چائے کا عالمی دن، تحریر: نصرت نسیم

You are currently viewing چائے کا عالمی دن، تحریر: نصرت نسیم

چائے کا عالمی دن، تحریر: نصرت نسیم

تحریر: نصرت نسیم

جب اترتی ہیں میرے دل میں پرانی یادیں
کتنی بچھڑی ہوئی کونجوں کی صدا آتی ہے
دو دن پیشتر چاے کا عالمی دن دوستوں نے بڑی چاہ سے منایا۔اور طرح طرح کے بڑے بڑے باتصویر کپ اور چینکوں کی تصویریں لگائیں۔ہم دیکھتے رہے لطف اندوز ہوتے رہے۔کچھ لکھنے کا ارادہ ہرگز نہ تھا۔
مگر آج دوپہر بیٹھے بیٹھاے کتنی یادوں نے در دل پر دستک دی۔چاے کے ساتھ چاہت اور محبت والے کتنے رشتے، کتنے مہربان چہرے یاد آے۔اور یادوں کے کتنے چراغ روشن ہوتے چلے گئے۔
ہمارے جنت مکانی ڈیڈی کے لئے چاے بہت اہتمام، چاہ اور چینی کے خاص ٹی سیٹ میں پیش کی جاتی تھی۔
وہ ہمیشہ سیپریٹ چاے پسند کرتے تھے۔یعنی قہوہ، دودھ، چینی الگ الگ پیش کی جاتی۔فجر کی نماز کے فورا”بعد ایک چھوٹی طشتری میں منے سے ٹی سیٹ میں چاے ان کی میز پر رکھ دی جاتی۔انگلینڈ کابنا چینی کایہ منا سا سیٹ مجھے خاص طور پر پسند تھا۔ڈیڈی نماز پڑھتے تو پھپھو اماں چاے کے قہوے کو دم لگا کر چینک پر ٹی کوزی دھر دیتیں۔
چینک کے منہ پر ڈھکن یا کاغذ سے ڈاٹ بناکر منہ بند کر دیتیں۔تاکہ چاے ٹھنڈی نہ ہو۔اور اچھے سے دم لگ جاے۔دودھ گرم کرکے دودھ دانی اور چینی چینی دان میں ڈال کر ٹرے میں رکھ کر جاے نماز کے قریب رکھ آتیں۔اشراق کے کافی دیر بعد ناشتہ آتا۔اب چونکہ اکثر میں بھی ناشتے میں شریک ہوتی تو اب ناشتے کے ساتھ بڑے اور ایک اور نفیس چینی کے سیٹ میں چاے لائ جاتی۔میری خالاوں نے طرح طرح کی اونی ٹی کوزیاں بنا رکھی تھیں۔جو ان کی ہنر مندی اور سلیقے کی مظہر تھیں۔ایک دو ٹی کوزیاں تو ابھی بھی مجھے یاد ہیں۔ایک تو شوخ دھنک رنگوں سے بنی ایسی اونی ٹی کوزی تھی۔کہ دل چاہے کہ دیکھتے رہیں۔دوسری کالے ساٹن سے بنی بلی تھی۔جس کی گردن میں سرخ ربن، چہرے پر دھاگے اور کڑھائی سے مونچھیں اور نقش ونگار کاڑھے گئے۔آنکھوں کی جگہ بٹن،  اور  جسم میں روئی بھری ہوئی تھی(۔اون اور اس طرح روئی کی بنی ٹی کوزیاں گھنٹوں چاے کو گرم رکھتی تھیں )
یہ ٹی کوزی میری پسندیدہ تھی۔ٹی کوزی اس دور میں چاے کے ساتھ لازم و ملزوم تھی۔
یہ تو ڈیڈی کی چاے کا حال تھا۔جو بہت چاو سے بنائی جاتی۔باقی تمام گھر والوں کے لئے دیگچی میں چاے بنتی۔کبھی کوئلے کی انگھیٹی، کبھی ہیٹر پر کافی دیر اور اطمینان سے بنائی جاتی۔بار بار چاے کا مخصوص چمچ ایسے چلایا جاتا۔جیسے چاے کو پھینٹا جا رہا ہو۔چاے بن جاتی تو دیگچی سے براہ راست مٹی کے گول پیالوں میں سب کیلئے ڈال دی جاتی۔عمومی طور پر مٹی کے نقش ونگار بنے ہوئے پیالے مستعمل تھے۔چینی کے پیالے بھی استعمال ہوتے۔
خاص مواقع پرکالی چاے کی بجاے شیر چاے بنتی(۔جسے آج کل کشمیری چاے کہتے ہیں۔)خاص طور پر تقریبات میں الائچی کی خوشبو سےمہکتی گلابی رنگ کی شیر چاے پیش کی جاتی۔دودھ کی دیگچی میں دودھ پر موٹی موٹی بالائی جسے ہم ملای کہتے تھے۔چاے کے پیالے پر تیرتی ہوئی اس کے لطف کو دوبالا کر دیتی۔
