۔۔تبصرہ : پروفیسر محمد ایاز کیانی
معروف ادیب اور متعدد سفر ناموں کے خالق مستنصر حسین تارڑ نے سفر نامے کے بارے میں لکھا ہے کہ”سفر نامہ ایسی آوارہ صنف ہے جسے محض قادر الکلامی اور زبان دانی سے نہیں لکھا جا سکتاجب تک لکھنے والےکے اندر جنون جہاں گردی نہ ہو حیرت کی کائنات نہ ہو اور طبع میں خانہ بدوشی اور آورگی نہ ہو”-
ایک دور تھا کہ معاشرے کے دو طبقات پڑھنے پڑھانے سے دلچسپی رکھتے تھےایک استاد اور دوسرا مولوی۔مگر یہ گئے دنوں کی بات ہے اب استادپڑھتا ہے اور نہ ہی مولوی۔اس صورتحال میں تعلیمی ادارے اور منبر و محراب دونوں ہی بے روح ہو چکے ہیں۔علمی تشنگی استاد دور کر سکتاہے نہ منبر و محراب کے وارث۔کچھ عرصہ پہلے تک ایک دینی جماعت کے لوگ پڑھنے لکھنے سے کافی رغبت رکھتے تھے۔سٹڈی سرکلز ہوتے مختلف موضوعات کی باریکیوں پر کھل کر بحث ہوتی اس طرح گنجلک مسئلوں کی باریکیاں کھل کر روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی تھیں۔لیکن کچھ عرصے سے اس طبقہ نے بھی کتاب سے تعلق عملا” توڑ دیا ہے لہذا باقیوں پر علمی برتری اب قصہ پارینہ بن چکی۔
باقی تمام شعبہ جات کی طرح ہم علمی میدان میں بھی مغرب سے کئی دہائیاں پیچھے ہیں ہمارے ہاں اخبارات اور کتابوں کی اشاعت شرمناک حد تک کم ہے معاشرے کے بظاہر پڑھے لکھے طبقات بھی الیکٹرونک اور سوشل میڈیا میں پیش کی جانے والی معروضات کو اپنی گفتگو میں بطور حوالہ پیش کرتے ہیں۔کتاب بینی اور تحقیق کی روایت معدوم ہوتی جا رہی ہے۔
ان حالات میں اگر کوئی سر پھرا روایت سے بغاوت کرتے ہوئےکتاب سے رشتہ استوار رکھے ہوئے ہو تو اس کی ہمت کوسلام پیش کرنا چاہیے۔جب معاشرے کی روش سے ہٹ کر علم ‘تحقیق اور کتاب دوستی کی بات کرے تو عموما” اسے اس راہ پر خار میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔کتاب کی قیمتیں اگرچہ بہت زیادہ ہیں مگر یہ اضافہ ہر طرح کی اشیاء پر ہوا ہے۔۔۔لیکن کتاب خریدنا عموما”گراں گزرتا ہے۔۔ہم پچاس ہزار سے لیکر ایک لاکھ تک کا موبائل تو لے لیں گےمگر کتاب ایک ہزار کی بھی مہنگی محسوس ہو گی۔اس سے ہماری ترجیحات کا بھی بخوبی تعین ہو جاتا ہے۔کسی قوم کی کتاب سے عدم دلچسی بھی عہد زوال کی نشانی ہے۔۔۔۔۔آج سے کم و بیش سو سال قبل علامہ اقبال اپنے دورہ یورپ کے دوران اپنے علمی ورثے کو یورپ کی لائبریوں میں دیکھ کر تڑپ اٹھے تھے۔۔۔۔۔۔
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کویورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
آج میرا روئے سخن ایسا ہی ایک سر پھرا ہے جسے اس عہد زوال میں کتابوں سے عشق ہے اور نسبتا” ایک مہنگا شوق پال بیٹھا ہے۔سفر اگر روز گار کے لیے ہو تووسیلہء ظفر ہو سکتا ہے۔مگر خاک چھاننے کا شوق پالنا سراسر دیوانگی ہے۔
