عبدالحفیظ شاہد۔

دورِحاضرنفع سوچنےاور نفع کمانے کا دور ہے۔ ایک سے سواور سو سے کئی سو اور پھرلاکھوں اورکروڑوں کا یہ کھیل کبھی ختم نہیں ہوتا۔لوگوں کی زندگیاں اس بے مقصد  کھیل میں گزر جاتی ہیں۔ پتا اس وقت چلتا ہے جب انسان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا اور وہ تہی دامن رہ جاتا ہے۔لیکن اس دنیا میں سب لوگ ایک جیسے بھی نہیں  ہوتے  ۔سب لوگ لالچ کی ڈور سے بندھے نہیں ہوتےکیونکہ کچھ لوگوں نے مشکلات کے باوجود  اپنی زندگی پھولوں کی طرح گزاری ہوتی ہے۔جن  کی زندگی کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے ، اپنے کردار ،افعال اور خوبصورت لفظوں سے اس دنیا کے لوگوں کو نفع نقصان  کا شعور دینا۔اپنے  ساتھ بیتے ہوئے سب واقعات کو لگی لپٹی کے بغیراس معاشرے کو سونپ دینا ۔ یہ سوچے بغیر کہ جانے معاشرے کے لوگ ان واقعات کو کس رنگ میں لیں گے۔

ریحانہ رانا کو آج کون نہیں جانتا۔ان کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ہمیشہ اپنی تحریروں کو ذریعے معاشرے کو اچھائی اور برائی کا فرق سمجھایا۔ سوشل میڈیا پر ان کو ایک باہمت اور باشعور خاتون کے طور پر جانا جاتا ہے۔اور یہی شعور ی سچ ان کی تحریروں میں بھی جا بجا نظر آتا ہے۔ ریحانہ رانا صاحبہ نے  شائد زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے ۔ اسی لیے ان کی تحریروں میں    تلخی  بھی محسوس ہوتی ہیں۔ لیکن  ان کی تلخ باتیں بھی بلاشبہ حقیقت کے قریب ترین ہوتی ہیں۔
ریحانہ رانا نے  اپنا پہلا ناول”مکافاتِ عمل ” کے نام سے  انٹرنیٹ  کے نقصانات پہ لکھا ہے۔اس قسم کے بے شمار واقعات ہمارے معاشرے میں تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں۔ ناول میں سبق دیا گیا ہے کہ والدین کو اپنی اولاد سے باخبر رہنا چاہیے تاکہ  والدین کے کیے گئے بھروسے کا غلط فائدہ اٹھا کر نوجوانوں کی زندگیاں تباہی اور بربادی کا شکار نہ ہوں۔ فیس بک اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے ہمارے جوانوں کی اخلاقی قدروں کے ساتھ ساتھ ذہنی و جسمانی صلاحیتوں پر کاری ضرب لگتی ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں والدین کو ہمیشہ بیدار رہنا چاہیے کہ ان کے بیٹے یا بیٹیاں انٹرنیٹ پر کیاکیا دیکھ رہے ہیں ۔ایک عجیب بات ہے کہ کمپیوٹر گھروں میں عموما ایک کونے اور آڑ میں رکھا ہوتا ہے ۔رات رات بھر کمپیوٹرچلتا رہتا ہے اور والدین سمجھتے ہیں کہ پڑھائی ہو رہی ہے جب کہ عموما پڑھائی کے علاوہ سب کچھ ہوتا رہتا ہے ۔اس ناول میں مکافاتِ عمل کا سبق دیا  گیا ہے ۔ گویا جیسی کرنی ویسی بھرنی۔
” مکافاتِ عمل ” اردو سخن  ، چوک اعظم لیہ ” نے چھاپا ہے۔کتاب انتہائی نفیس کاغذ ، عمدہ و دیدہ زیب پرنٹنگ ، خوبصورت  ٹائیٹل اور 180 صفحات پر مشتمل  ہے۔ بہترین اور عمدہ و دیدہ زیب پرنٹنگ کے باوجود اتنی شاندار کتاب  کی قیمت مہنگائی کے اس پر فتن دور میں بھی صرف سات سو روپے رکھی گئی ہے۔مکافاتِ عمل  کی شکل میں ایک بہترین ناول پڑھنے کو ملا۔گو منظر نگاری کی کمی  محسوس ہوئی  لیکن مکمل ناول کی کہانی میں کہیں بھی تشنگی محسوس نہیں ہوئی۔
ناول آغاز سے ہی بہت زبردست   انداز میں لکھا گیا ہے  ۔زندگی کے تلخ حقائق ،فظرت کی نگہبانی،اصل سے جڑے رہنے کی تلقین، خوبصورت جملے،جمالیاتی  خوبصورتی کی عکاسی، حقیقت سے قریب ترین   سچائیوں  کا  شاندار اظہار مصنفہ کے مشاہدات  کی وسعت کو بیان کرنے کے لیے کافی ہیں۔
اس کتاب کا مقصد جہان تک میں سمجھ پایا ہوں ہوں وہ  یہ ہے کہ  اس دنیا میں  انسان جیسا بیج بوئے گا ویسا ہی پھل پائے گا.مکافات عمل میں ایسا ہوتا ہے کہ جو شخص  جیسا  کرتا ہے ویسا ہی  لوٹ کر اس کی طرف ضرور آتا ہے.اس ناول کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس ناول میں زندگی کے مسائل کو صرف  بیان نہیں کیا گیا بلکہ ان سب  کا حل بھی پیش کیا گیا ہے۔درست سمت میں گامزن کرنے کے لیے معاشرے  میں ایسی کہانیوں  کی تشہیر ضروری ہے۔آپ کی لائبریری اس بہترین کتاب کی غیر موجودگی میں ادھوری ہے۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content