آزادکشمیر کے جنوبی اضلاع میں صنعتی آلودگی اورانسانی تباہ کن سرگرمیاں پودوں ، پرندوں اور جانوروں

کو ہجرت پر مجبور کر رہی ہیں، پریس فار پیس فاؤنڈیشن کی ماحولیاتی آگاہی مہم میں ماہرین ماحولیات کا اعلامیہ

بھٹوں کی تعمیر میں  جدید طریقہ کار،  لازمی شجرکاری، چائلڈ لیبرکے خاتمے  کا مطالبہ

سیگریٹ کی غیر قانونی فیکٹریوں ، جنگلات  کی تجدید  نو  عالمی فنڈنگ  سوالیہ نشان ہیں

جنگلات کی سفاکانہ تلفی اور آتشزدگی کے قلع قمع کےخلاف عوامی بیداری مہم کا مطالبہ

لندن / بھمبر  (پریس فار پیس فاؤنڈیشن رپورٹ)

ماہرین ماحو لیا ت  اور درد مند شہریوں نے آزاد کشمیر کے جنوبی اضلاعمیرپور اور بھمبر میں فیکٹریوں ، کارخانوں اور  اینٹوں کے بھٹوں سے پھیلنے والی صنعتی آ لودگی کو مضر صحت قرار دیتے ہوۓ اس کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے ضروری قانون سازی  کا مطالبہ کیا ہے۔  ماہرین نے کہا  ہے کہ اگر  محکمہ جنگلات میں دیہاڑی دار مزدوروں کی جگہہ تربیت یافتہ عملے  کو  تعینات کیا گیا ہوتا تو قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع  اور  جنگلات  کو پہنچنے والے نقصانات سے بچا جا سکتا تھا۔ بی بی سی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ضلع بھمبر   کے جنگلات گزشتہ کئی ماہ سے  سے بارشیںنہ ہونے کی وجہ سے  بارود کے ڈھیر بن چکے ہیں۔

اتوار 17 جولائی کو پریس فار پیس فاونڈیشن یو کے کے زیر اہتمام ماحولیاتیآگاہی مہم کے سلسلے میں ماحولیات کے ماہرین اور شہریوں کے مابین”بھمبر کے ماحولیاتی مسائل“ کے موضوع پر ایک مکالمے کا اہتمام کیا گیا -پینل ڈسکشن کے میزبان مظہر اقبال مظہر (برطانیہ)تھے – شرکا میں پروفیسر ڈاکٹر محمد اشتیاق (میر پور)، قابل تجدید توانائی کے عالمی ماہر ڈاکٹر اظہر فخر الدین (جرمنی)،ماہر نباتیات  ڈاکٹر مہوش مقبول (بھمبر)، ماہر تعلیم و سماجی  ترقی شاہ شعیب ہاشمی (یو کے)، ماہرین ماحولیات  ڈاکٹر صدیق اعوان اور ڈاکٹر بصیر الدین قریشی ،  سابق ڈی جی ای پی اے اور عالمی ماحولیاتی تنظیم  آئی یو سی این کے رکن  راجہ رزاق اوردیگر شامل تھے۔

مذاکرے کے شرکا نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جنگلات انسانی بقا کے لیے نا گزیر ہیں لیکن ان کو بے دردی سے کاٹا جا رہا ہے جس سے انسانی اور جنگلی حیات کو سنگین خطرات لاحق ہیں ۔ آلودگی کے خطرات کو کم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر شجر کاری اور عوام میں آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے شرکا نے   پرزور مطالبہ کیا کہ جنگلات  کو آگ سے  بچانے کے لیے    عوامی کمیٹیاں بنائی جاہئیں۔ تربیت یافتہ عملہ تعینات کیا جائے  جسے  وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی آگ سے نبٹنے کے لیے ضروری حفاظتی سامان فراہم کیا جائے اور   اینٹوں کے بھٹوں کے مضر اثرات  کو  کم کرنے کے  لیے زگ زیگ  کنسٹرکشن کا جدید طریقہ اختیار کیا جائے اور حکومت  بھٹہ مالکان کو قرضے فراہم کرے۔ بھٹہ مالکان کو پابند کیا جائے کہ وہ ماحول کی بہتری کے لیے متاثرہ علاقوں میں شجرکاری کریں۔

ڈاکٹر محمد اشتیاق  نے  کہا کہ  بھمبر میں  اینٹوں کے بھٹوں میں ناقص  کوئلہ استعمال  کیا جا رہا ہے جس  سے ان میں کام کرنے والے مزدوروں اور ملحقہ آبادی کی صحت ، فصلیں اور جنگلات  متاثر ہو رہے ہیں۔  ماحولیاتی آ لودگی سے نمٹنے کے لیے   حکومتی ادارے، سول سوسائٹی اور  عوام  مل کر کوششیں کریں۔فیکٹریوں میں   کام کرنے والے بچوں اور دیگر ورکرز کی صحت اور تعلیم کے لیے   حکومت اور فیکٹری مالکان اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ فیکڑیوں اور شاہرات کے ارد گرد درخت لگائے جائیں۔ فیکٹریوں کے  ساتھ گرین بیلٹ بنائے جا ئیں۔ ندی نالوں پر  چیک ڈیم بنانے کی ضرورت ہے۔

