تحریر: تہذین طاہر
ہمارے ملک میں گورنمنٹ ہسپتالوں کا تصور کچھ اچھا نہیں ہے۔ جب بھی کہیں سرکاری ہسپتالوں کا ذکر آئے تو  ستر فیصد لوگ وہاں علاج کروانے سے بھاگتے نظر آتے ہیں ہاں البتہ پرائیوٹ کو ترجیح دینے کے بعد واپس سرکاری ہسپتال کا ہی رُخ کرتے ہیں۔پاکستان بلکہ لاہور جانے مانے گورنمنٹ ہسپتالوں سے بھراپڑا ہے۔دوسرے شہروں میں کسی مریض کی حالت زیادہ خراب ہو تو اسے لاہور کے گورنمنٹ ہسپتال میں ریفر کیا جاتا ہے۔ پنجابی میں ایک لائن بہت مشہور ہے”اینے نہیں بچنا ،اینو لور لے جاؤ”۔ بات مذاق کی ہو سکتی ہے لیکن دیکھا جائے تو بات کی گہرائی اپنی کامیابی کا ذکر خود کر رہی ہے۔
میرا گورنمنٹ ہسپتالوں سے واسطہ پڑتا رہا ہے لیکن بس چیک اپ کے لیے گئے اور پھر ٹریٹمنٹ کروا کر واپس آگئے ۔ لیکن حال ہی میں میرا لاہور کے ایک بڑے ہسپتال سے دنوں پر محیط واسطہ پڑا، اس کی مختصر سی روداد پیشِ خدمت ہے۔
میری والدہ محترمہ کو گرنے کی وجہ سے بازو کا فریکچر ہو گیا۔ طبعی امداد گھر پر دی لیکن فریکچر اس حد تک تھا کہ ان کا بازو لٹک گیا تھا، فوری جڑا کے پاس لے گئے جس نے اپنے طور پر کوشش کی کہ ہڈی جڑ جائے ، لیکن ہڈی میں فریکچر نہیں تھا بلکہ ہڈی ٹوٹ چکی تھی۔ اس نے اپنے طور پر جو ممکن تھا فوری ٹریٹمنٹ کیا اور کہا انہیں جلدی سے ہسپتال لے جائیں ممکن ہے ان کا آپریشن ہو۔ بات ڈرا دینے والی تھی، میں، بھائی اور والد محترم والدہ کو قریبی گورنمنٹ ہسپتال المعروف و مشہور ”میو ہسپتال“ ایمرجنسی لے گئے۔ ہسپتال کی ایمرجنسی کی صورتِ حال بہت عجیب سی ہے۔ نہ صرف اس کی بلکہ اس کے علاوہ دوسرے گورنمنٹ ہسپتالوں کی بھی۔ ایمرجنسی کا مطلب ایمرجنسی ۔ لیکن وہاں جس طرح نیچے کا عملہ کام کرتا ہے اسے دیکھ کر کسی حد تک افسوس ہوتا ہے۔ ٹریٹمنٹ سے پہلے ٹوکن لیں، پھرپرچی بنوائیں اور پھر ٹریٹمنٹ کے لیے متعلقہ جگہ رابطہ کریں۔ یعنی مریض کو تکلیف میں لیے لیے بس ریکوئرمنٹس پوری کرتے رہیں۔ ایک تو مریض کی تکلیف اور پھر ہسپتال کی بھاگ دوڑ انسان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔ ایسی صورتِ حال میں زیادہ تر لوگ گورنمنٹ ہسپتال کے قابل ڈاکٹرز کو چھوڑ کر پرائیوٹ کا رخ کرتے ہیں ارو پھر زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر واپس اسی تکلیف کو مزید اضافہ کے ساتھ لیے گورنمنٹ ہسپتال آتے ہیں۔یہاں ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں اچھا ٹریٹمنٹ چاہیے تو گورنمنٹ ہسپتال کا رُخ کریں لیکن صبر کے ساتھ۔ ہسپتال میں صبر کا پیمانہ لبریز بھی ہوجائے تو بھی برداشت اور صبر سے ہی کام لینا پڑتا ہے ورنہ صاف کہہ دیا جاتا ہے آپ اپنا مریض کہیں اور لے جائیں۔ یہ نااہلی اکثر نچلا طبقہ دکھاتا ہے جو عوام کے رشوت زدہ پیسوں پر وہاں موجود ہوتا ہے۔ یعنی آپ رشوت دیں تو آپ کا کام پہلے۔
