صریرِخامہ : ظہیر احمد مغل
انسانی جذبات اور مافی الضمیر کے بیان کے لیے شاعری ایک مشہور اور پرکشش صنف ادب ہے۔ اصناف نظم میں اس کی ہیئت اور تکنیکی خصوصیات کے پیش نظر بہت سی اقسام ہیں۔ اردو زبان کی یہ خصوصیت ہے کہ اس نے دیگر زبانوں کی اصناف ادب کو بھی اپنے دامن میں بڑی فراخ دلی سے سمویا ہے جن میں زیادہ تر فارسی اور عربی سے آئی ہیں۔
اُردو شاعری میں آنے والی ان اصناف میں سے نئی صنف ہائیکو ہے جومقبول جاپانی صنف سخن ہے۔ جاپان میں ہائیکو کا بانی باشو کو قرار دیا جاتا ہے جس نے سب سے پہلے ہائیکو کا استعمال کیا۔
ہائیکو بھی باقی اصناف سے ہیئت اور تکنیکی خصوصیات کی وجہ سے الگ اور منفرد ہے۔ ہائیکو کی اصل خصوصیت اس کا اختصار ہے۔ سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ شاعری ویسے بھی سمندر کو کوزے میں بند کرنا ہی ہے لیکن ہائیکو میں اپنی بات بیان کرنا باقی اصناف شعری سے زیادہ مشکل ہے۔
ہائیکو کی اصل خصوصیت اس کا اختصار اور اس کی خاص ہیئت ہے جس میں ٥۔٧۔٥ کی ترتیب سے صوتی اجزاء لائے جاتے ہیں۔ پروفیسر رحمت یوسف زئی نے اپنے کالم ”ہائیکو اور اردو شاعری ” میں لکھا ہے کہ :
”جاپان کی ابتدائی شاعری میں رینگا یا تنکا ایک مشہور و مقبول صنف سخن تھی۔ جس کے آثار آٹھویں صدی سے نظر آئے ہیں۔ یہ صنف آج بھی مقبول ہے لیکن قدیم دور میں یہ جاپانی شاعری کا طرۂ امتیاز تھی اس نظم میں ٣١صوتی اجزا ہوئے تھے اور٥۔٧۔٥۔٧۔٧کی ترتیب میں پانچ مصرعے کہے جاتے تھے یعنی پہلے مصرعے میں پانچ اجزا، دوسرے میں سات، تیسرے میں پانچ اور آخری دو مصرعوں میں سات سات صوتی اجزا ہوئے تھے۔
سترھویں صدی کی شاعری میں مزید اختصار سے کام لیا گیا۔ صرف تین مصرعوں میں سب کچھ کہہ دینے کے جذبے نے ہائی کائی یا ہائیکو کو جنم دیا۔ جس میں صرف سترہ صوتی اجزا ٥۔٧۔٧ کے تناسب سے استعمال ہوتے تھے۔ مشہور جاپانی شاعر” باشو” نے اس صنف کو اپنی شاعری میں پہلی مرتبہ اختیار کیا اور یوں ہائی کو وجود میں آئے۔
ہائیکو اصل میں ہوکو (Hukku) کی بدلی ہوئی شکل ہے جس کا مطلب جاپانی نظم کا ابتدائی حصہ ہے چنانچہ جاپانی شاعری کی دوسری اصناف جیسے رینگا(Renga)یا تنکا (Tanka)کے ابتدائی تین مصرعے ہوکو کہلاتے تھے اور ان میں بھی وہی پانچ صوتی اجزا کی ترتیب موجود ہوتی تھی، بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے پاس غزل کے پہلے دو مصرعے جو ہم قافیہ وہم ردیف ہوں مطلع کہلاتے ہیں۔ جاپانی شاعری میں جب ہوکو یا نظم کے مطلع کو علیحدہ نظم کی شکل دی گئی تو اسے ہائی کائی اور پھر ہائیکو کہا جانے لگا۔”