 ماہر تعلیم و سماجی  ترقی شاہ شعیب ہاشمی (یو کے) نے   بھمبر اور دیگر شہروں میں کوڑا کرکٹ کو تلف کرنے کے نظام کی عدم موجودگی  پر  افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ بھمبر اور دیگر  مقامات  میں  کوڑا کرکٹ کو  سائنسی انداز میں تلف  کرنے کے لیے  مقامی حکومت اور  بلدیات کے ادارے ری سا ئکلنگ کا جدید نظام شروع کریں۔ جنگلات  کی تجدید  کے لیے ہونے والی  عالمی فنڈنگ کہا ں جا رہی ہے؟  اس پر  سوال کرنے کی ضرورت ہے۔ ہاوسنگ سوسائٹیز کے نام پر  زرعی زمینوںاور درختوں کا خاتمہ کیا جارہا ہے۔  لیکن ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ مادیت کے لالچ میں انسانی حیات کو آکسیجن دینے والے درختوں  کا قلع قمع افسوس ناک ہے۔ چیڑ کے درخت پر آرا چلانے والے یہ نہیں سوچتے کہ اس کے بیج کو تیار ہونے میں تین سال لگتے ہیں۔ ماحول کے تحفظ  کے  لیے حکومت اور عوام  مل جل کر کوششیں کریں۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں غیر سرکاری اداروں کی کوششوں سے عوام میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے شعور کی بیداری  کا کامیاب تجربہ  کیا گیا ہے جس کو   سول سوسائٹی کے تعاون سے پورے ملک میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔

قابل تجدید توانائی کے عالمی ماہر ڈاکٹر اظہر فخر الدین (جرمنی) نے بتایا کہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی،  آبادی کے اضافے، ماحولیاتی آلودگی  اور دیگر  عوامل کی وجہ سے  پوری دنیا کے مقابلے میں پاکستان کا  اوسط درجہ حرارت زیادہ ہے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کے سب سے اوپر والے درجے میں شامل ہو چکا ہے اور  انھی تبدیلیوں کی وجہ سے درجہ حرارت  53 درجے تک بھی جا پہنچا ہے۔ پاکستان  ہوا کی آلودگی کی   انڈیکس کے سب سے خراب درجے کے ممالک میں شامل ہے۔

گزشتہ دو ماہ کے دوران  ضلع بھمبر میں   جنگلات کا  آ دھے سے زائد رقبہ جل کر خاکستر ہو گیا۔ جنگلات کی آگ بجھانے کے دوران محکمہ جنگلات  کے چھ اہلکار زخمی اور  دو شہید ہوئے۔ اس میں سوالیہ نشان ہےکہ محکمہ جنگلات  اس حادثے سے آگاہ نہیں تھا  ۔ برنالہ اور بھمبر میں اسٹون   کرشنگ مشینیںماحولیاتی آ لودگی کا باعث بن رہی ہیں۔ ماحول کے مسئلے کو حکومت اور عوام  مل  کر ہی حل کر سکتے ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہجنگلات  کے عملے کو آگ بجھانے کی تربیت اور ضروری  حفاظتی  آلات فراہم کیے جا ئیں۔  ٹاؤن کمیٹیوں کو کچرے کو تلف کرنے کا جدید  نظام اپنانا ہوگا۔ گھروں کی تعمیر میں سیمنٹ کے بجائے ماحول دوست میٹریل کے استعمال کو رواج دینے کی ضرورت ہے۔ 

ماہر نباتیات  ڈاکٹر مہوش مقبول (بھمبر)، نے کہا کہ   ماحولیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے۔ انسان اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ماحول کو نقصان پہنچا رہا ہے۔  پودے اور جنگلات ہماری زمین کے لیے پھیپھڑوں کا کام دیتے ہیں  اور جنگلات کے بغیر  زمیں پر انسانی زندگی کا وجود خطرے میں ہے۔انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے خطے کا ماحولیاتی توازن بگڑ رہا ہے۔یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات کی  تربیت و آگاہی کی حد تک تو وہ خود اور  یونیورسٹی  کا ماحولیاتی شعبہ اپنا کردار ادا کر رہا ہےمگر مسائل اتنے گھمبیر ہیں کہ ان کے لیے  حکومتی سرپرستے میں تمام شعبہ ہائے زندگی کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

