے والی رقم کی خاطر مسکراہٹ پینٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے مسلسل ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور مسکراہٹ طنزیہ شکل اختیار کر جاتی ہے۔
مصنفہ نے بڑی عمدگی سے تخلیق کار کے لیے خلوص کو لازمی شرط قرار دیا ہے۔ مصور حقیقت کو تصور کی آنکھ سے دیکھتے ہوئے کینوس پر منتقل کرتا ہے لیکن حقیقت میں دلوں کو دکھ پہنچانے والا کبھی بھی مسکراہٹ تخلیق نہیں کر سکتا جیسا کہ مصور کو سامنا کرنا پڑا ۔ چوں کہ اس نے صنفِ نازک کے محبت بھرے دل کو دولت کے حصول کی خاطر ٹھکراتے ہوئے الم سے دو چار کر دیا تھا لہٰذا انعام کی خاطر جب عورت کی مسکراہٹ پینٹ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو مسکراہٹ طنز میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔اس کا ضمیر اس کے فن کے آڑے آ کر اسے ناکامیوں سے دو چار کر دیتا ہے ۔
“درد دو گے تو کیا مسکراہٹ اگا پاؤ گے”۔ “سچ میں جھوٹ کی پیوند کاری نہیں ہو سکتی”
۔
اس کہانی کے کلیدی جملے ہیں جو کامیابی اور ناکامی دونوں کا راز اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
کہانی کا کاٹ دار مکالماتی انداز اس کہانی کی جان ہے جو تاثر کو گہرا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
منظر نگاری ہمیشہ کی طرح شان دار ہے۔
: حاصل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود پسندانہ سوچ اور قول و فعل کے تضاد پر لکھا گیا افسانہ ۔ سوشل میڈیا کے اہم رجحان کی عمدہ پیش کش ۔
ایک ایسی مصنفہ کی داستان جو سوشل میڈیا پر شہرت حاصل کرنے کے لیے ایسے موضوعات پر قلم اٹھاتی تھی جو بے مقصد تھے۔ صرف واہ واہ کے کمنٹس پسندیدہ ٹھہرتے اور اختلافی کمنٹ غصے کا باعث ثابت ہوتا ۔
میڈیا پر سماجی مسائل پر تحریریں لکھ کر شہرت حاصل کرنے والوں کا حقیقی رویہ استحصال پر مبنی ہے ۔
دشتِ حیات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معاشرے کی تلخ حقیقت کی دل سوز عکاسی کرتا افسانہ ۔ نشئی اور بدکردار شوہر کی بربریت ، بےوفائی اور غربت کا شکار زبیدہ کی داستان حیات ۔ نئی کونپل کو زندگی دینے والی زبیدہ پر عرصہ حیات تنگ کرنے والا حمیدا یہ بھول گیا ہے زندگی اور موت دینے والی ذات صرف اللّٰہ تعالیٰ کی ہے۔ دشتِ حیات کا سامنا کرنے والی زبیدہ کا خالہ سے آخری مکالمہ درست اور حقیقت پر مبنی ہے:
“دھی اٹھ! سر کے سائیں کو آخری بار دیکھ لے پھر وہ لے جائیں گے ۔” خالہ سسکیاں لیتے ہوئے اسے اٹھانے لگی تو ساتھ لیٹے ننھے وجود کے رونے کی آواز بلند ہوئی ۔
” خالہ! ان سے کہیں اسے لے جائیں ۔” اس نے ننھی پری کا ماتھا چوم کر اسے خود سے لپٹا لیا۔
: فیصلہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موزوں عنوان اور پختہ اسلوبِ بیان کا حامل عمدہ افسانہ ۔