مجھے یاد ہے۔صدر ایوب کے دور میں الیکشن ہوے۔بی ڈی سسٹم کے تحت بی ڈی ممبران کا چناو تھا۔تو آے دن جلسے اور تقریبات ہوتیں۔اور ان میں شرکا کی تواضع کے لئے شیر چاے، نمک پارے اور دیسی سرخ مٹھائ سے کی جاتی۔
کوہاٹ میں بھی شیر چاے بنائی اور پسند کی جاتی تھی۔جب کہ پشاور میں ہمارے جتنے رشتے دار تھے۔ان سب کے ہاں شیر چاے بنتی۔پشاوری خواتین کے ہاتھ کی بنی چاے کاذائقہ اور رنگ بہت گہرا گلابی ہوتا۔اور شیر چاے کے پیالے میں باقر خانیاں اور پھینڑیاں بھی ڈال کر کھائ جاتیں۔چاے کی طرح کوہاٹ کی ملای اور پشاور کی ملای میں بھی زمین آسمان کا فرق تھا۔ہمارے ہاں ملائ نرم اور پتلی سی ہوتی۔پشاور کی ملای بہت گاڑھی اور الگ زائقے کی ہوتی۔سنا ہے دکاندار پھلیوں کے ساتھ خاص ترکیب سے تیار کرتے۔صبح سویرے ناشتہ لانے کے لیے جاتے تو گرم گرم روغنی نان کے ساتھ پیالہ بھر ملائ بھی لے کر آتے اکثر ملائ کے لئے رات سے برتن رکھواے جاتے۔
پشاور کی یہ ملای اپنا الگ زائقہ اورسواد رکھتی ہے۔
اب امتداد زمانہ کے ساتھ نہ وہ ذائقے خرہے۔نہ وہ ہاتھ جو محنت، لگن اور چاہ سے چاے تیار کرکے اپنے پیاروں اور دوست احباب کو پیش کرتےتھے۔اب تازہ دودھ اورملائ کی جگہ اولپرز یا نیسلے کے دودھ ہیں
۔تاہم پشاور کے لوگ اب بھی شیر چاے اہتمام سے بناتے اور پیتے  ہیں ۔ ان کے گھروں میں کالی چاے کے ساتھ ساتھ شیر چاے بھی بنتی ہے۔مزے کی بات یہ کہ رنگ کی بنیاد پر کہاجاتا تھا۔کہ کالی چاے اور گلابی چاے یا شیر چاے گویا رنگ کا امتیاز چاے میں بھی برقرار تھا۔اورشیر چاے کو اپنے رنگ، زائقے اور الائچی کی مسحور کن مہک کی بنا پر برتری حاصل ہے۔جو اب تک برقرار ہے۔کہ شادی بیاہ کی تقریب میں شیر چاے ہی شوق سے پی جاتی ہے۔
بچپن کی چاے، اہتمام اور سلیقے سے چاے کا ٹرے سجانا، نفیس برتن ،رنگین ٹی کوزی اور چاہت کے ساتھ چاے پینا بھلا کیسے بھول سکتے ہیں۔اس سلسلے میں ڈیڈی چاے پینے کے تمام آداب کوملحوظ رکھتے تھے۔چاے پیتے ہوے منہ سے سڑ سڑ کی آواز نہیں آنی چاہیے۔خالہ
 سمجھاتے ہوے قصہ سناتیں۔کہ ایک دفعہ  اپنے انگریز اور سکھ دوستوں کے ساتھ مری میں چاے پی رہے تھے۔کہ اکلوتے بیٹے نے چاے پیتے ہوےآواز نکالی، گھور کر دیکھا گھبراہٹ میں دوبارہ سڑ کی آواز آئی تو ایک زور دار چانٹا رسید کیا۔
چاے کے ساتھ کتنے مہربان چہرے اور کچھ خاص مقامات کی یاد بھی جڑی ہوئی ہے۔
بی اے میں پشاور ہاسٹل آے تو شروع شروع میں کالی بھجنگ پتلی چاے زرا اچھی نہ لگی۔پھر رفتہ رفتہ اسی چاے کے عادی ہوگئے۔صبح صبح شہاب الدین بلاک کے سامنے خالائیں بڑے بڑے دیگچے سامنے رکھے ہوتیں۔ہم کپ اگے کرتے وہ چاے ڈالتیں، آدھا نان ایک چھوٹی سی مکھن کی ٹکیا پکڑاتیں۔کمرے تک آتے آتے اسے دباتے تو پانی نچڑ کر بہت منی سی ٹکیا رہ جاتی۔اسی طرح شام کی چاے سے پہلے تیارہونا اورلان میں بیٹھ کر دوستوں کے سنگ چاے پینا۔عمر کا وہ الہڑپن، دوستوں کا ساتھ ، باتوں اور محبت کی شیرینی سے یہ چاے کیسی شیریں اور مسحور کن لگتی۔
ارے کوئی ایسا چاے کا کپ مل سکتا ہے!
