صدام ساگر
نعت گوئی کا آغاز رسالت مآب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک ہی میں حضرت حسان بن ثابتؓ، کعب بن زبیرؓ اور عبداللہ بن رواحہؓ سے ہُوا، جنھوں نے عربی نعت میں اپنی والہانہ عقیدت اور عظمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی سلیقہ مندی کے ساتھ بیان کیا بعد میں سعدیؒ و جامیؒ اور رومیؒ جیسے شعرا نے فارسی زبان میں مدحت سرائی کے گلزار کھلائے ، اُردو ادب میں علامہ اقبالؒ اور محسن کارکورویؒ سمیت کئی شعرا نے اُردو نعت میں جو گل ہائے سخن کھلائے اُن کی مہک کو آج بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔
پروفیسر خالد بزمیؔ کا شمار بھی ایسے ہی خوش نصیب نعت گو شعرا میں ہوتا ہے، جو حقیقی طور پر عاشقِ رسولؐ تھے ان کی نعتیں عشق و مستی سے لبریز ہیں۔ عشقِ محمد ﷺ جیسی کیفیت سے سرشار ہونے پر ان کے ہاں بہت سے حمد و نعت، مناقب اور سلام کے پھول کھلتے دکھائی دیتے ہیں جن کی خوشبو ایک عالم کو تا دیر مہکائے رکھے گی۔ بہت سے شعراء کو انھی کی نعت سے نعت گوئی کی ترغیب حاصل ہوئی، ان کا کلام جذبات کی دلکش بنیادوں پر استوار ہے۔
یہ سب اللہ کا کرم اور لطف ہے بزمی
وگرنہ کب مجھے نعت پیغمبرکا سلیقہ ہے
پروفیسر خالد بزمیؔ ایک قادر الکلام شاعر، ادیب، محقق، نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک وسیع المطالعہ انسان تھے، وہ اپنے عہد کے پختہ گو شاعر اور علمِ عروض کے ماہر ہونے کے ساتھ ایک کامیاب معلم بھی تھے۔
انھوں نے اپنے علمی چراغ سے ہزاروں طالبانِ علم و ادب کی سوچوں کو منورکیا، انھوں نے ابتدائی تعلیم امرتسر بھات سے حاصل کی بعد میں تقسیم ہند کے وقت پاکستان کے شہر لاہور میں سکونت اختیارکرنے پر اسلامیہ ہائی اسکول لوئر مال سے ٹاپ پوزیشن کے ساتھ میٹرک کا امتحان پاس کیا، اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے پہلے ایف اے اور پھر بی اے کے امتحانات میں کامیابی حاصل کی، دورانِ تعلیم اسی ادارے میں لیکچرار مقرر ہوئے، کچھ عرصے کے بعد پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں غلام مصطفی کھر پنجاب کے گورنر بنے تو انجمن حمایت اسلام کی پاداش میں انھیں لاہور سے ملتان ٹرانسفرکردیا، یہ ایک مشکل وقت تھا، جب اپنا گھر بار چھوڑکر جانا پڑا۔
اپنے تعلیمی سفرکو جاری رکھتے ہوئے 1956میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے عربی اور1958 میں اسی یونیورسٹی سے ایم اے علوم اسلامیہ کی ڈگری حاصل کی، 1966 میں ایم اُردو کیا، اس طرح ایم اے کے تین امتحان پاس کیے اور یونیورسٹی انجیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں درس و تدریس کے فرائض سرانجام دینے لگے۔
اسکالر شپ پر سعودی عرب گئے اور وہاں یونیورسٹیوں میں لیکچرز دینے لگے، سعودیہ قیام کے دوران انھوں نے دو نعتیہ شعری مجموعے ’’سنہری جالیوں کے سامنے‘‘ اور ’’سبز گنبد دیکھ کر ‘‘ لکھے، پہلا مجموعہ ان کی زندگی میں شایع ہُوا ور دوسرا مجموعہ ان کی رحلت کے بعد ان کی صاحبزادی عافیہ بزمیؔ نے فیروز سنز سے شایع کروایا۔ ان نعتیہ شعری مجموعوں میں شامل کلام میں وہ نہ صرف اپنی عقیدت اور محبت کا اظہارکھل کرتے ہیں بلکہ ان میں والہانہ پن انتہا درجے کا نظر آتا ہے۔ ان کی فکر و خیال کی روشنی سے نعت کا ایک ایک شعر جگمگاتا ہُوا ہمارے دلوں کو منورکرتا ہے۔ نعت کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔
جدھر دیکھو، اُدھر بیچارگی تھی آپؐ سے پہلے
بہت مجبور ہر سو زندگی تھی آپؐ سے پہلے
بظاہر پھول کھلتے تھے، مگر خوشبو سے عاری تھے
گلستاں میں کہاں یہ تازگی تھی آپؐ سے پہلے
