۔تحریر۔۔پروفیسر محمد ایاز کیانی
کرونا کے جان لیوا موذی مرض کی وجہ سے جہاں دنیا بھر کی معیشت بری طرح سے متاثر ہوئی وہاں پر ہر شعبہء زندگی اس کی تباہ کاریوں کی زد میں رہا ۔۔۔۔ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 45 لاکھ لوگ دنیا بھر میں اس مرض کی وجہ سے لقمہء اجل بنے۔۔ لاکھوں لوگ بےروزگار ہوئے ،پاکستان میں اگرچہ جانی نقصان کم  ہوا مگر کاروباری سرگرمیوں کے تعطل اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کی بندش کی وجہ سے ہماری معاشی حالت( جو عموماً ہر دور میں وینٹی لیٹر پر  ہوتی ہے )پر شدید منفی اثرات مرتب ہوئے۔۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق غیر ملکی قرضے بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔۔ مہنگائی اور ڈالر اپنی برتری کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ چکے ہیں ۔۔اس ساری صورت حال میں عام آدمی سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ اور اس کے  لیے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا ہر گزرتے دن کے ساتھ  دشوار تر ہوتا جا رہا ہے۔۔
مگر اس وبا کی وجہ سے جو شعبہ  سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ تعلیم کا تھا۔ بار بار تعلیمی اداروں کی بندش کی وجہ سے طلبہ و طالبات کا کتابوں سے رشتہ تقریباً ختم ہو  چکا تھا پچھلے سال بدوں امتحان ہی تمام طلبہ و طالبات کو  پروموٹ کر دیا گیا۔ اس سال بھی تعلیمی ادارے زیادہ تر بند ہی رہے۔امتحانات کے انعقاد کے  حوالے سے بھی آخر وقت تک گومگو کی کیفیت برقرار رہی۔
کبھی امتحانات ہوں گے کا اعلان ہوتا تو کبھی نہیں ہوں گے کی بازگشت سنائی دیتی ۔پہلے وفاقی وزیر تعلیم نے اعلان کیا کہ اس سال امتحانات ہر صورت ہوں گے مگر اس اعلان کے باوجود آخر وقت تک خدشات کے بادل منڈلاتے رہے۔پہلے سلیبس کو سمارٹ(مختصر) کیا گیا۔پھر تاریخ کا اعلان کرنے کے بعد یہ تاریخی اعلان ہوا کہ اس سال امتحانات تو لازمی ہوں گے مگر صرف اختیاری مضامین کے ہوں گے گویا اختیاری کو لازمی حثیت دے دی گئی اور لازمی کو مکمل غیر ضروری قرار دے دیا گیا۔اختیاری مضامین میں بھی تین تین چار چار چھٹیاں دے کر طلباء و طالبات کو ہر طرح سے اکاموڈیٹ کرنے کی کوشش کی گئی۔جب امتحانات ہوچکے، نتائج کے اعلان کی تاریخ بھی دے دی گئی تو ایک اور اعلان ہوا کہ اس دفعہ کسی طالب علم کو فیل نہ کیا جا سکے گا۔کیونکہ یہ ایک  قانونی مسئلہ ہے لہذا  کابینہ کی منظوری کے بعد  اعلان ہوگا۔(اگرچہ یہ ایک رسمی کارروائی تھی اور فیڈرل بورڈ کے نتائج کے حوالے سے یہ پریکٹس پہلے کی جا چکی تھی)  اور  ایسا راز نہ تھا کہ کسی کو معلوم نہ ہو مگر اس کے لئے کم و بیش دو ہفتے کا وقت لیا گیا ۔خدا خدا کر کے کفر ٹوٹا اور 14 اکتوبر کو نتائج کا اعلان کر دیا گیا۔۔
اس سال حیران کن طور پر طلباء وطالبات نے نمبرز کے سمندر میں خوب غوطے لگائے۔یوں لگتا ہے کہ نمبرز کی ہول سیل منڈی لگی ہوئی تھی۔سوشل میڈیا پر بھی کافی دلچسپ بحث جاری ہے اپنے دور کے لائق لوگ یہ شکوہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ ہمارا کیا قصور تھا۔ذیل میں ان وجوہات میں سے چند کا ذکر کیا جائے گاجس کی وجہ سے پچھلے سارے ریکارڈز ٹوٹ گئے۔
سب سے بڑی وجہ سلیبس کا سمارٹ(مختصر)ہونا تھا امتحان میں صرف تین مضامین اور کورس آدھا یا اس سے کچھ زیادہ۔۔یہ صورت حال ان طلباء وطالبات کے لیے نہایت فیور ایبل تھی جو محنت کرنے والے تھےمزید یہ کہ ڈیٹ شیٹ مرتب کرتے وقت بھی تین مضامین کے درمیان تین تین چار چار دن کا وقفہ دیا گیا۔دوسری وجہ اختیاری مضامین (سائنس)کا امتحان لے کر فارمولا اس طرح بنایا گیاکہ لازمی مضامین میں ان مضامین کے حاصل کردہ نمبروں میں پانچ فیصد اضافی بھی شامل کیے گئے۔یہ تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ طلباء و طالبات مطالعہ پاکستان،انگریزی اور اردو میں پورے پورے نمبر حاصل کر رہے ہیں۔