ہماری شادی 25 اپریل 1976 میں ہوی۔مئ کے آغاز میں ڈرتے جھجھکتے نسیم نے اپنے اباجی سے ہنی مون پر جانے کی اجازت چاہی۔جو خلاف توقع بہت آسانی سے مل گئی۔ہم نے فٹافٹ نوٹوں والے کنٹھوں سے نوٹ اتارے۔منہ دکھائی کی رقم بھی ملا کر مری نتھیا گلی روانہ ہوئے۔تب مئ میں بھی شدید سردی تھی۔نتھیا گلی میں اکثر مقامات پر برف پڑی ہوئی تھی۔سردی اور کہر آلود سرد موسم میں انڈے پراٹھے کے ساتھ چاے پینا کیسا پر لطف اور سرور انگیز تھا۔اس چاے میں چاو، چاہ، چاہت کے سارے نیارے رنگوں کا رچاو تھا۔
چاے کے ذکر پر تو یادیں ہیں کہ امڈی چلی آرہی ہیں۔چلیں جی کشمیر چلتے ہیں۔میرا بھائی تمثیل حبیب بنک مظفر آباد میں تھا۔بچوں کی چھٹیاں دسمبر میں ہوئیں تو ہم سب بھائی بھابھی کے پاس مظفر آباد گئے۔دسمبر کامہینہ اور کشمیر کی سردی میں چاے کا وہ لطف وسرور بھلاے نہیں بھولتا۔میری خالہ کے ہاتھ کی چاے بہت منفرد اور خاص ہوتی تھی ۔میری بھابھی نورین میری خالہ زاد ہے۔اوراس کے ہاتھ میں بھی ماں والا زائقہ ہے۔
رات کو بستر پر لیٹتے تو لگتا تھا۔کہ گیلے بستر پر دراز ہیں۔بجلی کا ہیٹر بھی سردی کی شدت کم کرنے میں ناکام دکھائی دیتا۔ایسے میں نورین گرم گرم دودھ پتی کے مگ پکڑاتی۔تو اس چاے کی لذت، سرور رگ وپے میں سرایت کرکے سردی کی شدت زائل کر دیتا۔
لیجئے ایک اور یاد نے دامن پکڑ لیا۔یہ یاد چکوٹھی کی ہے۔جس دن چکوٹھی کے لئے نکلے۔موسم ابر آلود اور شدید سردی تھی۔جو چکوٹھی پہنچتے پہنچتے مزید شدت اختیار کرگئ۔چکوٹھی پاکستان، ہندوستان کا وہ بارڈر ہے۔جہاں آمنے سامنے دونوں افواج کے مورچے ہیں۔یہیں ہمیں اس علاقے کی حساسیت، اہمیت کے بارے میں بتایا گیا۔مورچے میں جاکر دوربین سے نظارے کئے۔اور نشان حیدر پانے والے سرور شہید کا مورچہ دیکھا۔ان کے کارنامے سنے۔
یہ دیکھ کر واپس گیسٹ روم کی طرف آے تو ہلکی ہلکی بوندا باندی تیز ہوگئ۔
سردی کی شدت سے دانت بج رہے تھے۔ایسے میں جب بھاپ اڑاتی چاے اور گرما گرم پکوڑے سامنے آے۔تو جس ندیدے پن سے ہم سب نے پکوڑے کھاے اور چاے پی۔اس سواد اور سکون کی کیفیت بیان کرنے کے لئے الفاظ نہیں۔آپ تصور کیجئے۔ پکوڑوں اور چاے کالطف اٹھائیے
اللہ اللہ یاد کا ایک اور چگنو چمکا۔جو میرے پیارے بھائی جمیل عرف جگنو کی یاد ہے۔