خیر بات ہو رہی تھی ایمرجنسی کی۔پرچی بنوانے کے بعد متعلقہ ڈاکٹر نے سب سے پہلے ایکسرے کروانے کا کہا۔ ایمرجنسی میں ایک ایکسرے روم ہے جہاں سے ایکسرے شیٹ نہیں ملتی بلکہ ایکسرے کروانے کے آدھے گھنٹے بعد موبائل میں تصویر دی جاتی ہے۔ کمال ہے بھائی۔ یعنی جس کے پاس کیمرے والا موبائل نہیں ہے وہ بیچارا تو ….۔ یہ ہمارے ساتھ پریکٹیکل ہواہے۔ میرے اور بھائی کے پاس ٹچ موبائل تھا ۔میں اپنے موبائل میں والدہ محترمہ کاا یکسرے لیے متعلقہ کمرے میں گئی اور بھائی ان صاحب کے ساتھ جو لاہور سے باہر سے آئے تھے ان کا ایکسرے لیے ان کے ساتھ چلے گئے جن کے مریض کی حالت کافی غیر تھی۔ حیرت کی بات جانتے ہیں کیا ہے؟ ۔۔میں بتاتی ہوں ! ایمرجنسی میں صرف ایکسرے کروانے میں ہمیں کوئی  دو گھنٹے کا وقت لگا۔ جی ہاں! دو گھنٹے۔
ڈاکٹر کو ایکسرے دیکھانے کے بعد آپریشن کا ہی کہا گیا بھائی نے عرضی کی کہ پلاسٹر سے کام ہو جائے تو زیادہ بہتر ہے انہوں نے دو ہفتے کا پلاسٹر لگا کر ہمیں ڈسچارج کر دیا۔
پورے 2ہفتے بعد ہم او پی ڈی میں چیک اپ کے لیے گئے۔ ایکسرے باہر سے کروا گئے کہ ٹائم کی بچت ہو جائے گی۔ ہم پُر امید تھے کہ کسی حد تک فرق پڑ چکا ہوگا۔ لیکن اس وقت پاو ¿ں تلے سے زمین نکل گئی جب ڈاکٹر نے کہا اگر مزید لیٹ ہوا اور آپریشن نہ کیا گیا تو بازو ضائع ہو جائے گا۔ اس وقت والدہ کے ساتھ بس میں ہی ڈاکٹر کے سامنے موجود تھی۔ ضبط اورحوصلے کے ساتھ ڈاکٹر کی بات سنی آگے کی ریکوئرمنٹ پوچھی اور باہر آ گئی، والدہ محترمہ کو نہیں پتہ چلا کہ ڈاکٹر نے کیا کہا ہے۔ رنگ تو اڑچکا تھا جو باہر میرے باقی گھر والے کھڑے دیکھ چکے تھے۔ انہیں بس اتنا کہا آپریشن ہی ہو گا پیر کو آنا ہے ایڈمٹ ہونے۔ سب میری شکل دیکھ کر رہ گئے کہ کیا کہہ رہی ہے۔ تھوڑا غصہ بھی آیا کہ ہماری لاپرواہی کی وجہ سے بازو کی حالت خراب ہوئی ہے۔ پھر کہاوت یاد آئی”اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئی کھیت“۔لیکن زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی اس لیے فوری ٹریٹمنٹ کی کوشش شروع کر دی۔
کہتے ہیں کہ خدا کی مدد جب آنی ہو تو راستے خود ہی بنتے چلے جاتے ہیں۔ ہمارا اصل امتحان اب شروع ہوا تھا۔ 2دن کا وقت تھا پیر آنے میں، اور مجھے اچھے سے یاد ہے میں نے کوئی 10سے 15ہسپتالوں گورنمنٹ اور پرائیوٹ معلومات حاصل کر لی تھیں۔ کہیں پیسوں کا مسئلہ اور کہیں دور دراز کا۔ بہت کوشش کی یہاں تک کے ایک وقت آیا میں اکیلے میں بیٹھے رونے لگی کہ کیا ہوگا۔
وہی بات اللہ کی مدد آنے ہو تو وسیلے بن ہی جاتے ہیں۔اگر میں یہاں اس شخصیت کا ذکر نہ کروں تو شاید میرا یہ کالم اور رپورٹ کوئی اہمیت نہیں رکھے گی۔ نوائے وقت کے سابق اور روزنامہ پاکستان کے حالیہ کالم نگار فضل حسین اعوان جن کی ایک فون کال نے مجھ پر آسانیوں کے دروازے کھول دیے۔ میرے دل سے ڈھیروں دعائیں ان کے نکلتی ہیں۔جو ضرورت مندوں کی راہیں آسان بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
