معاشرہ اور معاشرتی تبدیلی ۔۔۔ سلسلسہ وار کالم 

شمس رحمان

بہر حال اب آئیے اس تناطر میں دیکھیں کہ  نئے ڈھانچے میں کیا بدلا اور اب  اس کی نوعیت کیا ہے؟    خارجی طور پر میرپور میں  بڑی   معاشرتی تبدیلیاں تین  بڑے عوامل سے  شروع ہوئیں:

بیرون وطن ہجرت میں  تیز رفتار اضافہ اور

سینتالیس سے بھارتی مقبوضہ علاقے سے ہجرت

میرپور سے برطانیہ ہجرت  اور منگلا ڈیم کے اثرات 

میرپور سے  بیرون وطن  ہجرت اور  منگلا ڈیم   کی تعمیر نے    میرپور  شہر  اور ضلع کے  معاشرتی ڈھانچے  پر گہرے  اور  دور رس  اثرات مرتب کیے۔ اگرچہ اس  نئے ڈھانچے میں بھی شہری اور دیہاتی زندگی کی شکلیں موجود رہیں لیکن  شہر اور گاؤں کے درمیان معاشی اور مادی رشتوں کا تانا کچھ  منگلا جھیل کے پانیوں میں بہہ گیا اور کچھ برطانیہ، امریکہ اور  مشرق وسطیٰ  تک پھیل گیا۔ پرانے میرپور شہر کے گرد چار سو گاؤں جو شہر سے جڑے ہوئے تھے منگلا جھیل میں غرق ہو گئے۔  جو بچ گئے وہ  نئے شہر سے بیسیوں میل دور  تھے جن کا شہر کے ساتھ رشتہ بدل گیا۔ اب   دیہاتی صبح شہر اپنی پیدا کی ہوئی اشیاء بیچنے اور شام کو  ان  سے  حاصل ہوئی رقم سے سودا سلف لینے نہیں آتے تھے۔ اب  پانی میں آ جانے والے گاؤں کے خاندان نئے میرپور میں جگہ لے کر یہیں بسنے لگے ۔  روپےپیسے والے سودا سلف لینے آتے، یا پھر ملازمین، محنت کش ،  طلباء اور پیشیاں بھگتنے والے۔ ان میں سے اکثر یہیں بسنے لگے۔ کچھ  اپنے مکانوں میں اور کچھ کرائے پر  اور طلباء ہوسٹلوں میں۔

پرانا میرپور اور اس کے ارد گرد  گاؤں والے  سبزیوں، پھل فروٹ ، آٹے دانے  ، کپڑے لتے ، جوتیوں اور مکانات کی تعمیر کے لیے درکار سامان    (لکڑی، پتھر ، اینٹیں ) وغیرہ میں خود کفیل تھے۔   شاید کچھ مصالحہ جات یا نمک ‘ پار’  مطلب دریائے جہلم کے پار پوٹھوہار اور   پنجاب  سے لاتے تھے۔ بدلے میں کھُوسے  اور کَھدر  ‘ پار’  جا کر بیچتے تھے۔  مطلب میرپور پاکستان میں پیدا ہونے والی اشیاء کی یک طرفہ منڈی نہیں تھا۔ کچھ چیزیں وہاں سے آتی تھیں اور کچھ یہاں سے جاتی تھیں۔