افسانے میں تمام افسانوی لوازمات بھرپور طریقے سے نبھائے گئے ہیں ۔
نازلی اور صفیہ کے ذریعے (دیارِ غیر میں محنت کشوں کی زندگی) ایک ہی تصویر کے دو رخ بہت عمدگی سے دکھائے گئے ہیں ۔
صفیہ کے نزدیک دولت ہی سب کچھ ہے جب کہ نازلی مشکل زندگی پر دولت کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔
نازلی ، پھوپھو اور زمرد کے ذریعے معاشرتی سوچ اور رویوں کی عمدہ عکاسی کی گئی ہے ۔
تحریر کا ڈھکا چھپا انداز قابلِ داد ہے خصوصاً نازلی کا بچے کو غور سے دیکھنا اور افسانے کے اختتامی جملے :
“اماں بس میں نہیں چاہتی کہ میرا شوہر دیارِ غیر میں محنت کرتا رہے اور میں یہاں کسی اور کی اولاد پالتی رہوں۔”
پر زمرد کا ٹھٹھک جانا بہت کچھ واضح کر گیا ہے۔
عمدہ تخلیقی کاوش کے لیے ڈھیروں داد و ستائش ۔
دوسرا حصہ ۔۔۔ مختصر افسانے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتاب کا دوسرا حصہ 17 مختصر افسانوں پر مشتمل ہے جن میں ردی کی ٹوکری ، لحاف ، خوابوں کی سسکیاں ، پیمان ، مر گئے ، کوکلا چھپاکی ، ہجوم ، خوف کا رقص ، جگنوؤں کے تعاقب میں ، الوداع ، مسکان ، پسِ دیوار ، کاغذ کا خدا ، پروانہ ، نخلِ امید ، سرخ گلاب ، نیا باب شامل ہیں ۔ یہ مختصر افسانے سماجی مسائل ، ادب اور ادیب کی بےقدری ، نفسیاتی مسائل پر مبنی موضوعات ، جرات مندانہ انداز اور دلکش اسلوب کی بنا پر اہمیت کے حامل ہیں ۔
تین افسانوں پر تبصرہ درج ذیل ہے :
: کوکلا چھپاکی:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک لڑکی کی کہانی جو لڑکپن میں کوکلا چھپاکی کھیل کے دوران کوکلا پیچھے رکھتے ہوئے ادا کیا جانے والا جملہ ” جس کو کوکلا زور سے لگے گا اس کی اسی سال شادی ہو گی” سن کر دل میں خوش کن احساسات کو جگہ دیتی ہے ۔آخر کار ایک ایک کرکے سوائے اس کے سب سہیلیاں رخصت ہو جاتی ہیں ۔ احساسات و جذبات کی وہ خوشبو جسے وہ اپنے اندر دبائے رکھتی ہے ایک دن اچانک ہاتھ فقیر کے ہاتھ سے مَس ہونے کے بعد بے قابو ہو کر ہیجانی کیفیت کا شکار کر دیتی ہے ۔والد بیٹی کی اس کیفیت سے پریشان ہو کر اس کو مولوی صاحب سے دم کروانے کا سوچتا ہے ۔جواباً بیٹی کہتی ہے کہ
“ابا اب تو مجھ پر جِن بھی عاشق نہیں ہوتا”۔
کوکلا چھپاکی ایک کھیل ہےجو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی لڑکیوں کے دلوں کو گدگدانے اور خوش کن تصورات میں گم کرنے کا سبب بنتا ہے ۔
کہانی کی انفرادیت اس کا علامتی انداز ہے ۔۔۔۔”خوشبو نے انگڑائی لی” ، “دائرہ سکڑتا گیا” ، “ہاتھ مس ہوتے ہی خوشبو نے دائرہ تنگ کیا” ، “اب تو مجھ پر جن بھی عاشق نہیں ہوتا”۔۔۔۔اندرونی اذیت اور تشنگی کا اظہار کرتے متاثر کن علامتی جملے ہیں ۔