والدہ کی ساری حالت اور ہسپتال والوں کی ساری بات اعوان صاحب کے گوش گزار کی۔ میں نہیں جانتی تھی کہ میڈیکل میں بھی ان کے کوئی لنکس ہوں گے لیکن اللہ تعالیٰ شاید خود مدد کروانے چاہتے تھے تو وسیلہ بن گیا۔ کائیڈک کے سرجن ڈاکٹر کا نمبر سینڈ کیا اور ساتھ ہی میسج کیا یہ میو ہسپتال میں ہوتے ہیں آپ ان کی مدد لے سکتی ہیں۔ کچھ سکون ہوا کہ ہسپتال کی خواری سے بچ جائیں گے۔
کائیڈک سرجن ڈاکٹر عزیز اللہ نیازی صاحب جنہوںنے اپنی سی ہر ممکن مدد کی۔ میو ہسپتال سے کائیڈیالوجی شفٹ ہو جانے کے باوجود وہ ہماری مدد کے لیے میو ہسپتال آئے۔ ساری صورت حال انہیں فون پر بتا دی گئی تھی لہٰذا پیر کی صبح کا وقت ہی طے پایا۔
گورنمنٹ ہسپتال ہونے کی وجہ سے تھوڑا ڈر بھی تھا کہ ناجانے کیسے ٹریٹمنٹ کریں گے۔ کیونکہ جیسے کہ میں نے شروع میں بتایا کہ گورنمنٹ ہسپتال اور اس کے علاج کو کئی لوگ اچھا نہیں سمجھتے۔ اور ہمارے ساتھ یہ آپریشن والا معاملہ پہلی بار پیش آیا تھا۔ اس لیے ڈر زیادہ تھا۔ لیکن یہ ڈر بھی کسی حد تک نہ ہونے کے برابر ہوگیا جب اعوان صاحب نے ہی ایک روز فون پر کہا کہ میرے سامنے تین ہسپتال ہیں۔ تینوں میں میں آپ کی والدہ کا کیس ڈسکس کر چکا ہوں اور مجھ سے مشورہ مانگے گی تو میں آپ کومیو ہسپتال ہی ریفر کروں گا۔ اس لیے آپ اللہ کا نام لے کر علاج شروع کروائیں۔ یہ سننے کے بعددل کو کافی تسلی اور اطمینان ہوا۔
پیر کی صبح ایسے لگا جیسے ہم کسی محاذ پہ جا رہے ہیں ۔ڈرے سہمے گھر سے نکلے اور ہسپتال جیسی ہولناک جگہ کا رُخ کیا، جہاں کس وقت کیا ہو جائے کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ یہ کوئی صبح 9بجے کا وقت ہوگا۔ عزیز اللہ خان نیازی صاحب کو فون پر اپنی روانگی کا بتایا تو آپ نے آرتھو کے رجسٹرار ڈاکٹر کو ریفر بھی کر دیا گیا۔
اللہ کا نام لے کر ہسپتال پہنچے۔ والدہ محترمہ اور والد محترم کو ایک جگہ بٹھایا اور چھوٹی بہن کے ساتھ چلی ہسپتال کے دورے پر۔ میرا مطلب مطلوبہ وارڈ اور ڈاکٹر کی تلاش میں۔ صبح کا وقت تھا ڈاکٹرز کا راو ¿نڈ تھا، دروازے بند تھے سیڑھیوں میں کھڑے کوئی ایک گھنٹہ انتظار کرنا پڑا۔
پھر گارڈ نے ہم پہ ترس کھا کر پوچھا ”بی بی آپ نے کہاں جانا ہے؟“۔
”ڈاکٹر اسد سے ملنا ہے“۔
”ٹھیک ہے وہ سامنے ویٹنگ ایریا میں چلے جائیں “۔
شکر کیا کہ اندر جا کر بیٹھنے کا تو وقت ملا ،ڈاکٹر سے ملنا آسان ہو جائے گا اب۔ اندر جانے کی اجازت ملی تو والدہ اور والد کو بھی بلا لیا۔