بزمیؔ صاحب کا یہ نعتیہ کلام 1981 میں شیخ صفدر علی کی ادارت میں شایع ہونے والے ادبی مجلہ ’’ شام و سحر‘‘ کے نعت نمبر میں پڑھنے کو ملا۔پروفیسر خالد بزمیؔ کی تصانیف پر نظر ڈالیں تو اُن میں ’’ مجھے ہے حکمِ اذاں‘‘ ( دینی قومی اور اخلاقی نظموں کا مجموعہ)، سید سادات( نعتیہ مجموعہ)، علامہ ابن جریر ( ایم اے کے دوران لکھے جانے والے مقالے کی کتابی صورت)، آئینہ خیال ( غزلیہ مجموعہ)، آغوشِ صدف (غزلیہ مجموعہ)، گوہر نایاب ( غزلیہ مجموعہ)، تمدن تاریخ واسلام (تین جلدوں میں لکھی جانے والی اسلام کی تاریخ)، اسلامی تعلیمات (عرصہ دراز تک نصاب کا حصہ رہنے والی کتاب) ،نسیمِ حجاز، افہام القرآن ، طفلستان و دیگر کتب نمایاں ہیں۔ ان کی لکھی اسلامی کتابیں سالہا سال پنجاب کے تعلیمی اداروں میں پڑھائی جاتی رہیں۔
بزمیؔ صاحب اپنی زندگی کے آخری ایام میں قرآن مجید کی تفسیر لکھ رہے تھے افسوس زندگی نے وفا نہ کی اور اس سعادت سے محروم رہے، جب کہ سالہا سال ان کی قرآن و حدیث کی تعارف والی کتابیں اور تاریخ اسلام تعلیمی اداروں میں پڑھائی جاتی رہیں۔ وہ شعرکی ہر صنف میں نئی نئی زمینیں نکالنے پر مہارت رکھتے تھے، کئی نامور ادبی چہرے ان کے حلقہ یاراں میں رہے۔ جن میں عاصی کرنالی، منیر فاطمی، حفیظ الرحمن احسن، حفیظ تائب، خالد شفیق، علیم ناصری، عابد نظامی، محمد شریق بقا، صوفی افضل فقیر، بشیر چٹھہ، منظور علی شیخ، ارشد بھٹی، عبدالعزیز خالد، ڈاکٹر آفتاب نقوی، ڈاکٹر ملک غلام مرتضی اور بہت سے قریبی دوست تھے۔
ہمدرد ٹرسٹ کے بانی حکیم محمد سعید سے بھی ان کا بہت قریبی تعلق رہا۔ اس کے علاوہ ان کی مولانا مودودی اور احسان الٰہی ظہر سے بہت ملاقاتیں رہی۔ شاگردوں میں جماعت اسلامی کے نائب امیر حافظ ادریس، شعیب بن عزیز، اظہر سہیل، امجد اسلام امجد، تحسین فراقی، مرغوب حسین طاہر، تجمل فاروق بانی، میاں عثمان جیسے لوگ شامل تھے۔پروفیسر خالد بزمیؔ شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبالؒ، ظفر علی خانؒ اور حالیؒ کو نہ صرف پسند کرتے بلکہ ان کا کلام بھی ذوق و شوق کے ساتھ پڑھتے تھے۔ میرؔ اور غالبؔ بھی ان کے پسندیدہ شاعر تھے۔
گورنمنٹ اسلامیہ کالج لاہور کے ’’ کریسنٹ‘‘ میگزین کے ایڈیٹر رہے اور کئی سال تک شاندار طریقے سے قلمی خدمات سرانجام دیتے ہوئے انھوں نے حالیؔ، شبلیؔ اور اقبالؔ جیسے یادگار نمبر شایع کیے۔ بچوں کی نظموں کے ساتھ ساتھ انھوں نے عرب کی کہانیاں کے نام سے عرب کی لوک کہانیوں کا ترجمہ بھی کیا جو کتابی صورت میں نہ صرف منظرِ عام پر آیا بلکہ ’’ تعلیم و تربیت‘‘ میں اس کی اشاعت کا سلسلہ قسط وار جاری رہا۔
پروفیسر خالد بزمیؔ کی چند کتابوں کا مطالعہ کر چکا تھا لیکن چند روز قبل ان کی صاحبزادی عافیہ بزمیؔ نے ان کی وفات کے بعد چھپنے والے حمدیہ، نعتیہ شعری مجموعے’’ جبینِ نیاز‘‘ کا تحفہ بھیجا۔ جسے پڑھ کر بے حد مسرت بھی ہوئی، عافیہ بزمیؔ نے نیک سیرت باپ کی بیٹی ہونے کا فرض ادا کر رہی ہے۔
عافیہ بزمیؔ خود بھی نثر کے ساتھ ساتھ ہلکا پلکا شاعری کا تڑکا لگاتی رہتی ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے اپنے والد کی طرح تین ایم اے نہیں بلکہ دو ایم اے پاس کرنے کا ریکارڈ بنا رکھا ہے۔ ان کی ایک بہن بھی بہت عمدہ لکھاری تھیں جس کی وفات ہوچکی ہیں جب کہ ایک بھائی نے موجودہ حالات کے پیشِ نظر لکھنا چھوڑ دیا ہے۔
خالد بزمیؔ کی شخصیت اور فن کے حوالے سے بہت کچھ لکھنا ابھی باقی ہیں۔ ان کا تخلیق کردہ کام موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے بیش بہا خزینہ ہے جو قارئینِ اردو ادب کے ہمیشہ کام آتا رہے گا۔ پروفیسر خالد بزمیؔ کی وفات 31 جولائی 1999کو ہوئی۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.