تحریر آمنہ قاسم

         لیو پولڈ ویس بیت المقدس پہنچتا ہے۔اس کے ماموں ڈوریان کا گھر بیت المقدس کے قدیم شہر کے اندر واقع ہے۔تقریبا روزانہ بارش ہوتی ہے اس لیےگھر سے باہر نکلنے کا موقع اسے کم ہی ملتا ہے۔یہ اکثر کھڑکی کے پاس بیٹھ کر باہر کے کا نظارہ کرتا ہے۔اس کھڑکی سے اسے گھر کی پشت کی طرف ایک صحن نظر آتا ہے جو اس کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔
یہ صحن ایک بوڑھے عرب کی ملکیت ہے روزانہ پھل اور سبزیاں قریب کے دیہات سے اونٹوں کے ذریعے یہاں لائی جاتی ہیں اور پھر یہاں سے گدھوں کے ذریعہ شہر کے بازاروں اور تنگ گلیوں میں سپلائی کی جاتی ہیں۔یوں یہ جگہ ایک پڑاو بن گئی ہے جہاں رات کو قافلے ٹھہرتے ہیں اور ایک گہما گہمی رہتی ہے۔
لیو پولڈ ان کے طرز زندگی سے بہت متاثر ہوتا ہے یورپ کے برعکس یہاں سادگی، وقار اور سکون واطمینان اسے اپنی طرف کھینچتا ہے۔وہ لکھتا
ہے
“وہ دیکھنے میں فقراء تھے،پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس لیکن حقیقت میں آقاوں کی طرح زندگی گزارتے تھے،جب وہ کھانے کے لیے زمین پر بیٹھتے اور تھوڑے سے پنیر یا زیتون کے دانوں کے ساتھ روٹی  کھاتے تو میں یہ منظر دیکھ کر ان کی عالی ہمتی،شرافت،قوت برداشت اور ان کے اعتماد وسکون سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔”
       مگر جو چیز اسے سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے وہ بوڑھے عرب کی امامت میں نماز کی ادائیگی کا عمل ہے۔سب اس کو حاجی صاحب کہتے ہیں اور اس کا احترام ایسے کرتے ہیں جیسے وہ ان کا سردار ہے۔
حاجی صاحب کی امامت میں جب سب نماز ادا کر رہے ہوتے ہیں لیو پولڈ حیرت و استعجاب کے ساتھ دیکھتا رہتا ہے۔حاجی صاحب تھوڑی بہت انگریزی بھی بول لیتے ہیں اسلیے لیو پولڈ ایک دن ان سے پوچھ ہی لیتا ہے کہ اگر اللہ کو یاد ہی کرنا ہے تو یہ روحانی عمل تو تنہائی میں بغیر حرکات وسکنات کے بھی ہو سکتا ہے یہ سب کیا ہے؟
حاجی صاحب کا جواب سن کر اس پر راہ حق کی طرف جانے والا دروازہ کھلتا ہے وہ جواب کیا تھا؟
اسی کی زبانی سنیئے
   “حاجی صاحب مسکرائے اور کہنے لگے پھر آپ ہی بتائیے کہ کس طریقے پر ہم خدا کی عبادت کریں؟کیا اس نے روح اور جسم کو ایک ساتھ نہیں پیدا کیا؟اگر یہ بات ہے تو کیا یہ ضروری نہ ہوگا کہ آدمی جس طرح اپنی روح کے ساتھ نماز پڑھتا ہے اسی طرح اپنے جسم کے ساتھ بھی پڑھے،دیکھیئے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ہم مسلمان اس طرح سے نماز کیوں پڑھتے ہیں؟
ہم کعبہ کی طرف اس احساس کے ساتھ رخ کرتے ہیں کہ تمام دنیا کے مسلمان اسی طرف رخ کیے ہوئے ہیں اور یہ کہ مسلمان ایک جسم ہیں اور خدا ہی ہم سب کی فکر کا مرکز ومحور ہے،ہم سیدھے کھڑے ہو کر اس خیال سے قرآن کی تلاوت کرتے ہیں کہ یہ خدا کا کلام ہے جو اس نے انسان کو اس کی زندگی کی درستی اور کامیابی کے لیے دیا ہے،پھر ہم اللہ اکبر کہہ کر اس خیال کے ساتھ کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق
نہیں اسکے آگے جھک جاتے ہیں،اس لیے کہ ہم اس کو سب سے بلند وبالا سمجھتے ییں،ہم اس کی عزت و بلندی کی تسبیح کرتے ہیں۔
پھر ہم سجدے میں اپنی پیشانی زمین پر رکھ دیتے ہیں اس احساس کے ساتھ کہ ہم اس کے سامنے مٹی اور خاک کے برابر ہیں،بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں،اس نے ہم کو پیدا کیا ہے اور وہی ہمارا بلند وبرتر رب ہے،پھر پیشانی زمین سے اٹھا کر بیٹھ جاتے ہیں اس سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے گناہوں کو معاف کر دے اور ہم کو اپنی آغوش رحمت میں لے لے اور سیدھے راستے کی طرف ہماری راہنمائی کرے اور ہم کو صحت وعافیت اور سلامتی عطا کرے،پھر ہم دوبارہ سجدے میں گر جاتے ہیں اور اس کی عزت و عظمت کے لیے اپنی پیشانی خاک آلود کرتے ہیں،پھر اٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جنھوں ہم کو اسلام کا پیغام پہنچایا،اپنی رحمت وبرکت نازل فرمائے جس طرح گزشتہ انبیاء پر اس نے نازل فرمائی،اور ہم سب کو اور جو لوگ سیدھے راستے پر ہیں ان کو بھی برکت دے اور دنیا وآخرت میں ہمیں بھلائی دے،آخر میں دائیں بائیں اپنا رخ موڑ کر دنیا کے تمام صالحین کو سلامتی و رحمت کی دعا بھیجتے ہیں خواہ وہ کہیں ہوں اور کسی حالت میں ہوں۔
اسی طرح ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تھے،ہر زمانہ کے لیے انھوں نے اپنے پیرووں کو یہی طریقہ بتایا ہے،تاکہ وہ اس کے ذریعہ مکمل سپردگی کا نمونہ بن جائیں،جو اسلام کا مفہوم ہے،اور خدا کی طرف سے اور اپنے انجام ومستقبل کی طرف سے اطمینان اور سکون حاصل کر سکیں۔”