میں کال گڑھ میں  پیدا ہوا اور  ایف اے تک وئیں پرورش پائی۔ ہم یہی سُن کر جوان ہوئے کہ  نیا میرپور درحقیقت کالگڑھ میں بننا تھا ۔ اس کے لیے اینٹیں وغیرہ بھی  آ چکی تھیں ۔ بلکہ کچھ لوگ تو کہتے ہیں کہ ہائی سکول اور ڈسپنسری دراصل شہر کی عمارتوں کے طور پر بنی تھیں۔ لیکن قصبے کے کچھ لوگوں نے  اس کی  اس شدت  کے ساتھ مخالفت کی جس کی وجہ سے شہر ‘بلا گالے’ منتقل کر دیا گیا۔  تاہم بڑے ہو کر  کشمیر اور اپنے شہر میرپور  کے بارے میں جاننے کی تانگ   جاگنے کے بعد کشمیر پر جو کتاب ہاتھ لگتی پڑھنے کی کوشش کرتا۔   کشمیر پر زیادہ تر پڑھائی  1988 میں برطانیہ  بسنے  کے بعد کی کیونکہ کراچی میں تو کشمیر پر کچھ زیادہ کتابیں نہیں ملی تھیں۔  برطانیہ میں  یوسف صراف کی دو جلدوں پر  مشتمل ‘ کشمیریز فائیٹ فا فریڈم،’ ہاتھ لگی (غالباً یونس تریابی صاحب سے ) تو جیسے معلومات کے سمندر میں غوطہ زنی ہونے لگی۔  اس کتاب کو پڑھنا بہت مشکل تھا۔ کیونکہ  کراچی میں  خودمختاری  پر سیاسی ایمان  لانے کے بعد الحاق بارے کچھ پڑھا ہی نہیں جاتا تھا۔  مگر  1990 کی دہائی کے آخر تک  کچھ  مزید مارکسی لٹریچر پڑھنے اور    مانچسٹر یونیورسٹی میں ایم کے  دو سالوں کے  دوران مختلف الخیال  مصنفین، خاص طور سے عوامی تحریکوں اور مطالعہ کسان ( پیزنٹس سٹڈیز )    پڑھنے اور ان کا موازنہ کرنے کے تجربے سے گزرنے  کے بعد صرف  عقیدت کے ساتھ پڑھنے کی ذہنیت میں خاصی تبدیلی  پیدا  ہوئی۔ یوسف صراف صاحب کی کتاب اس ہی زمانے میں پڑھی۔ اکثر مختلف تاریخی  واقعات کے حوالوں  کے لیے۔ ایک دن پڑھتے پڑھتے  پڑھا کہ واقعی نیا میرپور کال گڑھ میں ہی بسانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ لیکن پھر بقول یوسف صراف انہوں نے  جو چند’ معززین ‘ کی ایک کمیٹی بنائی ہوئی تھی اس  نے  متعلقہ اداروں کو تجویز دی کہ شہر کو منگلا ہیڈ ورکس سے زیادہ دور نہیں بنایا جا نا چاہیے۔ لہذا شہر  کو بلا گالے منتقل کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا اور   بقول ان کے ، اکال گڑھ میں شہر کے حمایتی اور مخالف بینس اور جاٹ آپس میں لڑتے رہے۔

شہر کو منگلا ہیڈ ورکس کے نزدیک کیوں ہونا چاہیے ؟ اس بارے میں صراف صاحب نے کچھ نہیں لکھا۔   مختلف  شعبوں سے وابستہ سیانے لوگوں سے پوچھا کہ  شہر کے ہیڈ ورکس کے نزدیک ہونے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟   شہری انتظام و انصرام، دفاع یا  انجینئرنگ  کے حوالے سے کوئی معقول  جواز  سامنے نہ آیا۔

شہر کو گاؤں سے یوں  کاٹنے کی  مجھے  آج  دو بڑی ممکنہ   اور ایک دوسرے سے منسلک وجوہات  سمجھائی دیتی ہیں۔  ایک تو یہ کہ اگر میرپور شہر کالگڑھ میں بنتا تو میرپور شہر کی وہ اشرافیہ  جس کا  دیہات اور دیہات میں بسنے والے غالب  سماجی گروہوں  (برادریوں ) سے تعلق نہیں تھا  ان کے لیے   کالگڑھ میں بننے والے نئے میرپور  شہر  میں غلبہ حاصل کرنے کے امکانات بہت کم تھے۔  غیر میرپوری اشرافیہ کے لیے شہر کا دیہاتوں سے کٹا ہوا ہونا ضروری تھا۔ ورنہ جن حکمرانوں  نے منگلا ڈیم کے خلاف ایک بہت بڑی عوامی تحریک کو کچل دیا تھا وہ کال گڑھ کے  میجر (ر)  نیک عالم کی سرگرم حمایت کے مقابلے میں بابا جیون  کی طرف سے مخالفت کی وجہ سے شہر کو بلاہ گالا لے جانے کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جاتے؟   یہ ایک ایسا پہلو ہے جس پر کم از کم  گریجویٹ سطح کا تحقیقی مقالہ ( تھیسس)    لکھا جا سکتا ہے۔

