کراچی انٹر نیشنل بک فئیر / پریس فار پیس پبلی کیشنز
روداد 13 دسمبر 2024
: ماورا زیب
ڈسکہ سے لاہور اور لاہور سے کراچی تک کا سفر خواب کی سی کیفیت میں طے ہوا۔ زندگی میں پہلی بار کراچی کی زمین پر قدم رکھا اور ایک گہرا سانس لینا چاہا لیکن چھینکوں کے تسلسل نے یاد کروادیا کہ بھئ کراچی میں گہرے سانس اس وقت لینے چاہییں جب یہاں کے عادی ہوں۔
اب باقی باتیں ایک طرف اور سیدھا 13 دسمبر کے دن کو کھنگالنا شروع کرتے ہیں۔ 13 دسمبر 2024 بروز جمعہ پریس فار پیس پبلی کیشنز کی طرف سے کراچی کی خواتین لکھاریوں اور قاریات کے لیے ایک کھلی نشست رکھی گئی تھی۔ شام 5 بجے”دائرہ علم و ادب“ کی طرف سے پریس فار پیس کی شائع کردہ کتاب جس کے مصنف احمد حاطب صدیقی ہیں کی تقریب رونمائی رکھی گئی تھی۔ دوپہر تقریباً 2 بجے کے بعد گھر سے باہر قدم رکھا اور ایکسپو سنٹر کی طرف رواں دواں ہوئے۔ اب سفر کی جزئیات کیا لکھوں کہ ایسے سفر تو زندگی کا حصہ ہیں۔ اصل میں تو دن شروع ہوا جب ملاقات کے سلسلے کا آغاز ہوا۔
ملاقات کی تفصیل سے پہلے وہ باتیں یا عادتیں جو تقریباً سب میں عام تھیں کہ سب ترو تازہ تھے۔ نشست اور تقریب اندازے سے بھی زیادہ کامیاب ہوئی کہ سب بہت خوشگوار مزاج کے ساتھ آئے اور ان گھڑیوں کو ایسے جیا جیسے کوئی بوڑھا اپنی زندگی بھر کی متاع سمیٹ کر اپنی پوٹلی میں ایسے ڈالے کہ وہ اس کی نظروں کے سامنے سے کبھی دور نہ ہو۔ ہنسی کے شگوفے تو بن بات پھوٹ رہے تھے۔ احمد حاطب صدیقی تو اپنے ساتھیوں کے درمیان ایسے چہک رہے تھے جیسے یادیں جمع کرنے کا بس آج کا ہی دن ہے۔
نگہت فرمان، مریم شہزاد، نورین عامر، ماہم جاوید، حفصہ فیصل اور سیدہ ناجیہ شعیب کے ساتھ کبھی گفتگو رہی، کبھی معذرت رہی(بھئی معذرت اس لیے کہ ساتھ ہی ساتھ تقریب بھی نپٹا رہے تھے)۔ کبھی ایک کے پاس بیٹھے تو کبھی دوسری سے گفتگو شروع کی تو کبھی تیسری کا احوال پوچھا۔ ایک دن کے لیے خود کو پھرکی سمجھا اور لہک لہک کر پھرنا شروع کردیا۔ ساتھی ارکان وہی پرانے میم تابندہ اور زبیر الدین عارفی…….. بس ایک نیا موڑ یہ تھا کہ ہم تینوں کے نصف بہتر بھی اس تقریب میں شامل تھے۔ میم تابندہ کے سرتاج میرے سرتاج کے ساتھ سر جوڑے نجانے ماضی کی کون کون سی گلیاں ناپ رہے تھے اور زبیر الدین عارفی کی شریک حیات ہمارے ارد گرد کھڑی خاموشی سے، چپکے چپکے ہماری مدد کرنے میں مصروف تھی۔
ہم تو پریس فار کی پیس کے لوگو والی واسکٹ پہنے، گلے میں ادارے کا شناختی کارڈ ڈالے، ہاتھ میں موبائل تھامے، چال میں بانکپن لیے ادھر سے ادھر چکراتے پھر رہے تھے۔ سب سے مل رہے تھے، کھانے کی دعوت تو سب کو دی لیکن نگہت فرمان تھوڑے وقت کے لیے آئی تھیں، مریم شہزاد کو جلدی جانا تھا، نورین عامر کو مغرب سے پہلے نکلنا تھا، ماہم جاوید جو اپنی کیوٹ سی دادو کے ساتھ آئی تھیں کو رات گہری ہونے سے پہلے گھر پہنچنا تھا، ایک ام حبان تھیں جو ناسازئ طبیعت کی بنا پر آ نہ سکیں اور ان کے سرتاج ہم سے ان کا تحفہ وصول کرنے تشریف لائے(ام حبان ہماری خاص قاریہ ہیں)، رہ گئیں حفصہ فیصل، سیدہ ناجیہ شعیب اور ان کے سرتاج تو انھوں نے ہماری دعوت قبول کی۔ چھے ادارے کے ارکان(بھئی ارکان تو تین ہی تھے لیکن تین نصف بہتر بھی تھے نا!) اور تین وہ تینوں (حفصہ فیصل، سیدہ ناجیہ اور ان کے سرتاج) کھانے اور باتوں میں مگن ہوگئے۔ محفل میں شامل ہونے والے مہمانانِ گرامی کو اسناد اور تحائف دیے گئے۔ کھا پی کر، خوب باتیں کر کے اور ایک اچھی سی کھلی نشست کا اختتام کر کے آخر کار گھر آکر تھکاوٹ اتاری۔
==============
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.