     لیوپولڈ کہتا ہے کہ یہی مفہوم تھا حاجی صاحب کی گفتگو کا جو انھوں نے اس کے سوال کے جواب میں کی تھی وہ لکھتا ہے

“اس واقعہ پر چند سال گزرنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ حاجی کی اسی گفتگو نے میرے لیے اسلام قبول کرنے کا پہلا دروازہ کھولا تھا،لیکن اس وقت جب میں یہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ اسلام میرا دین بن سکتا ہے، میں اپنے اندر ایک غیر معمولی کشش اور جھکاو محسوس کرتا تھاجب میں کسی کو ننگے پیر اپنے مصلے یا چٹائی پر یا زمین پر محو نماز پاتا تھا،ہاتھ باندھے ہوئے،سر جھکائے ہوئے،اپنے کام میں بالکل مستغرق،اپنے ماحول سے بالکل بےنیاز،مسجد میں یا پلیٹ فارم پر یا کسی آباد وپرشور سڑک پر،ہر جگہ وہ ایک مطمئن انسان معلوم ہوتا۔”

     میں سوچ رہی ہوں کہ لیوپولڈ نے اسلام قبول کیا اور محمد اسد بنا
جی ہاں وہی محمد اسد جو اقوام متحدہ میں پاکستان کا پہلا سفیر بھی رہا، مسلمانوں کے کن اعمال نے اسے متاثر کیا؟
کیا ہم احساس فخر کے ساتھ اپنے ان اعمال کو گلے لگانے کے لیے تیار ہیں جو ایک نوجوان یہودی صحافی کو اسلام کے قریب لانے کا باعث بنتے ہیں۔کہیں ہمارے یہ اعمال روح سے عاری تو نہیں ہوتے جا رہے؟
     اقبال نے کیا بات کر دی

تیرا امام بےحضور،تیری نماز بےسرور
ایسی نماز سے گزر ایسے امام سےگزر


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content