پاکستان میں ہائیکوشاعری کا مجموعہ ڈاکٹر محمد امین نے 1981 ء میں شائع کیا۔ خاور چوہدری کے مجموعہ ہائیکو/ماہیا ”ٹھنڈا سورج” پر محسن بھوپالی نے اپنے مضمون” ہائیکونگاری کے تسلسل میں ٹھنڈاسورج” میں ڈاکٹر محمد امین کے ہائیکو ز کے متعلق لکھا ہے کہ : ”ان کے ہائیکوکے تینوں مصرعے مساوی الاوزان ہیں اس لئے یہ ہائیکوکی بنیادی شرط یعنی ہیئت کی پابندی پرپورے نہیں اترتے چنانچہ انہیں مختصرنظمیں ہی شمارکیاجاناچاہئے۔”
ہائیکو کی ہیئت کل ١٧ صوتی اجزا ہیں جن کی ترتیب پہلے اور تیسرے مصرع میں ٥،٥ صوتی اجزاء جب کہ دوسرے (درمیانی) مصرع میں ٧ صوتی اجزا ہونے لازمی ہیں۔ مثلا ً
فعلن فعلن فع
فعلن فعلن فعلن فع
فعلن فعلن فع
آزادکشمیر میں بھی اس صنف سخن میں بہت سے شعرا نے طبع آزمائی کی۔آزادکشمیر کے پختہ کار اور کہنہ مشق شاعر مشاق شاد اردو میں درآمد اصناف سے خوش نہیں تھے۔
رسالہ ”ابلاغ” اکتوبر ١٩٩٨ء مشتاق شاد نمبر تھا جس میں سیدہ حنا کا مضمون ”مشتاق شاد کے تحقیقی مضامین” شائع ہوا۔ اس مضمون میں سیدہ حنا نے مشتاق شاد کے ایک مضمون ”آخر ہائیکو ہی کیوں” کا ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشتاق شاد دیگر زبانوں کی اصناف کو اپنانے پر خوش نہیں تھے۔
مشتاق شاد نے لوک اصناف سخن متعارف کروائیں جن میں ڈھولنے، چھلے، دوہے ، دواعیے شامل ہیں۔ مشتاق شاد نے ڈھلنوں کے الگ اوزان بھی مقرر کئے تھے۔ مشتاق شاد کے متعلق میرا مضمون ”کشمیر کا بیٹا ہوں مرا نام ہے کشمیر” شائع ہو چکا ہے۔ ایک تحریر میں مشتاق شاد کے چالیس شعری مجموعوں کا ذکر ملتا ہے جو شائع نہ ہو سکے ، ڈاکٹر افتخار مغل نے اپنے مقالے میں بھی مشتاق شاد کی تخلیقات کا تفصیلی ذکر کیا ہے جس میں لوگ گیتوں کے موضوعی تراجم کا ذکر بھی ہے۔
آزادکشمیر کے ہائیکو نگاروں میں ایم یامین، اسلم راجا، ڈاکٹر افتخار مغل، عارف کمپلوی، سیدہ آمنہ بہار رونا، فیضان مرزا، شاہدبہار، توصیف خواجا، نثار ہمدانی،محمد افضل صابری، مظہر جاوید حسن، فرزانہ فرح شامل ہیں۔
ڈاکٹر افتخار مغل نے تحقیقی مقالہ ”آزادکشمیر میں اردو شاعری” لکھا جو اپریل ٢٠٢٠ء میں پروفیسر فرہاد احمد فگار نے مرتب کر کے شائع کیا ہے، اس میں ڈاکٹر افتخار مغل نے لکھا ہے کہ آزادکشمیر میں ہائیکو نگاری کا آغاز ایم یامین سے ہوتا ہے۔ یہ مقالہ انہوں نے ١٩٩٧ میں مکمل کیا تھا۔
درج بالا ہائیکو نگاروں کے نام بھی اسی مقالہ سے لئے گئے ہیں۔ آزادکشمیر کے ابتدائی ہائیکو نگاروں میں اسلم راجا کا شمار بھی ہوتا ہے۔ اسلم راجانے محسن بھوپالی سے متاثر ہو کر ہائیکو لکھنے شروع کئے۔ محسن بھوپالی سے آپ کی ملاقاتیں تو تھیں ہی، خط کتابت بھی ہوتی رہی۔
اسلم راجا کے ایک خط کے جواب(١٥ دسمبر ١٩٨٩ئ) میں محسن بھوپالی نے لکھا:
”مجھے اس رات بھی (مظفرآباد ریڈیوکے مشاعرے میں ) آپ کے جذبے اور ذوقِ شعری نے متاثر کیا تھا اور اس خط نے بھی۔۔۔ شعری تخلیق جس لگن اور خلوص کی متقاضی ہوتی ہے،وہ آپ میں موجود ہیں۔ اللہ مزید ترقی دے۔ہائیکو نظم اپنی ہیئت اور مزاج کی وجہ سے ہی ماہیا، مثلث اور مختصر نظم سے ممیز و ممتاز ہے اور اس کی طے شدہ ہیئت 5-7-5کے Syllableپر مشتمل تین مصرعوں ہی سے بنتی ہے۔
جس طرح ہر چار مصرعوں کی نظم کو ہم رباعی نہیں کہہ سکتے اسی طرح کوئی تین مصرعوں کی نظم ہائیکو نہیں ہو سکتی۔ رہ گئی بات ردیف قافیے کی تو جس طرح آزاد نظم کی لائنوں (مصرعوں) میں بعض اوقات ردیف قافیے بھی آجاتے ہیں بلکہ مطلع کی صورت میں بعض مصرعے تخلیق ہو جاتے ہیں اسی طرح ہائیکو میں پہلا اور تیسرا مصرع ہم قافیہ ہو تو Rydamاور آہنگ زیادہ موثر ہو جاتا ہے۔
لیکن یہ لازمی نہیں کہ قافیوں کی پابندی کی جائے۔ ہیئت کی پابندی بہر حال ضروری ہے۔ ہائیکو (آپ کے) دلچسپی سے پڑھے سبھی اچھے تھے۔ فنی پابندیوں کے ساتھ کہے گئے ہیں اور صوتی حسن بھی برقرار ہے۔”
اسلم راجا کی پہلی کتاب ”کونپل کا بدن” ١٩٨٤ء میں شائع ہوئی۔ اسلم راجا کو عروض پر بہت دسترس تھی ۔ آپ طلوع ادب آزادکشمیر کے سرپرست اعلی رہے ہیں اور طلوع ادب کا ادبی مجلہ آپ ہی کی زیر سرپرستی شائع ہوتا رہا۔پروفیسر شفیق راجا (صدر طلوع ادب) اور کیٹپن (ر) الطاف عاطف آپ کے ہم جماعت رہے ہیں اور تینوں پختہ شاعر۔ اسلم راجا کا پورانام راجہ محمد اسلم خان ہے ۔
آپ ١٣، اکتوبر ١٩٤٨ء میں ضلع باغ آزادکشمیر کے گائوں کفل گڑھ میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد کا نام منشی گلزار خان تھا۔ ١٩٦٩ء میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کر کے آپ کراچی چلے گئے جہاں سے قانون کی ڈگری ١٩٧٤ء میں حاصل کی اوراس کے بعد ٹیکسٹائل کا ڈپلومہ حاصل کیااور اسی شعبہ میں جرمنی چلے گئے۔ جرمنی سے واپس باغ آ کر کچھ عرصہ وکالت کی اور پھر سعودی عرب چلے گئے۔
آپ لندن اور چائینہ بھی رہے۔ ٢٠٠٥ میں آپ آبائی وطن واپس آئے۔٢٠١٣ء میںآپ کی دوسری کتاب ”تاریخ نارمہ راجپوت” شائع ہوئی۔ ٢٠١٧ء میں آپ نے اپنی پہلی کتاب ”کونپل کا بدن” ترمیم و اضافے کے ساتھ مرتب کر کے کشمیر کلچرل اکیڈمی مظفرآباد اشاعت کے لیے بھیجی ، جو تاحال شائع نہ ہوسکی۔اس کے علاوہ ایک سفرنامہ ”جرمنی میں چار سال” بھی ترتیب دیا جو ابھی تک اشاعت کا منتظر ہے۔
ہائیکو کے متعلق اپنی کتاب ”کونپل کا بدن” (اشاعت دوم) کی تقدیم میں اسلم راجا لکھتے ہیں ” ہائیکو جاپانی صنف ہے۔ جب میں کراچی میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہا تھا تو جاپان کا کونسلیٹ جنرل پاکستانی شعراء کو اردو میں ہائیکو سنایا کرتا تھا۔ بعض شاعروں اور ناقدوں نے ہائیکوپر مضامین لکھے۔ نیاز فتح پوری اور محسن بھوپالی نے ہائیکوز کا تعارف کرایا۔ میں نے بھی ہائیکو لکھنے شروع کر دئیے۔”
اسلم راجا نے” کونپل کا بدن” کتاب میں نظموں ، غزلوں ، ہائیکو کے علاوہ ہنگری کے انقلابی شاعر سینڈور پتوفی کی نظموں کا اردو ترجمہ بھی شامل کیا ہے۔ اسلم راجا نے نیا شعری مجموعہ ”آب ریزے” کے نام سے ترتیب دے دیا تھا جو شائع نہ ہو سکا۔” آب ریزے ”میں آپ نے ”ماہل کا پانی” کے عنوان سے ایک” ہائیکوئم ”شامل کی ہے جو نئی صنف ہے اس میں انہوں نے ایک ہی موضوع پر مختلف ہائیکونظم کے بندوں کی صورت میں پیش کئے ہیں ۔
یہ صنف اسلم راجا کی تصنیف ہے کیوں کہ ہائیکو ایک ہی موضوع پر ہوتا ہے اور صرف تین مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ماہل کا پانی ہائیکوئم ملاحظہ فرمائیں:
ماہل کا پانی(ہائیکوئم )
بہتا ہی جائے
چال ہے اس کی مستانی
کچھ کہتا ہی جائے
اس کی ڈابوں میں
بیت گئی میری جوانی
اس کے سرابوں میں
اس کے میٹھے بول
گائے کوئی پریم دیوانی
آنسوئوں میں گھول
کھیت کناروں تک
سبزے کی فضا سہانی
اس کے دھاروں تک
نیلی ڈابوں میں
سوئی ہوئی اس کی روانی
جیسے ہو خوابوں میں
کیسے ملا شعور
اس پانی کو جاودانی
منزل جس کی دُور
خود کو کھو کر بھی
چھوڑ گیا نام نشانی
دریا ہو کر بھی
اسلم راجا نے جو ہائیکو کہے ہیں وہ ہائیکو کی فنی پابندیوں پر پورا اترتے ہیں ۔ ہائیکو کا اصل حسن اختصار اور ہیئت ہی ہے اور اسلم راجا کے ہاں یہ پورے اہتمام کے ساتھ ملتے ہیں۔ اسلم راجا چوں کہ عروض پر دسترس رکھتے تھے اس لیے انہوں نے ہائیکو کی ہیئت کو بروئے کار لاتے ہوئے ہائیکوز کہے ہیں۔ اکثر ہائیکو اور ثلاثی کے فرق سے ناآشنا ہیں اور ثلاثی کو ہائیکو سمجھتے ہیں ۔ثلاثی کی ابتدا حمایت علی شاعر سے ہوتی ہے جن کے ثلاثی پہلی دفعہ رسالہ ”فنون” شمارہ جولائی ١٩٦٣ء میں شائع ہوئے تھے۔ ثلاثی اور ہائیکو بظاہر ایک ہی ہیئت میں ہیں دونوں تین مصرعوں پر مشتمل ہیں لیکن ثلاثی اور ہائیکو میں صوتی اجزاء کی ترتیب کا بڑا فرق ہے۔ایک تو ثلاثی کے تینوں مصرعے ہم وزن ہوتے ہیں اور دوسرا ثلاثی کا پہلا اور تیسرا مصرع ہم قافیہ بھی ہوتا ہے جب کہ ہائیکو کے تینوں مصرعے ہم وزن نہیں ہوتے بلکہ صوتی اجزاء کی خاص ترتیب(٥۔٧۔٥) سے ہوتے ہیں۔ ہائیکو میں پہلے اور تیسرے مصرع کے ہم قافیہ ہونے کی بھی کوئی پابندی نہیں ہے۔
اسلم راجا نے قادرالکلامی سے ہائیکوز کو نبھایا ہے ۔ ان کے ہائیکومیں مکمل آہنگ اور روانی موجود ہے۔ ان کے ہائیکو میں محبت ، فطرت کا حسن اور انسانی کیفیات کا عکس ملتا ہے۔ ہائیکو کا تیسرا مصرع ایک پنچ لائن ہوتی ہے اور یہ تیسری لائن پہلی دو لائنوں میں نہ صرف ہم آہنگی پیدا کرتی ہے بلکہ خیال میں نئی جہت پیدا کرتی ہے۔ اس اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو اسلم راجا کے ہائیکومروجہ معیار پر پورے اترتے ہیں۔ اسلم راجا نے ہائیکو کے اوزان اور ارکان کا خصوصی طور پر خیال رکھا ہے۔
