تحریر : مظہر اقبال مظہر ، لندن
گلوبل فاریسٹ واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ گیارہ برسوں میں آزاد کشمیر کے جنگلات کا تقریباً چار ہزار دو سو ایکڑ رقبہ کم ہوگیا ہے۔ جب آزاد جموں و کشمیر کی پہلی حکومت بنی تو جنگلات کا کُل رقبہ 32 فیصد تھا۔آج یہ رقبہ سُکڑ کر 15 فیصد رہ گیا ہے۔ آزادکشمیر میں جنگلات کے تحفظ کا قانون اتنا ہی پرانا ہے جتنی آزادکشمیر کی اپنی عمر ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے فوڈ ایند ایگریکلچر آرگنائزیشن کی آرکایئوز میں آزادریاست جموں وکشمیر کا 1948 کا ایک قانون ٹِمبر پروٹیکش ایکٹ محفوظ ہے جس کا مقصد آزاد کشمیر کی حدود میں لکڑی کی سرگرمیوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
جہاد ِ آزادی کے زمانے میں اس قسم کے قوانین کا پاس ہونا اس وقت کے سماجی ڈھانچے ، جرائم کی نوعیت اور حکومت وقت کی دلچسپیوں کے حوالے سے ایک علیٰحدہ بحث کو جنم دیتا ہے جسے ہم کسی اور وقت کے لیے اٹھا لیتے ہیں۔ مذکورہ بالا قانون میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ آزاد کرائے گئے علاقے میں زمین پر پڑی ہوئی اور زمینی یا دریا ئی راستے سے گزرنے والی تمام لکڑی آزاد کشمیر حکومت کی ملکیت تصور کی جائے گی، جب تک کہ کسی دعوے سے اور مستند دستاویزی ثبوت کے ذریعے اس کے برعکس ثابت نہ ہو جائے۔ محکمہ جنگلات، پولیس یا کسٹم ڈیپارٹمنٹ کا کوئی بھی افسر آزاد کشمیر کے علاقے میں اس قسم کی کسی بھی لکڑی کو ضبط کر سکتا ہے۔
کوئی بھی افسر جس نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے لکڑی ضبط کی ہو وہ فوری طور پر محکمہ جنگلات کو رپورٹ پیش کرے گا۔ اگر کوئی دعویدار ثابت کرتا ہے کہ قانونی طور پر پکڑی گئی لکڑی اس کی ہے تو ڈویژنل فارسٹ آفیسر لکڑی کو چھوڑ دے گا۔ اگر ضبطی کی تاریخ سے تین ماہ کے اندر ضبط کی ہوئی لکڑی کو قانونی مالک سامنے نہیں آتا یا ثابت نہیں کرسکتا تو ایسی لکڑی کو آزاد کشمیر حکومت کی ملکیت تصور کیا جائے گا۔ اگر کوئی شخص لکڑی کو ضبط کرنے کے خلاف مزاحمت کرتا ہے تو اسے کسی بھی کی قید کی سزا دی جائے گی جس کی مدت دو سال تک ہوسکتی ہے یا جرمانہ یا دونوں سزائیں۔
گلوبل فاریسٹ واچ کی مذکورہ بالا رپورٹ کے مطابق 2010 میں آزاد کشمیر کے پاس جنگلات کا رقبہ دو لاکھ دس ہزار ایکڑ تھا جو ریاست کے کل رقبے کا 15 فیصد ہے۔ یاد رہے کہ آزادکشمیر کا کُل رقبہ 13297 مربع کلومیٹر یعنی 13 لاکھ 29 ہزار 7سو ایکڑ ہے۔حکومت آزادکشمیر کی ایک رپورٹ کے مطابق آزادکشمیر کے تقریباً 90 فیصد گھرانوں کے پاس ایک یا دو ایکڑ سے زیادہ زمین نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہےکہ جنگلات کا زیادہ تر رقبہ دولتمند افراد ، بڑے زمینداروں ، با اثر افراد یا خود حکومتی طبقہ کے زیر ِ قبضہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ زیرِقبضہ ٹِمبر ( قیمتی عمارتی لکڑی) پر حکومت بلاشرکت غیرے مالک بن جاتی ہے۔ حکومتی طبقے میں سیاسی طور پر مضبوط خاندانوں کا حصہ زیادہ ہے۔گزشتہ دس سال کے اخبارات اٹھا کر دیکھیں تو مقامی صحافی تسلسل کے ساتھ جنگلات کے غیر قانونی کٹاؤ ، ترسیل اور اسمگلنگ کے حوالے سے رپورٹنگ کرتے رہے ہیں۔