اچھا ایک اور چیز۔ یہ آرتھو کی وارڈ ہے جہاں ہاتھ، پاو ¿ں، ٹانگیں، بازو کئی طرح کے جسمانی فریکچرز والے مریض ایڈمٹ ہیں ۔ وہاں کی لفٹ خراب اور یہ آرتھو پیڈک وارڈ تیسری منزل پہ ہے۔ مریض کے لیے وہیل چیئر اور سٹریچر کا انتظام ہے اور لواحقین کے لیے….( ساتھ والا بیڈ خالی ہے)۔ مریض کے ڈسچارج ہونے تک لواحقین خود گھٹنوں کے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں (مجھے ایسا لگتا ہے)۔
ویٹنگ ایریا میں انتظار کرتے 1گھنٹے ہونے کو تھا لیکن ڈاکٹر صاحب سے ملاقات نہیں ہو سکی تھی۔میری ڈاکٹر اسد سے یہ پہلی ملاقات تھی، تو ادھر ادھرآتے جاتے ڈاکٹرز میں میں ڈاکٹر اسد کو اپنے چھٹی حس کے ذریعے پہچاننے کی اپنی سی کوشش کرتی۔

تقریباً  ساڑھے گیارہ بجے ہمارا انتظار ختم ہوا ۔ اور ڈاکٹر اسد سے ملاقات ممکن ہوئی۔ والدہ محترمہ کے کیس کے حوالے سے ساری بات انہیں بتائی اور ڈاکٹر عزیز کا ریفرنس دیا تو ان میں بھی انسانی ہمدردی کی رمق نظر آنے لگی۔ انہیں اپنا مسیحا جان کر سب کچھ ان کے حوالے کر دیا کہ جو وہ کہیں گے ویسے ہی کر لیں گے۔ نہایت شفقت اور ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیں ایڈمٹ کروانے سے لے کر آپریشن کے بعد تک انہوں نے ہمارا بھرپور ساتھ دیا۔
ڈاکٹر عزیز اللہ نیازی نے ٹیسٹ اور فائل مکمل کروانے میں مدد کی۔ اور آرتھو پیڈک وارڈز کے رجسٹراڑ ڈاکٹر اسدعلی گھمن نے آپریشن ہونے تک اور اس کے بعد ٹانکے کھلنے تک ہمارا ساتھ دیا۔
ہسپتال میں کام کرنے والے عملے پر نظر ڈالیں تو صورتِ حال افسوس ناک ہے۔ بازو سے پکڑ کر کمروں سے باہر نکالنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی۔ آپ کتنی بھی اپنی پریشانی بتائیں لیکن ایسا لگتا ہے جیسے سامنے والے کو خدا نے سماعت دی ہی نہ ہو۔ ٹریٹمنٹ کے دوران سکون سے رہنا ہے تو وہاں صفائی کرنے والے عملے کو رشوت دینا آپ کا فرض ہے ۔جبکہ دیواروں پہ لگے رشوت کے حوالے سے مختلف پوسٹرز سے آپ کو کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ اگر وہاں  پچاس لوگ کام کرتے ہیں تو ہر بار ڈیوٹی چینج ہونے پر ان  پچاس لوگوں کو رشوت دینا پڑے گی۔ ورنہ آپ کا وہاں رہنا مشکل ہو جائے گا۔
ہسپتال میں میں نے غیروں کو اپنوں سے زیادہ ہمدرد پایا۔ ایک ہی جگہ پہ دو تین دن اکٹھے گزارنے والے لوگوں کا آپس میں عجیب اپنائیت والا رشتہ بن جاتا ہے۔ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہوا۔ وقتی ملاقاتیں بہت کچھ سکھا دیتی ہیں ۔ اور ان وقتی تعلقات سے انسان دنیا کے مزید رنگوں سے واقف ہوتا ہے۔