جاویدخان کےپہلے سفر نامے “عظیم ہمالیہ کے حضور ” کو توقع سے زیادہ پزیرائی ملی۔اس حوصلہ افزائی نے اس شوق آورگی کو مہمیز دی۔یہ گلگت کے بلند و بالا کہساروں سے ہوتا ہوا چترال اور وادی کیلاش جا پہنچا۔مردان’ دیر سے ہوتا ہوا دریائے سوات کے سنگ سنگ سفر کرتا ہوا کیلاش کی دھرتی اور وادی کمراٹ کے مرغزاروں میں فطرت کی جلوہ نمایوں کے جلووں سے خود بھی حظ اٹھاتا ہے اور قارئین کو بھی ان حسین وادیوں میں گمھاتا ہے۔مصنف کے مطابق اس سفرنامے کا پس منظر تہذیب ‘ تمدن اور کلچر ہے۔لہذا انسانی تاریخ اور مبادیات بھی ساتھ ساتھ محو سفر ہیں۔کیلاش کے لوگ اور ان کی صدیوں پرانی تہذیب جاوید کا رومان ہے۔وہ ان کے میلوں رسم و رواج اور تہواروں کا اسیر ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اسے اس تناظر میں مذہب کاجبری عمل دخل (بقول اس کے) بھی مناسب معلوم نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔وہ لا اکراہ فی الدین کے فلسفے کا پرچارک نظر آتا ہے۔وہ کیلاشا کی تہذیب اور مذہبی معاملات میں کسی بھی قسم کے جبر کا قطعی روادار نہیں ہے وہ جیو اور جینے دو کے فلسفے کا قائل نظر آتا ہے۔۔۔۔کاش یہ فلسفہ کشمیر افغانستان برما اور فلسطین میں بھی اس کی روح کے ساتھ کارفرما ہو۔۔۔۔۔لیکن یہاں ہم عالمی مصلحتوں سے کنی کتراکے گزر جاتے ہیں انتہاپسندی کسی بھی شکل میں ہو قابل مذمت ہے چاہے وہ مسلمان کے خلاف ہو عیسائیوں کے خلاف ہندووں کے یا بدھ مت کے خلاف۔۔۔
اس حوالے سے چند اقتباسات قارئین کے دلچسپی کے لیے حاضر خدمت ہیں۔
“قیلاشا کافرنہیں ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں کافر کو کافر کہنے سے منع کیا گیا ہے وہ نہ ہی ہماری طرح کے توحید پرست ہیں پاکستان کا سب سے قدیم مذہب رکھنے والے چار ہزار نفوس ہیں یہ پاکستان کے قانونی اور آئینی شہری ہیں ان کے اتنے ہی حقوق ہیں جتنے پاکستان کے کسی اور شہری کےہیں۔”
ایک اور جملہ ملاحظہ ہو
“22کروڑ پاکستانی خوش قسمت ہیں کہ ان کے پاس ایسے چار ہزار نفوس موجود ہیں۔جن کا تعلق ہزاروں سالا پرانی دنیا سے جڑتا ہےیہ پاکستانیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی تہذیب و تمدن کی دل وجان سے حفاظت کریں”
جاوید کا مطالعہ اور الفاظ کا خوب صورت چناو اسے دیگر لکھاریوں سے ممتاز کرتا ہےاس کی ژرف نگاہی قابل داد ہے وہ چھوٹی چھوٹی جزئیات کو بھی نظر انداز نہیں کرتا جنھیں عام سیاح درخور اعتناء نہیں سمجھتے۔جاوید کے الفاظ کا چناو قاری کو اپنے سحر میں جھکڑ لیتا ہے اور قاری جملوں سے حظ اٹھاتا ہے ۔۔۔
“ایک چھوٹے سے بازار میں گنے کا رس بک رہا تھا گنا اپنے اندر مٹھاس لیے پھرتا ہے قدرت کی طرف سے شہد کے بعد یہ دوسرا شیریں تحفہ ہے۔جو مائع حالت میں زمین مختلف نالیوں میں ڈال کر پیش کرتی ہے گنے میں مصنوعی کھاد کے علاوہ کوئی اور ملاوٹ نہیں ہے۔”