خوشبو علامت ہے ان احساسات وجذبات کی جو ہر نوجوان کے اندر موجود ہوتے ہیں ۔
جذبات کے ہاتھوں بے بسی ،اذیت اور نفسیاتی کیفیت کی عمدہ عکاسی۔
معاشرے کا عمومی رجحان اور والدین کا غیر دانش مندانہ رویہ جس میں بچوں کے جذبات اور ضرورت کو سمجھنے کے بجائے “دم درود” کو اہمیت دیتے ہیں ،کی عمدہ عکاسی کی گئی ہے ۔
خوب صورت زبان نے تحریر کو چار چاند لگا دیے ہیں۔
عمدہ تخلیقی کاوش کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
: خوف کا رقص:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عُمر نامی نوجوان کی کہانی جس کا بچپن والدین کی چپقلش کی نظر ہو گیا ۔ والد کی زیادتی اور ماں کی بےبسی سے بھرپور سسکیاں اسے ذہنی مریض بنا دیتی ہیں ۔ باپ کی موت اس کے لیے غم کے بجائے سکون کا باعث ٹھہرتی ہے لیکن بچپن میں ماں کی زبان سے ادا ہونے والے کلمات “میں پاگل نہیں ہوں” اس کے دل ودماغ میں اس طرح پیوست ہو جاتے ہیں کہ ماحول بدلنے اور جوان ہونے کے باوجود وہ اس اذیت سے چھٹکارا نہیں حاصل کر پاتا بلکہ ایک ناکارہ فرد اور ذہنی مریض ہونے کی حیثیت سے بیڈ کے نیچے اپنے آپ کو محفوظ اور پُرسکون تصور کرتا ہے۔اس کا دوست اسے اس تنہائی اور اذیت سے چھٹکارا دلانے کی خاطر شادی کے لیے مائل کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن بیڈ کے نیچے اسے سسکتے دیکھ کر وہ بھی پریشانی کا شکار ہو جاتا ہے ۔
مصنفہ نے ایک بچے کی نفسیات پر والدین کے لڑائی جھگڑوں کے اثرات کو بہت عمدگی سے پیش کیا ہے ۔یہ معاشرے کا ایک اہم مسئلہ اور اپنے فرض سے غفلت ہے جسے فریقین اپنی رنجش میں بھلا بیٹھتے ہیں ۔ ان تنازعات کے اثرات کسی بھی بچے کو ذہنی ، جذباتی اور شخصی ابنارمیلٹی تک پہنچا سکتے ہیں جیسا کہ عُمر کے ساتھ ہوا ۔
آسائشات اور مال و دولت کی فراوانی بھی اس تکلیف اور احساسِ محرومی کو ختم نہیں کرتی سکتی ۔کوئی مخلص دوست اور ہمدرد ساتھی بھی معاون و مددگار ثابت نہیں ہو سکتا ۔
مصنفہ نے بڑی عمدگی سے کہانی کے ذریعے خوب صورت پیغام قارئین تک پہنچایا ہے ۔کہانی کی زبان تکلیف اور احساسات و جذبات کی منتقلی میں معاون ثابت ہوئی ہے ۔ اشاروں وکنایوں کا حامل اسلوبِ بیان تجسس سے بھرپور ہونے کے علاوہ قاری کے دل ودماغ پر گہرے اثرات مرتب کرنے کا باعث ثابت ہوا ہے ۔
منظر نگاری اس قدر شاندار تھی کہ
نگاہوں کے سامنے ہر چیز دکھائی دے رہی تھی بلکہ کانوں نے آوازوں کو سنا بھی مثلاً:
“میری آنکھوں میں دیکھو”
“میں پاگل نہیں ہوں”
“تم پاگل ہو”
مصنفہ کی عمدہ تخلیقی کاوش قابلِ داد ہے۔