اس ہی عرصے میں برطانیہ ہجرت میں بھی تیزی آگئی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ 1950 کے عشرے میں  دوسری جنگ سے تباہ شدہ برطانیہ  کی تعمیر کے لیے سستے مزدوروں کی ضرورت تھی۔ ایسے میں وہاں موجود  کشمیریوں نے ،جن کی تعداد  اب ہزاروں میں  پہنچ چکی تھی، اپنے اپنے رشتہ داروں اور جاننے والوں کو بلانے کی رفتار میں اضافہ کر دیا۔  پھر جب میرپور اور دنیا  میں انگریزوں کی دوسری نوآبادیوں سے مزدوروں کی بڑی تعداد  ولایت پہنچ آئی تو نسلی قوم پرستوں یعنی نسل  پرستوں نے شور مچا دیا کہ یہ  اتنے زیادہ کالے منظور نہیں ہیں۔ تب  برطانیہ سرکار نے آنے والوں کی تعداد کم کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں بحث کے بعد فیصلہ کیا کہ  1962 سے امیگریشن پر کچھ پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ ان پابندیوں سے پہلے پہلے زیادہ سے زیادہ دوستوں رشتہ داروں کو بلانے کی دوڑ کے نتیجے میں  میرپوریوں کی برطانیہ آمد میں تیز رفتار اضافہ ہوا۔  جب ڈیم کی تعمیر کی وجہ سے  میرپور شہر اور گردوپیش کے چار سو گاؤں سے ایک لاکھ لوگ   بے گھر ہو گئے تو ان میں سے بھی بہتوں نے برطانیہ جانے کا فیصلہ کیا۔ منگلا ڈیم کی تعمیر سے پرانا شہر اُجڑنے کے بعد  خاص طور سے میرپور شہر  والوں کی  برطانیہ ہجرت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ یہاں  یہ واضح کرنا پھر ضروری ہے کہ  منگلا ڈیم کا میرپور سے برطانیہ ہجرت  سے کوئی تعلق نہیں۔ برطانیہ ہجرتے 1900 میں شروع ہوئی تھی جبکہ ڈیم 1960 میں بننا شروع ہوا تھا۔1960 تک برطانیہ می میرپور سے ہزاروں  کشمیری برطانیہ میں آباد ہو چکے تھے۔

میرپوری سماج کی جو جڑ بنیاد برطانیہ ہجرت میں  اضافے اور برطانیہ سے پونڈ آنے شروع ہو جانے کے نتیجے میں تبدیل ہونا شروع ہوئی تھی اس کو ڈیم نے میرپور اور گرد و نواح  میں ایک دم سے  نگل لیا۔ اگر میرپور شہر نہ اجڑتا تو  ولائیتی پیسے سے یہاں  سرمایہ کاری کی شکلیں اور اقسام مختلف  ہونے کے قوی امکانات تھے۔ مکانات  و دوکانوں کی تعمیر تو ہوتی لیکن تجارت کے لیے  زراعت اور شہر  کے گرد کارخانے اور فیکٹریاں بھی لگتیں جن کے بیج اور ابتدائی کونپلیں شہر میں موجود تھیں  جیسے کھوسا، کھدر، لومز وغیرہ۔  گاؤں اور شہر کا رشتہ نہ صرف قائم رہتا بلکہ گاؤں میں اکثر گھرانوں  میں قوت خرید میں اضافے کی وجہ سے  شہر کے  وسعت اختیار کر کے عظیم الشان شہر بن جانے کے  واضح امکانات موجود تھے۔ شہر کے گردوپیش زرخیز زمینوں سے پیداوارجاری رہتی ۔ نچوڑ یہ کہ مقامی سرمایہ مقامی  طور پر پھلتا پھولتا وور پھیلتا۔ میرپور نری منڈی نہ بنتا۔

