لندن کے نیم آبی چوہےواپس آرہے ہیں۔ تحریر: مظہر اقبال مظہر : مغرب کو معاشی خودکفالت اور صنعتی ترقی کی دوڑ نے ماحولیاتی تباہی کی جس ڈگر پر ڈالا تھا اس ڈگر پر چل کر وہ واپس فطرت کے قریب جانا چاہتا ہے۔
چار سو سال قبل لندن کے رہائشیوں نے جن نیم آبی چوہوں کو مار مار کر ختم کردیا تھا اب ان کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر واپس لایا جار ہا ہے۔
بیور نامی یہ نیم آبی چوہے کسی زمانے میں پورے برطانیہ میں پائے جاتے تھے۔ لیکن 16ویں صدی میں ان کی کھال، گوشت اور غدودوں میں موجود خوشبودار تیل کی وجہ سے ان کا شکار کیا جاتا تھا، جو ادویات اور پرفیوم میں استعمال ہوتا تھا۔
دولت کی ہوس کے نتیجے میں لندن کے قدرتی ماحول کے محافظ یہ آبی انجینئرز برطانیہ سے ناپید ہوگئے تھے مگر کینیڈا، پولینڈ، جرمنی، فرانس، وسطی روس اور جنوبی اسکینڈینیویا جیسے ممالک میں آج بھی بکثرت پائے جاتے ہیں۔
یہ زمین پر دوسرے سب سے بڑے نیم آبی چوہے ہیں۔ بیور عام طور پر میٹھے پانی کے ذخیروں، دریاؤں، ندیوں، جھیلوں اور تالابوں میں رہتے ہیں۔
ان کے باقی جسم کے تناسب سے سر بڑے ہوتے ہیں۔ ان کا جسم مضبوط اور بھوری یا سرمئی کھال پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہاتھ کی طرح کے سامنے کے پاؤں اور پنجہ نما پچھلے پاؤں ہوتے ہیں۔اسی لیے یہ سہولت سے پانی اور خشکی پر چل سکتے ہیں۔
دنیا میں معاشی ترقی اور لازوال بلندی تک پہنچنے کی دوڑ میں چین، شمالی امریکا اور یورپی یونین کے ساتھ برطانیہ جیسے ممالک سر فہرست ہیں۔
مالیاتی تعاون و ترقی کی عالمی تنظیم (او ای سی ڈی) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کورونا کی وبااور یوکرائن کی جنگ کے تناظر میں ایک نازک بحالی کے عمل سے گزر رہی ہے۔
جدید ایجادات اورانسانی ترقی کے زینے پر چل کر مغربی ممالک بہت آگے نکلنا چاہتے ہیں۔ مگر دنیا کے دیگر امیر و غریب ممالک کی طرح انہیں بھی معاشی و معاشرتی مسائل کے ساتھ آب و ہوا کی تبدیلیوں اور ماحولیاتی ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے۔
برطانیہ کے انتظامی عہدوں پر فائز قیادت کو یہ ادراک ضرور ہے کہ قدرتی دنیا کو پہنچنے والے نقصانات کے باوجود ان کے ہاں اصلاح کرنے کی طاقت ہے۔اسی لیے لندن کی شہری حکومت زوال پذیر حیاتیاتی تنوع اور فطرت کی تباہی کے رجحانات کو ریورس کرنے کی کوششوں میں سب سے آگے ہے۔
انہی کوششوں کے حوالے سے حکومت شہر میں حیاتیاتی تنوع کی بہتری کے لیے نت نئے منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔ جہاں شہد کی مکھیوں، چمگادڑ اور دیگر کئی اقسام کی جنگلی و آبی حیات کو ترجیحی منصوبوں میں شامل کیا گیا ہے، وہیں یہ نیم آبی چوہے بھی ان کا حصہ ہیں۔ ان منصوبوں پر عملدرامد کا مقصد برطانیہ کے دارالحکومت میں فطری مناظر و مظاہر کو ری وائلڈنگ کے ذریعے واپس لانا ہے۔
ری وائلڈنگ فطرت کی جانب بڑھنے کا ایک اہم قدم ہے۔ یہ صحت مند ماحولیاتی نظام بنانے اور انسانوں اور جنگلی حیات کو زیادہ ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کی اجازت دینے کا ایک دلچسپ اور مفید طریقہ ہے۔ تاہم اس طریقے پر چلنے کے لیے بھی خطیر رقم کی ضرورت ہے۔ اور خوش آئند بات یہ ہے کہ شہر ی حکومت کے اکابرین یہ رقم خرچ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
لندن کی مقامی کونسلز اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے گروہوں کے درمیان ایک منصوبے کا آغاز ہو چکا ہے۔ جس کے تحت گزشتہ موسم خزاں میں ان نیم آبی چوہوں کی افزائش کا ایک جامع پروگرام شروع کیا گیا ہے۔
اس کے تحت گزشتہ 400 سالوں میں پہلی بار ان چوہوں کو لندن واپس لایا جا رہا ہے۔اس پروجیکٹ کو لندن ریوائلڈ فنڈ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے تحت حیاتیاتی تنوع کو فروغ دینے، جنگلی و آبی حیات کی آماجگاہوں کی بحالی اور ناپید نسلوں کو دوبارہ متعارف کرانے میں مدد کے لیے متعدد تنظیموں کو فنڈ ز فراہم کیے جا رہے ہیں۔امید ہے کہ یہ منصوبہ حیاتیاتی متنوع ماحولیاتی نظام کو فروغ دینے میں مدد دے گا۔
بیورز یا نیم آبی چوہے بے پناہ تعمیر ی صلاحیت کے مالک ہیں۔ وہ اپنے ماحول کو قدرتی انداز میں ترتیب دینے کی بھرپور اہلیت رکھتے ہیں، اور ان کا طرز زندگی تازہ پانی کے استعمال، اخراج اور فاضل پانی کی روک تھام میں قدرتی انجینئرنگ کا کام دیتاہے۔
اسی لیے انہیں قدرت کے انجینئرز بھی کہا جاتا ہے۔ بیورز کی متوقع آماجگاہوں میں ریور ٹیمز اور کئی دیگر چھوٹے دریا اور نہریں شامل ہیں، اس کے علاوہ شہر کے پانی کے دیگر ذخیروں میں بھی انہیں اپنا مسکن ڈھونڈنے میں آسانی ہوگی۔ یہ چوہے ایکولوجی کے مہاجرین ہوتے ہیں اسی وجہ سے ان کے پاس قدرتی ماحول پر اثر انداز ہونے کی بے پناہ صلاحیت ہوتی ہے۔یہ آبی ذخائر کے ساتھ بند اور پشتے بناتے ہیں۔
سرنگیں اور گڑھے تعمیر کرتے ہیں۔ جو اطراف کے قدرتی ماحول میں بہتر تبدیلیاں لاکر ایکولوجی پر مثبت اور منفی اثرات ڈالتے ہیں۔ یہ ڈیموں کے پانی کی روانی کو کم کرکے سیلاب کا خطرہ کم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ یہ نئے پانی کے ذخائر تیار کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
اس کے علاوہ بے شمار آبی مخلوق کے لیے قدرتی طریقے سے انجینئرنگ کی سروسز فراہم کرتے ہیں۔ ان کی موجودگی فضا کو آلودگی سے بچانے میں اہم خدمت سرانجام دیتی ہے۔ یہ ہو اکو فلٹر کرنے اور گردوغبار کو کم کرنے کے علاوہ کاربن کے قدرتی سِنک بنانے کا کام کرتے ہیں۔
بیور اکثر پانی کے اندر داخلی سرنگ کے ساتھ ساتھ پانی کے ذخائر کے کنارے میں کھودے ہوئے بلوں میں پناہ لیتے ہیں۔ یہ لکڑی کے برادے، ٹہنیوں اور آبی ذخائر کے کناروں پر یا جہاں بھی انہیں محفوظ جگہہ ملے مٹی سے اپنا مسکن تیار کر لیتے ہیں۔
ایسی جگہوں کو یہ کھانے، سونے اور افزائش کے عمل لیے محفوظ سمجھتے ہیں۔ بیور چھوٹے خاندانی گروہوں میں رہتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ان نیم آبی چوہوں کی جوڑی عام طور پر زندگی بھر ساتھ رہتی ہے۔ ان کے ہاں افزائش دسمبر اور اپریل کے درمیان ہوتی ہے۔
بیور سبزی خور جانور ہیں جو مکمل طور پر پودوں پر کھانا کھاتے ہیں۔ یہ گھاس، پتے اور پودوں کے دیگر حصے چھال وغیرہ کھاتے ہیں۔ ان کے دانتوں پر آئرن نما دہاتی اجزا ہوتے ہیں جو انہیں لکڑی کے ذریعے کاٹنے کے لیے اضافی طاقت فراہم کرتے ہیں۔
یہ ڈیم بنا کر، تالاب بنا کر، اور اپنے علاقے کے ارد گرد تیرنے کے لیے نہریں بنا کر، ایسے مسکن بناتے ہیں جو دیگرکئی اقسام کے پرندوں اور جانوروں چمگادڑ، مینڈک اور مچھلی وغیرہ سمیت بہت سی دوسری جنگلی حیات کو پھلنے پھولنے میں مدد دیتے ہیں۔
بیور کے بہت سے فوائد کے باوجود کچھ چیلنجز بھی ہیں جن سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ بیور کی موجودگی بعض اوقات انسانی سرگرمیوں سے متصادم ہو سکتی ہے، جیسے زمین کا استعمال اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی۔
مثال کے طور پر، بیورز کی سرگرمیاں بعض اوقات آبی ذخائر کی ملحقہ زمین پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ان کی کاروائیاں زمینی سطح سے اندر ہی اندر ہونے کی وجہ سے یہ علاقے کے انفراسٹرکچر مثلاً پلوں اور ڈیموں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
You must be logged in to post a comment.