جاوید وسیع المطالعہ شخص ہے زندگی کے حوالے سے اس کا مخصوص نقطہ نظر ہے جس سے اختلاف کی گنجائش ہےمگر وہ تمام حساس لکھاریوں کی طرح انسانیت سے ہمدردی جانوروں سے محبت وطن سے محبت رکھتا ہے وہ زبان علاقے اور قبیلائیت کی بنیاد پر انسانی تقسیم کے خلاف ہے کم از کم اس کی تحریروں سے یہی مترشع ہوتا ہے۔
“ایشیاء قدیم ہے خوب صورت تہذیبوں کا وارث ہے پراسرار ہے سادہ زندگی کا عادی ہے تو کیلاش اس ایشیاء کا قدیم ترین اور جیتا جاگتا میوزیم ہے”””””کیلاشا کی تہذیب ان لوگوں کا فطری حسن اور بناوٹ سے پاک زندگی مصنف کو بہت اپیل کرتی ہے۔
“کاسمیٹک کی صنعت پوری دنیاکے چہروں کو حسین بنانے کا ٹھیکہ لیے ہوئے ہےاور ساری دنیا کی خواتین اس کے سہارے اپنے چہرے سنوارنے کی تگ و دو میں ہیں مگر کیلاشا عورتوں کے چہروں کو یہ کاسمیٹکس کا سامان خراب کرنے کا جرم تو کر سکتا ہےسنوارنے کا نہیں وہ سنورے ہوئے نفیس اور منافقت سے پاک چہرے ہیں”
کیلاش کے رسم و رواج بڑے عجیب و غریب ہیں کئی تہوار مالی لحاظ سے کافی پریشانی کا سبب بنتے ہیں مگر انھیں جیسے تیسے ان تہواروں کو نبھانا پڑتاہے۔اس حوالے سے کسی بزرگ کا قول نقل کیا ہے۔۔۔۔۔۔قیلاشوں کی فوتگی تباہی
مسلمانوں کی شادی تباہی۔۔۔۔۔۔۔۔
“ہمارے قیلاشا بھائیوں کی پیدائش اتنی مہنگی نہیں ہے جتنی موت مہنگی ہےایک شخص کی وفات پر 120 یا 130 بکریاں زبح کی جاتیں ہیں بڑے جانور کم ازکم تین زبح کیے جاتے ہیں”
جاوید کی تحریر میں منظر نگاری اور مزاح کی دلکشی اور چاشنی بھی ملتی ہے “باغ کے اس حصے میں سرخ پلاسٹک کی کرسی پڑی تھی جس کی ایک ٹانگ کسی حادثے میں گم ہو گئی تھی میں نے اسے تین ٹانگوں کے سہارے کھڑا کیااور توازن کو برقرار رکھتے ہوئے بیٹھ گیا کرسی نے جوابا” کوئی احتجاج کیا نہ شرارت۔۔توازن ہی اصل چیز ہے جو توازن پا گیا وہ فلاح پا گیا” مصنف کے ہاں وطن عزیز کی محرومیوں کا نوحہ بھی ملتا ہے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی چیرہ دستیوں کا رونا بھی ہے اور ریاست پاکستان کے کرتا دھرتاوں کے کرتوتوں کا پوسٹ مارٹم بھی بھی نظر آتا ہے جن کی بد اعمالیوں کی سزا پوری قوم بھگت رہی ہے وظن عزیز کے لا محدود قدرتی ذخائر کے ہوتے ہوئے ملک عالمی سہوکاروں کے دلدلی تسلط میں دھنستا جا رہا ہے قرضے حکمرانوں کی عیاشیوں پر لگ رہے ہیں اور قیمت غریب عوام کا خون نچوڑ کر ادا کی جارہی ہے۔کوئی بڑا منصوبہ شروع نہ ہو سکا۔۔پاکستان کے صوبے خیبر پختون خوا میں پن بجلی کی کثیر استعداد کے باوجود بجلی کی قیمت عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔سیاحت کے حوالے سے بھی ملک میں بے تحاشا خوب صورتیاں موجود ہیں مگر بہتر انفراسٹریکچر نہ ہونے وجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے۔
اس خوب صورت جملے پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ “مملکت پاکستان میں ہر قومی شناخت زیر زمین ہونے کا سوچ رہی ہے مارخور ‘ہاکی اور اردو اس کی چند مثالیں ہیں”۔۔۔۔۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.