آزاد کشمیر کے جنگلات سے حاصل ہونے والی لکڑی زیادہ تر عمارتی مقاصد اور فرنیچر کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے۔ چونکہ ان دونوں مقاصد کے لیے آزاد کشمیر کی اپنی ضروریات نسبتاً کم ہیں ، لہٰذا یہ لکڑی پاکستان کے دیگر علاقوں میں غیر قانونی طریقوں سے اسمگل کی جاتی ہے۔ جنگلات پر محیط رقبے کے انحطاط سے سب سے زیادہ نقصان علاقے کے قدرتی ماحول پر پڑا ہے۔ جس کی وجہ سے زمینی اور فضائی آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جبکہ عوامی اور ادارہ جاتی سطح پر اس کی سنجیدگی کا ادراک نہیں کیا جا رہا۔
مقامی صحافی کاشف میر کی ایک رپورٹ کے مطابق آزاد جموں و کشمیر میں جنگلات کے تحفظ اور جنگلی حیات کے تحفظ پر ’بلین سونامی ٹری پروگرام‘ اور ’گرین پاکستان‘ پروگرام کے تحت 25 ارب روپے سے زائد خرچ کیے گئے۔تاہم، جنگلات کے تحفظ کے بارے میں زمینی حقائق ماحولیاتی سرمایہ کاری پر حکومت کے دعوے سے مماثل نہیں ہیں۔خطے میں بڑے ماحولیاتی مسائل کا تعلق انسانی سرگرمیوں سے ہے۔ ایسی ہی تباہ کن سرگرمیوں کی وجہ سے پوری دنیا میں خطرناک موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ارد گرد کا درجہ حرارت ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ پچھلے 100 سالوں میں اس درجہ حرارت میں اوسطاً ایک ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے۔جنگلات کے رقبہ میں کمی کے علاوہ فاسل ایندھن کا استعمال جو آزادکشمیر کےنسبتاً خوشحال گھروں میں تیزی سے مقبول ہو رہا ہے ماحول کو آلودہ کرنے والے چند بڑے اسباب میں سے ایک ہے۔ فاسل ایندھن سے مراد ایسا ایندھن ہے جسے کسی بھی شکل یعنی ٹھوس، مائع اور گیس کے طور پر جب جلایا جائے تو اس سے پیدا ہونے والی آگ کیمیائی عمل کے نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس پیدا کرے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج فاسل ایندھن کے جلانے کے علاوہ سیمنٹ وغیرہ کی تیاری سے بھی ہوتا ہے۔
ماہرین کے خیال میں آزاد کشمیر میں گزشتہ دس سالوں میں لگائے گئے درختوں کی کئ اقسام مقامی قدرتی ماحول سے متصادم ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے ترقیاتی منصوبے، پن بجلی کے منصوبے اور منصوبہ بندی کے بغیر ہونے والی تعمیراتی سرگرمیاں آبی و قدرتی وسائل اور جنگلات کو متاثر کر رہی ہیں۔ اس ضمن میں ٹاؤن پلاننگ کے ماہرین اور سائنسدانوں کا خیال ہے کہ حالیہ چند برسوں میں آزاد کشمیر میں عجیب و غریب تعمیرات کا بڑھتا ہوا رجحان دیکھا گیا ہے جو ماحول کے لیے غیر دوستانہ ہے۔خاص طور پر زلزلے کی فالٹ لائنوں پر شہری آبادیو ں کی تعمیر میں خطرناک اضافہ ہوا ہے۔
اسی طرح آزادکشمیر کے بالائی اضلاع میں خاص طور پر اور دیگر اضلاع میں عموماً جنگلات کی کٹائی سائنسی اصولوں پر مبنی نہیں ہے اور اس بے تحاشا اور ظالمانہ کٹائی سے جنگلات اور جنگلی حیات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

آبادی کے مراکز کے قریب جنگلات کا رقبہ سکڑتا جا رہا ہے کیونکہ انسانی آبادی تیزی سے ایندھن اور تعمیرات کے لیے جنگلات کا استعمال کرتی ہے۔ جنگلات کو بچانے کے لیے لوگوں کو ماحولیاتی اور قدرتی اثاثوں کی ملکیت اپنی قیمتی اشیاء کے طور پر لینے کی ضرورت ہے۔ کیا کوئی ایسا ہے جو حکومت اور سرکاری اداروں کو یہ بتا سکے کہ متعلقہ قوانین جنگلی حیات اور جنگلات کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کو نظر انداز کرنا ماحولیاتی تحفظ سے متعلق عالمی کنونشنز کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔

مظہراقبال مظہر

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content