سابق  ڈی جی   ای پی اے  راجہ رزاق نے اپنی تحریری تجاویز میں بتایا کہ ضلع بھمبر میں  سب سے بڑا چیلنج کرش پلانٹس کا غیر منظم آپریشن ہے جو علاقے میں تباہی مچا رہے ہیں، جس کے نتیجے میں بجری نکالنے کے نتیجے میں مٹی کو انتہائی ناہموار طریقے سے کاٹا جاتا ہے۔ قدرتی پانی کے بہاؤ کے سلسلے کو مسدود کر دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں سیلاب کے علاقے تبدیل ہو رہے ہیں جس سے پرانی بستیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔  کسی منصوبہ بندی کے بغیر شہری  بستیاں،   زرخیز زرعی زمینوں کو ہاؤسنگ سیکٹر/ سوسائٹیز میں تبدیل کرنا،  جنگلات کی کٹائی اور نقصان بڑے مسائل ہیں۔ بلین سونامی کے تحت شجرکاری کے حالیہ اقدام کو بھی مقامی آبادی نے روک دیا جس کے نتیجے میں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ برنالہ میں تمباکو کی تھریشنگ/ پروسیسنگ فیکٹریاں لگائی گئی ہیں جس کی وجہ سے ماحولیاتی تباہی اور آلودگی بہت زیادہ ہے۔ پنجاب اور کے پی میں ایسے پلانٹس پر پابندی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ آزاد جموں و کشمیر کو اپنے غیر قانونی کاروبار کے لیے محفوظ جنت سمجھ کر منتقل ہو رہے ہیں۔ دیوا وٹالا نیشنل پارک  میں جنگلی حیا ت خطرے میں ہے۔ اینٹوں کے بھٹوں کے یونٹ اگرچہ کم ہیں لیکن ماحولیات کے لیے تباہی پیدا کر رہے ہیں اور حکومت کے ذریعے انہیں زگ زیگ ٹیکنالوجی میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت انہیں قرضوں کی فراہمی میں مدد دے۔

ڈاکٹر صدیق  اعوان  نے  خطے میں جنگلی حیات کی اہمیت کو اجاگر کیا۔بھمبر کے علاقے میں جنگلی حیات کے ممکنہ خاتمے پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ریڈ جنگل فاؤل نامی پرندہ تقریباً ناپید ہو چکا ہے۔ حکومت توجہ کیوں نہیں کر رہی ہے؟

ڈاکٹر بصیر الدین قریشی نے   ڈاکٹر مہوش کی تائید کرتے ہوئے بتایا کہ  ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے دنیا   جنگلات کے فروغ پر کام کررہی ہے جبکہ ہم ابھی تک  موجود جنگلات  کو بچانے کی تگ و دو کر رہے  ہیں۔ انسان  کے ماحول دشمن اقدامات کی وجہ سے  جنگلی حیات بھی اپنے قدرتی مسکن سے ہجرت پر مجبور ہو رہی ہے۔ کئی اقسام کے پودے ، جنگلی حیات اور شکاری جانور انسانوں کی جانب سے غیر محفوظ سرگرمیوں کی وجہ سے میدانی علاقوں سے بالائی علاقوں کی جانب منتقل ہو رہے ہیں جس سے پورے خطے کی ایکالوجی کو شدید خظرات لاحق ہیں۔

میزبان  مظہر اقبال مظہر نے    شرکا  کو بتا یا کہ  پریس فار پیس فاؤنڈیشن گزشتہ   بائیس برسوں سے آزاد جموں و کشمیر میں ماحولیات کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے گراس روٹ  لیول پر  ہمہ جہتی کوششیں کر رہی  ہے ہیں جسے عالمی اور مقامی اداروں کی طرف سے سند اور  پزیرائی ملی ہے۔     ماحولیاتی مسائل   کو ا جاگر کرنے کے لیے    جاریہ  آگاہی مہم میں  عوام اور   معاشرے کے  باشعور اور مقتدر طبقات نے گہری دلچسپی لی ہے  جو اس بات کا اظہار ہے کہ       سماج میں     مثبت  تبدیلی  کے لیے  کوششوں  کو   مل جل کر   کامیاب  کیا جا سکتا ہے۔    پریس فار پیس  فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام    کتابوں اور  علمی اور تحقیقی مواد کی اشاعت کا بھی اہتمام کیا جا رہا ہے۔

پریس فار پیس فاؤنڈیشن  کے  اس  ویبی نار   میں    لوگوں  کی بڑی تعداد نے خطے میں  ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے مفید تجاویز دیں۔بھمبر سے ماحولیاتی کارکن عابد حسین نے کہا کہناقص نکاسی کا نظام زمینی پانی کی آلودگی کا نتیجہ ہے۔ایک فاریسٹ فائر فائٹر کو 500 روپے یومیہ اجرت ملتی ہے جبکہ اس علاقے کی  کمیونٹی بےخبر سوئی ہوئی ہے ۔ سب سے زیادہ خواندگی کی شرح کے باجودد سب سے کم ملازمتوں  والا خطہ ہونے کی وجہ سے  نوجوان دوسرے ملک کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔کچرے کو ٹھکانے لگانے کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ مریضوں کے لیے ڈائیلاسز سنٹر  موجود ہے جس میں بیماری کی وجہ پر کوئی تحقیق نہیں ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ مائنز کی سرگرمی بغیر کسی چیک اینڈ بیلنس کے نظام کے چل رہی ہے۔  اسٹون کرشنگ یونٹس کے حوالے سے  ماحولیاتی انجینئرنگ ناپید ہے۔ مٹی کا کٹاؤ بڑھا ہوا ہے۔مٹی کی زرخیزی، واٹر ہارویسٹنگ سٹرکچرز اور واٹر ٹیبل جیسے عوامل قابل توجہ ہیں۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content