وہ چھٹی والے دن ہاسٹل سے میرے پاس نوشہرہ آتا۔رات کو وہ اور نسیم شطرنج کی بازی لگاتے۔شطرنج کی بساط بچھانے سے پہلے وہ کہتا آپی دودھ کافی سارا ہونا چاہیے۔دودھ پتی میں خود بناونگا۔میں کہتی۔دیگچی بھری رکھی ہے۔خود لے لو۔وہ ہلکی آنچ پر رکھ آتا۔اس کے ہاتھ کی بنی دودھ پتی کا زائقہ کیسے بھول سکتی ہوں۔کہ اب وہ ہاتھ ہی نہیں رہے۔جگنو کی طرح چمکتا دمکتا میرا بھائی جوانی میں ہی چل بسا۔
وہ چاند کھو گیا ہے اندھیروں کی گود میں 
اس یاد کی رنجیدگی میں سوچا کہ بس اس قصے کو ختم کروں جو طول پکڑتا جارہا ہے۔مگر کچھ اور خوبصورت مقام یاد آے۔جنہیں نظر انداز نہیں کر سکتی۔
یہ یاد ہے بہت خوبصورت مقام اور بہت مقدس ایام کی جب 1998 میں ہم حج پر گئے۔پشاور کے تین بہت اچھے لوگ کمرے میں ہمارے ساتھ تھے۔رات دوبجے بزرگ خاتون جگاتیں چلو تیار ہوجاو تہجد نکل نہ جاے۔جلدی جلدی تیار ہوکر 80 سیڑھیاں اتر کر، کافی سارا پیدل چل کر حرم پہنچتے۔تحجد کی ازان ہوتی نفل پڑھ کر فجر، اشراق پڑھ کر گھر آتے۔تو تھکن سے چور ہوتے۔راستے سے لاے ہوے پراٹھوں کے ساتھ ابئ کا بیٹا جمشید سنہری بڑی کیتلی چاے کی لے کر آتا تو دیکھ کر آنکھوں کی چمک اور بھوک چمک اٹھتی۔چاے کا ایک ایک گھونٹ سرور بن کر اترتا ۔کپ آدھا رہ جاتا تو ابئ چینک اٹھا کر سب کے کپ بھر کرکہتی کہ چاے تازہ کرلیتے ہیں۔ایسا کئ بار ہوتا
چاے کی طلب ایسی شدید ہوتی۔کہ چاے تازہ کرنے کی پیشکش پر کوئی بھی انکار نہ کرتا۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا۔کہ چینک خالی ملتی تو ابئ جھٹ اپنی جھوٹی چاے نسیم کے کپ میں انڈیل کر تازہ کر دیتی۔اور وہ ابئ کی مادرانہ محبت کے سامنے انکار نہ کرسکتے اور غٹا غٹ پی جاتے۔
پھر حالیہ برسوں میں رمضان کے عمرے، عربوں کی مہمان نوازی، چاے کے بڑے بڑے تھرمس، شاے،  مخصوص عربی قہوہ، خوشبو کی لپٹیں اٹھتی ہوئی چھوٹے چھوٹے فنجانوں میں کھجور کے ساتھ اس قہوے کی تلخی ساری تھکن اتاردیتی۔تراویح تک شاے اور قہوے کے کئ کپ پی لیتے۔اور دل ہی دل میں شکر ادا کرتے کہ یااللہ تو کتنا مہربان اورفیاض ہے۔کہ اپنے گھر کا یہ رزق نصیب کیا۔بہترین میزبانی کی۔
فبائ آلا ربکما تکذبان
اے میرے رب ہم تیری کسی نعمت کا انکار نہیں کرتے۔
ہمیشہ مہربان رہنا میرے مہربان رب اور بار بار اپنے گھر اور مدینہ منورہ کا رزق اور میزبانی نصیب کرنا۔
کہ تجھ سے بڑھ کر کون سخی اور کون اچھا میزبان ہے


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.