معاشرتی جڑ بنیاد   نے پاؤنڈز کے آنے سے بدلنا ہی تھا، لیکن اس پر  صدیوں سے  جاری سماجی  ادارے جیسے خاندان، برادریاں، رسوم و رواج ، اخلاقی رویے وغیرہ  بتدریج بدلتے ۔ لوگوں پر ان تبدیلیوں کے اثرات بتدریج ہوتے جس سے   نئے ماحول میں ڈھلنے کی  مشکلات  ان کے لیے ازیتیں نہ بنتیں۔ تسلسل قائم رہتا۔  اگلی نسل پچھلی نسل سے جڑی رہتی ۔ پیڑیوں / نسلوں کے درمیان فاصلے اتنے طویل نہ ہوتے اور ان سے والدین اور بچوں کے درمیان دوریاں اور دماغی کوفتیں اور دماغی امراض  اس قدر نہ ہوتے ۔ اس پہلو کو  ریاست خاص طور سے  جموں کے  میرپور ڈویژن میں پہاڑی ، گوجری اور ڈوگری  بیلٹ میں   تقسیم کی لکیر کے آر پار  بسنے والے لوگوں کی تقسیم کے بعد کی زندگیوں کے موازنے سے بہت بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ ایک انمول سماجی مطالعہ ہو سکتا ہے۔  لیکن نفرتوں کی اونچی اونچی دیواروں کے آر پا دیکھنا آسان نہیں ہوتا۔

بھارتی مقبوضہ علاقے سے ہجرت 

1947 میں  جس طرح   میرپور میں   ہندو اور سکھ ریاستی باشندوں کا  مقامی اور باہر سے آئے ہوئے حملہ آوروں کے ہاتھوں  قتل عام ہوا اور زندہ بچ جانے والے میرپور چھوڑ کر بھارت اور  ریاست جموں کشمیر کے بھارتی مقبوضہ علاقوں میں چلے گئے ،اسی طرح جموں میں  مقامی اور باہر سے آئے ہوئے  ہندوؤں اور سکھوں  کے ہاتھوں مسلمانوں کا بھی قتل عام ہوا ۔ زندہ بچ جانے والے  پاکستان اور پاکستانی زیر انتظام  علاقوں میں آن بسے۔ اس آر پار ہجرت کے بھی میرپور کے  معاشرتی ڈھانچے  پر وسیع اور دور رس اثرات مرتب ہوئے۔

میرپور سے غیر مسلم ریاستی باشندوں کے چلے جانے سے یہاں کا صدیوں پرانا کثیر المذہبی اور کثیر الثقافتی رنگ بھی ختم ہو گیا۔ معیشت  ، سیاست اور انتظامیہ پر مقامی مسلمان  اور پاکستانی حکمران طبقے کے نمائندے آ کر بیٹھ گئے۔ تاہم بھارتی قبضے  میں جانے والے علاقوں سے آنے والے ریاستی باشندوں کے آنے سے میرپوری سماج میں ایک نیا رنگ آ گیا۔   47 میں  اجڑنے والے خاندان   جو میرپور میں آئے،  ان کو اس نسبت  سے کبھی مہاجر بھی پکارتے اور لکھتے ہیں کہ وہ اپنے شہر، قصبے اور گاؤں سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ لیکن حقیقت میں ان کو یہاں اپنا ہی حصہ سمجھا گیا ۔ اس کی  ایک وجہ تو یہ تھی کہ ان علاقوں کا میرپور سے 47 کے رولے سے پہلے بھی تعلق تھا جو صدیوں پرانا تھا۔   انگریزی علاقے سے بیلوں اور گدھوں پر  نمک    لاد  کر راجوری ، مینڈھر  اور سری نگر تک جانا اور واپسی پر اخروٹ ، بادام اور  مختلف مصالحے لانے کی روایت میرپور میں بہت پرانی تھی جس کو مقامی زبان میں ‘ تھوڑ’ کہا جاتا تھا اور جو یہ کام کرتے تھے ان تھوڑی  پکارا جاتا تھا۔

یہاں مجھے بابائے گوجری رانا فضل حسین   راجوروی اور میری دادی صاحب نور کے درمیان ایک مختصر سا مکالمہ یاد آ رہا ہے جو اوپر  پیش کی گئی صورت حال کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔ باوا فضل جب  “چٹکا کمیٹی”  کی دعوت پر برطانیہ آئے تو وہ کچھ  دن اولڈہم میں  میرے گھر پر رکے۔ پہلے دن آئے تو میری دادی جو اس وقت ہمارے ساتھ رہتی تھیں نے مجھ سے پوچھا:

شمسا اے پہھائی اور کُہن نی۔

میں  آخیا : ” بے اے میرپوروں ہن “۔

بے پچھیا ۔ ” پچھے کُتھوں ہین”۔

”راجوری تھوں ”۔  میں آخیا

” رجی وی راجوری”۔ دادی نے  بابا جی فضل رانا کو یوں دیکھتے ہوئے کہا جیسے  میرپور اپنے گاؤں میں کھڑی راجوری کو دیکھ رہی ہوں۔  اور بابا فضل حسین جو نئی جگہ ، ان جان گھر میں کچھ جھجک سی محسوس کر رہے تھے ان کی آنکھوں میں ایک دم  سے شناسائی کی  چمک نظر آئی۔ جیسے  کمرے کی فضا ایک دم سے اجنبیت کی جگہ اپنائیت سے بھر گئی ہو۔ میں نے دادی سے پوچھا ۔

 ” بے  رجی وی راجوری کیاں آخنے سن راجوری کی؟  ”

” پُترا او اوخے دیہاڑے سن۔   وخے کجیے وی بہوں سن تے غریبی وی۔ کہیں واریں اساں نے پاسے بدل ویلے پر نہ لہہ تے فصلاں نھی سن ہونیاں۔  فیر لوک راجوری جانے سن دانا پھکا آننے واستے۔ آخنے سن راجوری وچ کدے دنے پھکے نی تھوڑ نھی ہونی۔ تاں ماریوں راجوری کی رجی وی راجوری آخنے سن۔ ”

مطلب میرپور  ڈویژن کے علاقے ایک دوسرے کے لیے اجنبی نہیں تھے۔ میرپور کے دیہاتوں کے ساتھ زبان اور کلچر کا بھی کوئی خاص فرق نہیں تھا۔  زیادہ تر لوگ گوجری اور پہاڑی ہی بولتے تھے اور پڑھے لکھے لوگ اردو لکھتے پڑھتے تھے۔ ایک صدی سے ایک  ہی ریاست  کے باشندے تھے ۔ اس لیے نہ ان کے لیے کوئی بہت بڑا  ” کلچرل شاک” یعنی ثقافتی  صدمہ تھا اور نہ یہاں بسنے والوں کے لیے وہ کوئی زیادہ اجنبی تھی۔ پھر سرکاری طور پر بھی ان کو سرکاری  زمینیں الاٹ  کی گئیں ۔ تعلیمی اداروں میں نشستوں اور سرکاری  ملازمتوں  میں بھی  کوٹا رکھا گیا ۔ انہوں نے خود بھی محنت کی اور وہ میرپور کی معیشت، سیاست، و ثقافت کا اہم حصہ بن گئے۔ کئی بتدریج  نئے تعلقات اور دوستیوں  ، واقفیوں کے ذریعے انگلینڈ بھی پہنچ  گئے۔

بہرحال مذکورہ       واقعات یعنی میرپور سے بیرون اور اندرون    ہجرت اور منگلا ڈیم  نے مقامی معاشرتی ڈھانچے کی بنیادوں  میں  دور رس تبدیلیوں کا  وہ  عمل شروع کیا جو مسلسل جاری ہے۔ آئیے پہلے معاشرے کی مادی  بنیادوں میں آنے والی تبدیلیوں کا مختصر سا جائزہ لے لیں ۔

زرائع پیداوار 

جیسا کہ اوپر بیان کیا  برطانیہ ہجرت کے ثمرات یعنی پونڈ واپس میرپور پہنچنے  سے پہلے تک ہزاروں سالوں سے  یہاں کے باسیوں کی روزی روٹی کا سب سے بڑا وسیلہ  ، زریعہ زمین تھی۔  پرانے میرپور کے غرق ہونے تک دیہات اور شہر میں بسنے والے  اپنی خوراک ، لباس اور رہائش سے متعلقہ  روزمرہ کی  ضروریات مقامی کاشتکاری ، اور دستکاری  سے پیدا  کر لیتے تھے۔ شہر کے ارد گرد    چنگاہاں  ( جھنگاں)   میں  سبزیوں کے باغوں سے مقامی ضروریات  پوری ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ کپاس کی فصل جو سارا سال  رہتی تھی ( غالباً تین بار کاشت کی جاتی تھی)   اس سے ٹبروں اور خاندانوں کے لباس کی ضروریات پوری ہو جاتی تھیں ۔ افراط مطلب اپنی ضروریات سے زیادہ  نہیں تھی  مگر اپنی ضروریات پوری ہو جاتی تھیں۔