البتہ نسبتاً کمزور طلباء و طالبات اگرچہ پاس تو کر دئیے گےمگر اختیاری مضامین میں کم نمبرز کا خمیازہ انھیں لازمی مضامین میں بھی بھگتنا پڑا جس کی وجہ سے جہاں زیادہ نمبروں کا گراف آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے وہاں کم نمبرز والے بھی پاتال میں گر چکے ہیں۔۔۔۔۔۔
یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ مستقبل میں اس سال امتحانات میں میٹرک اور ایف ایس سی کرنے والوں اور باقی سیشنز میں یہ امتحانات پاس کرنے والوں میں بیلنس قائم کرنا بھی کافی مشکل ہو گا ۔۔۔۔
قارئین کے لیے یہ انکشاف ہوشربا ہو گا کہ اس سال ایف ایس سی میں پہلی بیس پوزیشنز پر 326 طلباء و طالبات براجمان ہیں۔۔پہلی پوزیشن تین طلباء و طالبات نے پورے 1100 نمبرات حاصل کرکے حاصل کی۔دوسری پوزیشن پر 1098  نمبرات کے ساتھ 12 طلباء و طالبات تھے۔جبکہ تیسری پوزیشن پر 26 طلباء و طالبات 1096 نمبرز کے ساتھ موجود تھے۔۔۔۔۔
میٹرک کے نتائج اس سے بھی زیادہ حیران کن رہے۔جہاں پہلی بیس پوزیشنز پر 1175 طلباء و طالبات موجود ہیں۔
قارئین یہ صورتحال ہمارے تعلیمی بورڈ کے ساتھ ہی نہ رہی بلکہ ملتان بورڈ میں پہلی پوزیشن مشترکہ طور پر 48 طلباء و طالبات نے سو فیصد نمبرات کےساتھ حاصل کی۔
اس عجیب وغریب صورت حال میں لازمی مضامین کی اہمیت اور افادیت روز روشن کی طرح واضح ہو گئی ہے،انہی مضامین سے طلباء و طالبات میں فرق کا پتہ چلتا تھا چونکہ سوشل سائنسز میں کبھی ایک جیسے نمبرات نہیں آتے۔سائنس مضامین میں سینکڑوں کے حساب سے امیدواران ایک جیسے نمبرات حاصل کر رہے ہیں مگر انگریزی،مطالعہ پاکستان اور بالخصوص اردو میں ایک جیسے نمبرات حاصل کرنا قریب قریب ناممکن ہے ۔
اور ہاں ایک اور بات کی وضاحت اگر نہ کی گئی تو بات شاید ادھوری رہ جائے۔کہ اتنے نمبرات حاصل کرنے والے طلباء و طالبات صلاحیت واہلیت کے لحاظ سے مکمل ہیں تو شاید ایسا نہیں ہے استثنائی صورتیں ہمیشہ موجود ہوتی ہیں مگر ان میں سے اکثریت صرف متعلقہ پرچہ جات کے مخصوص سلیبس کے حافظ ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انٹری ٹیسٹ یا مقابلے کے کسی بھی امتحان میں ایسے طلباء کی اکثریت توقع کے مطابق کارکردگی نہیں دکھا سکتی۔
میرا مقصود ان بچوں کی حوصلہ شکنی ہرگز نہیں ہے بلکہ میں اس سسٹم کی کارستانیوں پر اشک بار ہوں کہ اتنے ڈھیر سارے نمبرات حاصل کرنے کے باوجود یہ لوگ ملک وقوم کی ترقی میں بہت زیادہ سود مند ثابت کیوں نہیں ہو پا رہے۔۔ایسے طلباء نہ فی البدیہہ کسی موضوع پر بات کر سکتے ہیں ناہی کچھ لکھ سکتے ہیں۔۔یہ صورت حال کسی المیے سے ہرگز کم نہیں ہے۔
ہمارا امتحانی نظام،ہمارا سلیبس,طریقہ تدریس،مارکنگ کا معیار ان سب پر کافی سوالیہ نشان موجود ہیں جن پر کافی بحث کی گنجائش موجود ہے مگر یہ موقع نہیں ہے۔ یہ باتیں محض سنی سنائی کی بنیاد پر نہیں کر رہا بلکہ روزمرہ مشاہدات اور تجربات کا نچوڑ ہے جن سے آئے روز ہمیں کلاس میں سابقہ پڑتا ہے۔
اپنی بات کو اختصار کے ساتھ آگے بڑھاتے ہوئے حالیہ نتائج میں گورنمنٹ کے کالجز کی کارکردگی کے حوالے سے چند باتیں آپ کے سامنے رکھنا چاہوں گا۔آزادکشمیر میں اسوقت 174 سرکاری کالجز موجود ہیں۔جن میں 12 پوسٹ گریجویٹ کالج،69 ڈگری کالجز،86 انٹر کالجز اور 7 ماڈل سائنس کالجز میں 60644 طلباء و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان میں تدریس کے لیے کم ازکم تین ہزار کالج اساتذہ کام کر رہے ہیں۔اس طرح تقریباً دو ہزار طلباء و طالبات کے لیے ایک استاد موجود ہے۔جب کہ شعبہءسکولز میں 415495 طلباء و طالبات کے لیے 29497 اساتذہ تعینات ہیں اس طرح ایک استاد کے ذمے تدریس کے لیے اوسطاً 149طلباءوطالبات موجود ہیں۔
تین میڈیکل کالجز میں 1550 مستقبل کے ڈاکٹرز کے لیے 1092 اساتذہ موجود ہیں گویا 5.31طلباء کے لیے ایک استاد موجود ہے۔
پانچ یونیورسٹیوں میں 28560طلباء و طالبات کے لیے 1981 اساتذہ تعینات ہیں گویا 29.11طلباء وطالبات کے لیے ایک استاد موجود ہے۔
میرپور بورڈ کے 2019 کے نتائج کے مطابق 575 تعلیمی اداروں نے انٹر کے امتحان میں شمولیت اختیار کی جن میں سے تین سو اکسٹھ (361) پرائیویٹ  تھے اس وقت طلبہ و طالبات کی ایک غالب اکثریت پرائیویٹ تعلیمی اداروں(کالجز) میں زیر تعلیم  ہے۔بحوالہ(آزاد کشمیر تعلیمی معیارومسائل۔مصنف پروفیسر مسعود احمد خان)
تعلیمی بورڈ میرپور کے حالیہ نتائج میں پہلی بیس پوزیشنز میں سے سرکاری تعلیمی اداروں (کالجز )کی پوزیشنز کی  تعداد 125 تھی۔
میرے لیے یہ اعدادوشمار کافی اطمینان کا باعث ہیں چونکہ سرکاری کالجز میں سے اکثریت مکانیت اور سٹاف کے گھمبیر مسائل سے دوچار ہیں۔اکثر اداروں میں ہوسٹل اور ٹرانسپورٹ کے مسائل بھی پریشان کن ہیں۔گنتی کے چند اداروں میں کسی حد تک سہولیات میسر ہیں مگر ایک بڑی تعداد میں ادارے بنیادی سہولیات سے یکسر محروم ہیں۔
ایک اور چیز جو میرے مشاہدے میں آئی  ہے کہ جب سے سرکاری کالجز میں ماڈل کلاسز کا اجراء کیا گیا ہے نتائج میں نمایاں بہتری آئی ہے کیونکہ اچھے بچوں کے ساتھ ہی اچھے نتائج دیئے جا سکتے ہیں سیکنڈ اور تھرڈ ڈویژن کے ساتھ بورڈ میں پوزیشنز تو درکنار پاس مارکس بھی مشکل سے ہی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔البتہ مخلوط تعلیم کے کچھ منفی اثرات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔۔
اس سارے سینریو میں جو چیز سب سے زیادہ پریشان کن ہے وہ سرکاری سکولز کی کارکردگی ہے۔کسی بھی ماڈل کلاس میں سرکاری سکولز کے طلباء وطالبات کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔حالانکہ کئی تعلیمی ادارے مکانیت اور سٹاف کی تعداد کے لحاظ سے مثالی ہیں۔مگر ان اداروں میں طلباء وطالبات کی تعداد تشویشناک حد تک کم ہے۔۔پرائمری اور مڈل سکولز بالخصوص خواتین کے اداروں میں تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ۔اکثر تعلیمی اداروں میں تعداد ٹرپل فگر تک نہیں پہنچ پاتی ہے۔۔۔جب کہ کئی اداروں میں سٹاف کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔
ارباب اختیار کو اس حوالے سے فوری عملی اقدامات کا آغاز کرنا چاہیے جن اداروں میں طلبہ و طالبات کی تعداد کم ہے اور اساتذہ زیادہ ہیں ان کو ٹرانسفر کر کے ایسے اداروں میں تعینات کیا جائے جہاں سٹاف کی کمی ہو۔۔اگر سیاسی مصلحتوں کی خاطر سرکاری اور قومی وسائل کو یونہی ضائع کیا جاتا رہا تو ایک وقت آئے گا کہ ہمیں اس کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔حکومت اگر تعلیم اور دیگر اداروں کی بہتری کے حوالے سے سنجیدہ ہے تو اسے ہر محکمہ کے حوالے سے مفصل رپورٹس اور ڈیٹا اکٹھا کرکے سفید ہاتھیوں سے گلو خلاصی کرنی چاہیے اور یہ اتنا دشوار نہیں ہے اور نہ ہی اس کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت ہے مگر اس کے لیے نیک نیتی اور اخلاص کی ضرورت ہے۔۔اداروں کو ختم کرنا  نہیں  بلکہ انہیں ٹھیک کر کے نفع بخش بنانا اصل کامیابی ہے ۔نفع بخش اداروں کو با وسائل کیا جائے انھیں ہر طرح کی سہولت دی جائے جب کہ ایسے ادارے جو قومی خزانے پر بوجھ ہوں ان کے ملازمین کو دوسرے محکمہ جات میں کھپایا جائے۔۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content