: نخلِ امید:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روایتی سوچ سے شروع ہونے والی کہانی جس میں باپ صرف بیٹے کو ہی بہتر پرورش اور حصولِ تعلیم کا حق دار سمجھتا ہے لیکن بیٹے کی طرف سے مایوسی اور بیٹی کی تعلیم پر لگائی جانے والی بے جا پابندیوں کے باوجود اس کی تعلیم میں دلچسپی باپ کی سوچ میں مثبت تبدیلی کا باعث بنتی ہے ۔بڑے ہونے پر بیٹی ملازمہ کی بچی کو علم سکھا کر اس نخلِ امید کو ہرا رکھنے میں تسکین محسوس کرتی ہے ۔
معاشرے میں بیٹے کو بےجا فوقیت دینے اور بیٹی کو زیادتی کی حد تک نظر انداز کرنے کی عمدہ عکاسی کی گئی ہے ۔
بیٹی کا چھپ چھپ کر باپ کا بھائی کو تعلیم دیتے دیکھنا اور سُن کر ہی سب سیکھ جانا، ماں کا خوف سے بیٹی کے بستے کو بستر کی چادر کے نیچے چھپا دینا،باپ کے غصے سے چلانے پر بیٹی کو اپنی پناہ میں لے لینا۔۔۔۔معاشرے کی جہالت کی دل سوز تصویریں ہیں جنھیں مصنفہ نے بڑی عمدگی سے زیبِ قرطاس کیا ہے ۔ باپ کی غصے کی دھاڑ کے نتیجے میں ماں کے خوف کی منظر نگاری قابلِ ستائش ہے ۔
گونگے لمحے صرف ایک افسانہ یا افسانوی مجموعہ نہیں بلکہ شفا چودھری کا وہ شاہکار ہے جس میں گونگے لمحوں کو نا صرف زبان عطا کی گئی بلکہ سحر انگیز منظر نگاری ، دلکش زبان اور علامتی اسلوب بیان نے وہ ڈھکا چھپا روپ عطا کیا ہے جس کو نظر انداز کرنا قاری کے لیے ممکن نہیں ۔ایک مدت تک ان افسانوں میں موجود افسانوی فضا قاری کو اپنے گھیرے میں لیے رکھتی ہے ۔
تمام علامتیں رجائیت پسندی اور مثبت سوچ کو فروغ دینے کا باعث ہیں ۔
ڈرامائی انداز اور تجسیم نگاری شفا چودھری کے افسانوں کی وہ خوبی ہے جو افسانوں کو بصری رنگ عطا کرتے ہوئے قاری کو ساتھ ساتھ چلنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔
کبھی بلبلہ چلتا ہے تو کبھی روشنی مجسم دکھائی دیتی ہے ۔
افسانوی فضا شفا چودھری کے افسانوں کا ایک ایسا وصف ہے جو افسانے کے ابتدا سے ہی قاری کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیتا ہے ۔ رومانوی منظر نگاری اور شاعرانہ اسلوب اس سحر میں اضافے کا باعث ٹھہرتا ہے ۔ حقیقت میں اساطیری انداز کی شراکت تجسّس کو فروغ دیتے ہوئے اختتام تک قاری کو اس مقام تک لے جاتی ہے کہ ڈرامائی اختتام بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ یہ وہ مقام ہے جہاں افسانے میں موجود تمام کڑیاں ایک نقطے پر یکجا ہو جاتی ہیں ۔
شفا کے ہاں اگر علامت نگاری انتظار حسین اور قرآۃ العین حیدر کی سی ہے تو ڈرامائی اختتام ممتاز مفتی جیسا اور منظر نگاری و جزیات نگاری میں غلام عباس کی جھلک دکھائی دیتی ہے ۔
مصنفہ شفا چودھری صاحبہ کو ان کی پہلی کتاب کی اشاعت اور ادارہ پریس فار پیس کو ایک اور کتاب کی عمدہ طباعت پر دل کی گہرائیوں سے مبارک ہو ۔
اللّٰہ تعالیٰ مصنفہ اور ادارہ دونوں کو دن دگنی اور رات چوگنی ترقی عطا فرمائے ۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.