 نیا  میرپور    ان تمام ضروریات کے لیے دینہ ، جہلم اور پاکستان کے دوسرے شہروں کا محتاج ہو گیا۔ پیداوار نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ البتہ پیسے کے نئے نئے ذرائع پیدا ہو گئے۔  پیسے  اور روزی روٹی کے دو سب سے بڑے ذریعے سامنے آئے۔ ایک تو ‘آزاد’ حکومت کا بجٹ ، جو پاکستان حکومت ‘ آزاد’  حکومت  کو گلگت بلتستان ، خارجہ ، دفاعی ، کرنسی ، آزاد خطوں   کے وسائل و اختیارات اور وفاداریاں  پاکستان کے حوالے  کے بدلے میں دیتی تھی۔ دیتی ہے۔  یہ بجٹ جتنا  جتنا بھی تھا سرکاری ملازمین ، وزیروں مشیروں ، ٹھیکیداروں ، پرمٹ داروں کی روزی کا زریعہ تھا۔

اس کے بعد  روزی کا دوسرا (اب   شاید پہلا) سب سے  بڑا زریعہ تارکین وطن کا پیسہ  ( ترسیلات زر)  بن گیا۔یہ پیسہ جس کو کمانے کے لیے پسینہ کہیں اور گرتا تھا اور جو  پسینے کے معاوضے میں سے قبائلی اور جاگیردارانہ  سماج میں اترے رشتوں کے تانے بانے کے حصے کے طور پر میرپور میں آنے لگا تھا۔

      اگر ہم پیداوار کو روزی روٹی کہیں تو اب روزی روٹی کیا تھی؟

    پیسہ / نقدی 

پیسہ / نقدی  جو اس سے پچھلے مرحلے یعنی  منگلا ڈیم کی تعمیر تک ایک نایاب چیز تھی۔ تب زمین سے پیدا ہونے والا اناج سب سے بڑی کرنسی تھی۔ سارا سال ہر طرح کی محنت اور سرگرمیاں اس اناج کو پیدا کرنے ،  اس کی تقسیم  اور اس تک رسائی حاصل کرنے لیے ہوتی تھیں۔  اب اناج کی جگہ نقدی  ، معاشی سرگرمیوں  کا سب سے بڑا ذریعہ،  اور زمین ایک  تجارتی شے  بن گئی ، جو دھڑا دھڑ بکنے لگی۔ اس سے پہلے زمین بیچنا انتہائی بُرا فعل سمجھا جاتا تھا۔ لیکن جب زمین  روزی کا  بڑا ذریعہ نہ رہی،  تو روزی کے نئے بڑے   ذریعے ‘پیسے’  نے زمین کی  مرکزی حیثیت  سے جڑی سوچ   کہ زمین بیچنا اچھا فعل نہیں ، بدل ڈالی۔ مادی بنیاد بدلی تو سوچ بھی بدل گئی۔

دیکھتے ہی دیکھتے زمین کا کاروبار   پھیل گیا۔  گاؤں والوں کی طرف سے گاؤں اور  شہر میں زمینیں خریدنے  کا رحجان پیدا ہوا جس  سے زمین کی قیمت بڑھی اور  ‘ پلاٹ صنعت’ کو فروغ ملا۔ اس صنعت نے  ترقیاتی اتھارٹی ( ایم ڈی اے) کو ملازمت کے لیے اتنا پرکشش بنا دیا کہ یہاں ملازمت لینے کے لیے لاکھوں دینا منافع کا سودا سمجھا جانے لگا کیونکہ کڑوروں کمانے کے مواقع تھے۔ اسی عہد سے ہی   مقامی اداروں میں رشوت کے نرخ تارکین وطن کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم کے ساتھ جڑ گئے۔ یوں اب زمین   سے بھی اناج کی جگہ پیسہ اُگنے لگا  اور  حکومتی بجٹ اور   تارکین وطن کا پیسہ مل کر  روزی کے سب سے بڑے ذریعے کی حیثیت اختیار  کرنے لگے ۔  پہلے مختلف سرکاری اداروں نے  رشوت کے  ذریعے اس تک رسائی حاصل کی اور پھر بتدریج نجی ادارے  اور  سیاستدان بھی اس دوڑ میں شامل ہو کر کاروبار اور اثرورسوخ کے ذریعے پیسہ بنانے لگے ۔