دل کے آنگن میں
تیری یا د کی گرمی سے
برف پگھلتی ہے
شبنم روتی ہے
جیسے کوئی درد کہانی
آنسو ہوتی ہے
صبح کی پہلی کرن
شبنم کی آنکھوں میں پڑی
گرنے لگے آنسو
میں ہی نہیں پاگل
تیرے میرے سنگ چلے
بھنورا اور بادل
بارش کی رم جھم
آنکھوں کی خاموشی میں
سپنے چھوڑ گئی
شبنم روتی ہے
چاہت کی دیواروں پر
کاجل بھیگ گیا
غم کی فضاؤں میں
آس کے پنچھی کو ہم نے
اڑتے دیکھا ہے
اردو شاعری میں جس طرح کشمیر کے حسن کے ساتھ ساتھ اس خطہ کے دکھ ، درد ، ظلم و ستم اور خطے کے پسماندہ طبقات کا تذکرہ ملتا ہے اسی طرح ہائیکو نگاری پر بھی کشمیر کی تحریک اور جملہ مسائل کا اثر موجود ہے۔ اسلم راجا وطن پرست شاعر تھے، انہیں اپنے وطن سے عشق تھا اور انہوں نے تحریک آزادی کشمیر میں اپنا قلمی جہاد جاری رکھا۔ اسی تناظر میں انہوں نے ہنگری کے انقلابی شاعر پتوفی کی انقلابی نظموں کا اردو ترجمہ بھی کیا جو ”کونپل کا بدن” میں عکس فن کے نام سے شامل کی تھیں۔ اسلم راجانے کشمیر کے تناظر میں بہت سے ہائیکوز کہے جو انہوں نے اپنے شعری مجموعہ ”آب ریزے” میں شامل کئے ہیں۔ان میں سے چند ایک نمونہ کے طور پر پیش خدمت ہیں۔
کشمیر کہانی
ہم کو سنانے آتا ہے
جہلم کا پانی
کہاں ہمارا گھر
کہاں ہماری خوشیاں ہیں
ہمیں نہیں کوئی ڈر
وادی کا ہر پیڑ
بھیگتے موسم کے دنوں میں
اکثر روتا ہے
دیکھو، سرحد پر
آگ اور خون کی سرخی میں
کونپل پھوٹتی ہے
میرا سجرا پیار
تڑپ رہا ہے میرے لئے
سرحد کے اس پار
جنگل جنگل پھول
بستی بستی ، آگ، دھواں
یہ کیا موسم ہے
جذبوں کی بھٹی میں
زنجیروں کے حلقوں کو
خون سے پگھلائیں
لہو کے چھینٹے ہیں
وادی میں جب پھول کھلے
ان کی جبینوں پر
شبنم پھیلتی جائے
آس کا سورج جب چمکے
میری آنکھوں میں
درد جگایا ہے
گیت جو تیرے غم کا تھا
خوشی سے گا یا ہے
غم کی فضائوں میں
آس کے پنچھی کو ہم نے
اڑتے دیکھا ہے
بیچ انگاروں کے
کھلے ہیں پھول تو کیا کہنے
ایسی بہاروں کے
دل اک بستی ہے
بے چہرہ انسانوں کی
میں ہوں صورت گر
دل کے آنگن میں
تیری یاد کی گر می سے
برف پگھلتی ہے
پانی بھاگتا ہے
دور کہیں نہ رہ جائے
اپنی منزل سے
اسلم راجا نے اپنی کتب ترتیب تو دیں مگر زندگی نے وفا نہ کی اور وہ ان کو شائع نہ کروا سکے۔اُردو ادب کے یہ کہنہ مشق شاعر ١٣ فروری ٢٠١٩ء کوراہی ملک عدم ہوئے ۔ دعا ہے اللہ پاک اسلم راجا کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی و ارفع مقام عطا فرمائے۔ (آمین)۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
You must be logged in to post a comment.