والدہ محترمہ کے آپریشن کی بات کی جائے تو وہ ایک پیچیدہ کیس تھا۔ سرجن ڈاکٹر احمد ہمایوں نے اپنے قابل ڈاکٹرز کی ٹیم کے ساتھ ان کا کامیاب آپریشن کیا۔ ڈاکٹر زکا نرم لہجہ اور رویہ ہمارے لیے حوصلہ مند ثابت ہوتا رہا۔ آپریشن کی پیچیدگیوں نے ہمیں وقتاً فوقتاً بہت ڈرایا۔ والدہ محترمہ کی طبیعت آپریشن تھیٹر میں جا کر بگڑ جاتی تھی۔جس کام کوایک ہفتہ لگنا تھا اسے تقریباً 15دن لگے۔ ان کی طبیعت کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر زپریشان ہوجاتے تھے ۔ اس دوران والدہ محترمہ کا بی پی اور شوگر دونوں آﺅٹ آف کنٹرول ہو گئے۔ جنہیں کنٹرول کرنے کے لیے ایمرجنسی ٹریٹمنٹ جاری کیا۔ اور اب بھی انہیں انسولین لگ رہی ہے۔ شاید یہ آپریشن کا خوف تھا جس نے انہیں بیمار کر دیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا شکرہے کہ آپریشن خیریت سے ہوگیا۔ ان کی بازو کو کلپ کی مدد سے جوڑا گیا ۔ وہ کلپ آپریشن کے تقریباً  پندرہ سے  اٹھارہ دنوں کے بعد نکالا جائے گا۔
انسانی ہمدردی کا زندہ ثبوت پیش کرتی ڈاکٹر ز کی ٹیم کوخراج عقیدت پیش کیا جائے توکم نہ ہوگا۔ آرتھو پیڈک کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر فیصل مسعود کی ٹیم جس طرح کام کر رہی ہے وہ قابلِ ذکر ہے۔ صبح صبح ڈاکٹرز کا پینل ہر مریض کے پاس جاتا ان کی خیریت دریافت کرتا اور ان کے کیس پر ڈسکس کرتا ہے۔


ڈاکٹر ز بھرپور تعاون کرتے ہیں ۔ بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی سے لے کر اٹھارہ گھنٹے کی ڈیوٹی کے دوران بھی ان کے ماتھے پر کبھی کوئی شکن نہیں آتا۔ نہ صرف وارڈ بلکہ ایمرجنسی میں بھی یہ ڈاکٹرز دیکھے گئے ہیں۔ اس وقت میں نے سوچا یہ آرام کب کرتے ہوں گے۔ تب مجھے خیال آیا جو اپنے کام کے ساتھ مخلص ہوں اور جن کے دل میں یہ بات گھر کر چکی ہو کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے پوری انسانیات کی جان بچائی، انہیں اپنے آرام و سکون سے کوئی لینا دینا نہیں رہتا۔ وہ بس راہِ خدا میں جہاد کے لیے ہر وقت کھڑے رہتے ہیں۔
ہسپتال میں گزرنے والے اچھے بُرے دنوں کے بعد میں صرف اس نتیجے پر پہنچی کہ انسانیت آج بھی زندہ ہے۔
شکریہ ان سب کا جو اس سفر میں ہمارے ساتھ تھے۔ فضل حسین اعوان جو وسیلہ بنے اور راہیں آسان ہوتی چلی گئیں۔ ڈاکٹر عزیزاللہ نیازی جنہوں نے گرمی اور دھوپ کی پرواہ کیے بغیر ہمارے ٹیسٹ اور رپورٹس مکمل کروائیں۔
ڈاکٹر اسد علی گھمن جنہوں نے آپریشن میں مدد کی ہمارا ساتھ دیا، جب بھی انہیں کال یا میسج کیا آپ کا فوری جواب آیا ، آپ کے رابطے سے ہماری دلی تسکین ہوتی رہی۔
سرجن ڈاکٹر احمد ہمایوں جنہوں نے آپریشن کیا اور سب سے بھر کرپروفیسر ڈاکٹر فیصل مسعود جن کی سرپرستی میں قابل ڈاکٹرز کی ٹیم اپنا کام بخوبی سرانجام دے رہی ہے۔
اس ایک مہینے میں میں نے دنیا کا ایک نیا رنگ و روپ دیکھا۔جس نے زندگی کی کتاب اور اس میں موجود اسباق میں اضافہ کر دیا۔ اس ایک مہینے میں میں نے دنیا کا ایک نیا رنگ و روپ دیکھا۔جس نے زندگی کی کتاب اور اس میں موجود اسباق میں اضافہ کر دیا۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content