روزی کا  تیسرا بڑا ذریعہ  جو بتدریج پھیلا وہ تجارت ہے۔  اس میں بھی ظاہر ہے  کہ پیسے کو ہی مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ البتہ اس میں یہ اہم بات ہے کہ اس میں منافع کمایا جاتا ہے ۔ پاکستان کی منڈیوں سے مال سستی قیمت پر خرید کر میرپور  کی منڈیوں میں مہنگے داموں بیچا جاتا ہے۔ تاہم سرکاری ملازمتوں کی طرح تجارت  میں  گردش کرنے والے سرمائے میں بھی  تارکین وطن کا براہ راست اور بالواسطہ  بہت بڑا حصہ ہے۔ اکثر گاہک بھی تارکین وطن ہیں۔   تاہم یہ سب میں اندازے سے کہہ رہا ہوں ۔ ان کو سائنسی حقیقت بنانے کے لیے ان تمام شعبوں میں گردش کرنے والے سرمائے کی مالیت کا پتہ چلانے کی ضرورت ہے  لیکن میں یہ کام نہیں کر سکتا۔ کوئی کر دے تو بہت  بڑی نیکی ہو گی۔ مطلب تاریخی مادیت کے طالب علموں کے کرنے کا کام ہے ۔ یہ ان کے  لیے یہ ‘ ہوم ورک ‘ ہے۔

ان تمام شعبوں میں گردش کرنے والے سرمائے  سے  سیاستدانوں کے حصے میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا ہے۔ اب یہ عالم ہے کہ کچھ سیاستدان  آزاد کشمیر کے بجٹ، آزاد کشمیر حکومت میں اپنی حیثیت کی وجہ سے  کاروباروں ، ٹھیکوں اور تارکین وطن  رشتہ داروں، برادری ، دوستوں یا کاروباری سودوں سے اتنی رقم  حاصل کرتے ہیں کہ اربوں تک پاکستان میں اپنی سیاسی جماعتوں کے “مہاراجوں”   کو دے کر   مراعاتوں بھری کرسی  حاصل کرتے  اور اس پر تشریف قائم رکھتے ہیں۔

درحقیقت اب میرپور ( اور کافی حد تک آزاد کشمیر ) کی معیشت  بلکہ یوں کہنا مناسب ہو گا کہ منڈی برطانیہ اور دیگر ممالک میں تارکین وطن کے ذریعے   ‘ ماورا قومی’ یعنی ٹرانس نیشنل  حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ میرپور یا آزاد کشمیر تک محدود نہیں بلکہ مختلف ثقافتی، برادریائی، خاندانی اور سیاسی  رشتوں ناطوں کے ذریعے  ہر اس دیس تک پھیل چکی ہے جہاں میرپور ( آزاد کشمیر)  کے تارکین وطن بستے یا کام کرتے ہیں۔ دوسری طرف برطانیہ سے کئی کاروبار بھی مختلف شکلوں میں میرپور  سے جُڑ رہے ہیں ۔

تاہم صرف  معیشت اور منڈی ہی نہیں بلکہ اس پر جو معاشرہ پروان چڑھا ہے س کے تانے بانے بھی برطانیہ ، یورپ، مشرق وسطیٰ ، کنیڈا اور امریکہ تک پھیلے ہوئے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ   ہر  معاشی سرگرمی  سودے  یعنی بیوپار کے گرد گھومتی ہے۔  سکولوں  کالجوں یونیورسٹیوں میں داخلوں سے لے کر ملازمتیں حاصل کرنے ، تبادلہ کروانے رکوانے، ترقیاب ہونے  اور حتیٰ کی ریٹائرڈ ہونے اور پینشن تک میں کچھ نہ کچھ سودا بازی کا عنصر موجود رہتا ہے۔  تجارت کی چیزیں ( سودا)  پاکستان سے لاکر یہاں بیچا جاتا ہے۔ اس سودے  میں روزمرہ اور عام  استعمال کی  مادی اشیاء  کے ساتھ ساتھ  سیاسی اختیار و اثرورسوخ  اور ثقافتی اشیاء بھی شامل ہیں۔  سب کچھ شئے فرخت بن  رہا ہے۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact