تحریر : رخشندہ بیگ
ایک دلدوز طویل چیخ نے دیر تک ماحول کے سناٹے کو توڑے رکھا ۔دن کے وقت تو پورا ماحول ہی طرح طرح کی آوازوں ،خود کلامیوں ،کے علاوہ خودساختہ قہقہوں یا سسکیوں سے گونجتا رہتا تھا ،مگر رات کے پچھلے پہر جب سب روحیں شکستہ اجسام کو چھوڑ کر من پسند ماحول میں تیرتی پھرتی تھیں ۔ایسے میں بانو جیسی کوئی ایک دو ہی رات کی سیاہی کو اپنی اندرونی وحشت سے مزید وحشت ذدہ کردیتیں اور یوں محسوس ہوتا جیسے کسی نے مقدس روحانی ماحول کو گندگی اچھال کر ناپاک کردیا ہو ۔
بازو میں اترتی تیز اثر دوائی نے بلا آخر اسے بھی نیند کی وادی میں دھکیل ہی دیا ۔نیند جو مہربان ہے بالکل ماں کی آغوش کی طرح ۔۔۔۔۔ماں ۔۔۔۔ما ما۔۔۔۔ماں اس کے مدہوش ہوتے وجود سے سرگوشی کی طرح یہ مقدس لفظ نکلا تھا ۔۔۔۔مگر کیا ہر ماں اس لفظ کے تقدس کو قائم رکھتی ہے ؟
وہ ملائم سی جلد والی سرخ وسفید بچی ،جس کی گہری کتھئ آنکھوں میں ہر وقت ایک اداسی تیرتی محسوس ہوتی تھی ۔ایک کونے میں خاموش اپنا اسکول بیگ لیے بیٹھی تھی ۔رنگ برنگی کتابیں اور تصاویر اس کی توجہ اپنی جانب کھینچتے مگر ابھی لفظوں کی پہچان نہیں تھی ۔اسے ہوم ورک مکمل کرنے کے لیے کسی کی مدد کی ضرورت تھی ۔
“میں تمہارے پاس نہیں بیٹھوں گی ۔اف تم کتنا گندہ یونیفارم پہن کر آتی ہو اور ناخن بھی کیسے گندے ہو رہے ہیں ۔”
ساتھ بیٹھی نک سک سے درست ہم جماعت نے اسے جو کمتری کا احساس دلایا ،پھر یہ شرمندگی کا احساس اس پر غالب آتا چلا گیا ۔وہ دوست بنانا نہ سیکھ سکی ۔چپ چاپ خود اپنے خول میں ہی گم دانتوں سے ناخن کترتی ،کپڑوں کی سلوٹوں کو ہاتھ پھیر پھیر کر درست کرنے میں ہلکان ہو جاتی مگر اس کے مجروح اعتماد کی ناؤ تیر کر نہ دیتی ۔
اسکول سے نوٹس پر نوٹس آتے مگر وہاں پرواہ کسے تھی ۔باپ دیار غیر میں بیٹھا نوٹ چھاپنے میں مصروف اور ماں کی دلچسپی کے بے شمار جہان جو ہمیشہ آباد ہی رہتے ۔۔۔۔اتنے آباد اور پر شور کہ اس کی التجائی نگاہیں ،خاموش شکوے ،اور شوریدہ سسکیاں اس جہان کے باہر ہی ٹکرا ٹکرا کر دم توڑ جاتیں ۔
کچے پکے وہ رل رلا کر اسکول پار کر ہی گئی کہ کرنے کو کچھ اور تھا ہی نہیں ، باپ کی دوسری شادی کی خبر جو کافی تاخیر سے ہی سہی مگر پہنچ ہی گئی اور ماں کو جو کبھی تھوڑا بہت خیال رہتا تھا وہ بھی ختم ہوا ۔وہ بھی تو اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتی تھی ۔شادی کے بعد کے کچھ ماہ کی رفاقت اور ایک اولاد کا تحفہ دے کر شوہر نے مڑ کر نہ دیکھا ۔کچھ عرصہ کے اذیت بھرے صبر کے بعد اس نے سمجھ لیا کہ ان تلوں میں اس کے لیے تیل نہیں اور پھر اپنی جلتی کلستی راتوں کو پر سکون بنانے کی جدوجہد میں وہ ہر حد ہی پھلانگ گئی ۔۔۔۔یہ سوچے بغیر کہ وہ ایک ماں بھی ہے ۔۔۔۔مگر یہ بات تو اس کے باپ نے بھی نہ سوچی کہ جس رشتہ کے صدقے میں ایک جیتا جاگتا وجود ہمکتا چھوڑ آیا ہے اسے بھی تو باپ کی شفقت کی ضرورت ہے ۔ماں نے تو فطری تقاضوں کو پورا کرنے کو چور راستے ڈھونڈ نکالے مگر بانو کسے باپ کہتی یا کس کس کو یہ درجہ عطا کرتی !!
یوں دو مختلف جزیروں کے ٹکراؤ کے نتیجے میں وجود میں آجانے والی بانو خشکی کا وہ ٹکڑا بن گئی جس کا نہ کوئی کنارہ تھا اور نہ کوئی راستہ وہ سمندر کے درمیاں بے نام و نشان تیرتی لا وارث زمین ٹھہری ۔
وقت نے انگڑائی لی تھی یا ہر لڑکی پر یہ اسی طرح گزرتا ہے ۔۔۔۔معصوم خواہشات ،ہمکتے جذبات ، دھیمی دھیمی لو دیتی گہری آنکھوں میں چمکتے خواب، چپکے سے جسم و جان میں اٹھتے مدوجزر نے اسے وہ جنگلی بوٹی بنا دیا ،جو اپنی تیز مہک سے ہر قریب سے گزرنے والے کو متوجہ کرنے لگتی ہے ۔تتلیوں کے ساتھ بھونرے بھی چکر کاٹتے ہیں اور پل بھر کو دم لے کر اس کا ترش و تیز ذائقہ چکھنے کو مچلتے ہیں ۔
اپنی ڈھلتی عمر کا احساس بانو کی ماں کو اب اکثر ہی ہونے لگا تھا ،خاص کر جب مفتوحہ اشخاص اسے پہلو میں لیے حیلے بہانے سے بانو پر مہربانیاں کرتے دکھائی دینے لگے ۔اب ملنے والے تحائف میں ماں سے ذیادہ بانو کا خیال رکھا جانے لگا تھا ۔گویا وہ ان جانے میں ہی سہی، اپنی ہی ماں کے مد مقابل کھڑی ہوتی جارہی تھی ۔
اس سب کا حل ماں نے اسے ہوسٹل بھیج کر نکالا ۔وہ ہی ماں جسے کبھی بچپن میں بھی اس کی تعلیم سے سروکار نہ رہا تھا ،اچانک اس کے مستقبل کے لیے ازحد فکر مند ہو چکی تھی اور اس کے روشن کل کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ مزید تعلیم حاصل کرے ،وہ بھی دوسرے شہر کے ہو سٹل میں رہ کر کیونکہ بقول ماں کے اس شہر میں کوئی معیاری تعلیمی ادارہ ہی موجود نہیں تھا ۔
بانو کی تو جیسے کوئی مرضی تھی نہ سوچ مگر ایسا ماں کو لگتا تھا ۔۔۔۔۔وہ سب سمجھتی بھی تھی اور سوچتی بھی تھی ۔ہوسٹل کے کمرے میں بستر پر لیٹے وہ اکثر ماں کی پریشانی کے بارے میں سوچ کر دل میں ایک کمینی سی خوشی محسوس کرتی ، مگر اب اس کے لیے بھی ایک نیا جہان تھا ۔جہاں وہ خوابوں کی تتلیوں کو تعبیر کے پنکھ دینے کا سوچ سکتی تھی ۔
پیسہ پہلے سے وافر مقدار میں ملنے لگا تھا کہ ماں نہیں چاہتی تھی وہ کسی بھی چیز کو لے کر اس کی زندگی میں مداخلت کرے ،دوسرے معنوں میں وہ آزاد تھی کہ اپنی راہ گزر چن لے ،مگر وہ بانو تھی جس نے مرد کی لچھے دار باتیں سن کر اور وقتی وارفتگیوں کے مظاہرے دیکھتے ہوئے ہوش سنبھالا تھا ۔۔۔۔۔اسی لیے ہر بڑھنے والے ہاتھ اور اٹھنے والی نظر کو باطن کی کسوٹی پر پرکھ کر ادھیڑ ڈالتی ،وہ ڈری سہمی چپ سی بانو تو نہ جانے کہاں گم ہو چکی تھی۔ اب زمانے کے رنگ دار چہرے کے مقابل کھڑی بانو کے چہرے پر بھی کئی رنگ دار مکھوٹے تھے ۔
دلوں سے کھیلنا اور کھیل کر کھلونہ توڑ دینا ہی اس کا عزیز تر مشغلہ تھا ۔۔۔۔۔جیسے اپنے تمام قرضے سود سمیت وصول کر رہی ہو ۔شہر کی ہر محفل اس کے دم سے آباد تھی اور کتنے ہی دل دار اپنے دل کاسے میں لیے اس کی نظر الفت کے منتظر رہتے ،مگر وہ تو جانتی تھی ان سب کی حقیقت بہت قریب سے ،اتنے قریب سے کہ اس سے کریہہ منظر وہ تصور میں لا ہی نہیں پاتی تھی ۔
بیٹی کہہ کر جال پھینکنے والے ،بہن بنا کر عزت اچھالنے والوں سے بہتر وہ انہیں سمجھتی جو سیدھا مطلب کی بات کرتے اپنے غلیظ چہروں پر مقدس رشتوں کا نقاب لگانے والوں کو وہ اس جگہ لے جا کر مارتی جہاں تڑپتے کو پانی کی بوند بھی نصیب نہ ہو ۔
جب وہ اس کھیل سے بھرپور لطف اندوز ہو رہی تھی ،ایسے میں ماں کا فون چلا آیا ۔۔۔۔”بانو گھر واپس چلی آؤ ،مجھے تمہاری ضرورت ہے ”
ماں کی فالج ذدہ لکنت آمیز آواز نے اسے پکارا بھی تو اپنی ہی ضرورت کے لیے ۔
ایک بار پھر وہی شہر اور وہی بام و در تھے مگر اب کے بانو بدل گئی تھی ۔اس کا اندر ،باہر سب ایک ان دیکھی آگ کی لپیٹ میں تھا ۔جب وہ کسی باپ کو اپنی بیٹی کے لاڈ اٹھاتے دیکھتی ،کسی پارک میں بچوں کو جھولا جھلاتے ،اسکول ،کالج کے باہر سخت گرمی میں کھڑے باپ کی منتظر نگاہیں جو بیٹی کو دیکھ کر پسینے میں بھیگے ہوئے چہرے کو صاف کرتے مسکراتیں ،کسی دوکان پر کھلونوں کی ضد پوری کرتے باپ کا خوشی سے سرشار چہرہ دیکھ کر اس کا دل کرتا کوئی تیزاب ڈال کر ان خوشیوں کو جلا ڈالے بھسم کردے ۔جن خوشیوں سے وہ محروم رہی وہ دوسروں کو بھی کیوں میسر تھیں ۔
ماں کے بے جان جسم میں بس آنکھیں ہی جذبات کا اظہار کرتیں تھیں ۔زبان کی تیزی اور قوت گویائی بس کچھ مبہم الفاظ کی شکل میں ڈھیروں تھوک کے ساتھ اس کے بگڑے ہوئے چہرے کو مزید خوفناک کر دیتی ۔
چوبیس گھنٹے کے لیے رکھی نرس کو وہ کبھی بلا وجہ ہی رخصت دے دیتی اور ماں کے سامنے آرام دہ کرسی پر بیٹھ کر اس کی بے بسی کا مزہ لیتی ۔اس کی بے بس نظریں ہوں یا کسی ضرورت کا اظہار وہ سب کو یکسر نظر انداز کر کے بس مسکراتی رہتی اور وہ سب باتیں، وہ سب شکوے ،جو شعور کی پہلی منزل سے اس کے دل میں پرورش پا رہے تھے ۔۔۔۔۔کسی زہر کی طرح لفظوں کی صورت انڈیلتی رہتی ۔ماں کی بے بسی ،نظروں کی التجا سب کچھ ان دیکھا کرکے وہ اس اذیت کا پوری دلچسپی سے مشاہدہ کرتی تھی ۔
ماں اب اس سے خوف ذدہ رہنے لگی تھی۔ وہ کمرے میں آتی تو وہ ہراساں ہو جاتی اپنی لڑکھڑاتی زبان سے نرس کو کچھ کہنے کی کوشش کرتی ۔۔۔۔۔اس دن بھی تو اس نے دوائی پلاتی نرس کو کچھ کہنے کی کوشش کی تھی ۔بانو گزرتے وقت کے ساتھ مزید سفاک ،مزید جنونی ہوتی جا رہی تھی اور اس دن ماں نے شاید اس کی نظروں سے جھلکتی شدت دیوانگی محسوس کر لی تھی ۔
“یہ لو سسٹر تمہارا کام ختم ”
اس نے ایک موٹا لفافہ نرس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔
“مگر میم آپ کی والدہ کی حالت ٹھیک نہیں ہے ۔انہیں بہت زیادہ کئیر کی ضرورت ہے ”
“ہاں تو میں ہوں نا ۔۔۔۔۔میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب میں اپنی پیاری ماں کا اسی طرح خیال رکھو گی جیسے یہ بچپن میں میرا رکھتی تھیں ۔”
اس نے پیار سے ماں کے بالوں کو سہلاتے ہوئے نرس کو جواب دیا ۔وہ خاموشی سے سر جھکائے اپنا مختصر سامان سمیٹ کر رخصت ہو گئی ۔
ماں جو اس کے کچھ گھنٹوں کے جانے پر واویلا کرتی تھی حیرت انگیز طور پر چپ اور پر سکون تھی ۔
بانو کی وحشت بھری محبت نے شاید اسے بھی چھٹکارے کی نوید سنا دی تھی ۔
“ماں آؤ میں تمہیں وہ سب لوریاں سناؤ ،جو میں تم سے سننا چاہتی تھی ”
اس نے ماں کا سر سہلاتے ہوئے گنگنانا شروع کردیا ۔
میرے گھر آئی ایک ننھی پری
میرے گھر آئی ایک ننھی پری
درو دیوار سے برستی وحشت اور اجاڑ حالوں میں گم سم وجود جو چپ رہتا ہے ،جو قہقہے لگاتا ہے اور کبھی اس کی چیخوں سے رات کے پچھلے پہر یہ پناہ گاہ تھرا اٹھتی ہے ۔
“ہوش والو کو کیا خبر بے خودی کیا چیز ہے ”
بانو کبھی تو بہت ہی ہوش مندی کی باتیں کر جاتی ہے ۔کہتی ہے “ان درو دیوار میں مقید کتنی ہی کہانیاں چلتی پھرتی نظر آتی ہیں اور کتنے ہی کردار ہوش و خرد کو خیر باد کہہ کر اپنی ہی کسی دنیا میں گم ہیں ۔یہ چیختے ہیں ،ہنستے ہیں ،روتے اور کرلاتے ہیں ۔لوگ انہیں پاگل کہتے ہیں ۔مگر یہ پاگل نہیں ہیں ،یہ تو اپنے پیاروں کی کوتاہیوں کا گناہوں کا کفارہ ادا کر رہے ہیں ۔”
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.