تحریر: نسیم اختر

”قائداعظم محمد علی جناح نے فر مایا“
”پاکستان اسی دن وجود میں آگیاتھا جس دن پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا“
مگر مسلمانوں کو سمت کا تعین کرنے اور جدوجہد آزادی کے لیے متحد ہونے میں پورا سو سال کا عرصہ لگا ۔جب قومیں عمل کی دولت سے خالی ہو جائیں اور اپنی کوتاہیوں کو سدھارنے کی بجاۓ اس کا جرم دوسروں کے کھاتے میں ڈالتی ہیں تو منزل کی جانب سفر اور بھی مشکل اور سسست ہو جاتا ہے۔ تحریک پاکستان سے قیام پاکستان تک کا سفر ایک بہت ہی کھٹن اور صبر آزما مرحلہ تھا ۔ مگر اپنے لیے ایک اسلامی مملکت کا خواب دیکھنے والوں کی آنکھیں آزادی کے خواب کی تکمیل سے چمک رہی تھیں ۔
جیسے جیسے مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا انکا عزم اور بھی جوان ہوتا گیا ۔
انکے سامنے اپنی ثقافت کی پہچان، اپنی مذہب کی حفاظت ،اپنےزبان وادب کی بقا،قومی تشخص اپنا قومی ورثہ اور اپنا نظام تعلیم ایسی چیزیں تھیں جن کی حفاظت کے لیے برطانوی سامراج کے ساتھ ساتھ ہندو راج پاٹ سے آزادی بھی ضروری تھی۔
قیام پاکستان کےفورا بعد مہاجرین کی آبا د کاری کا مسئلہ اتنا بڑا تھا کہ آئین پاکستان کی طرف توجہ ہی نہ دی جا سکی
جب ابتدائی ی مسائل پر قابو پا لیا گیا تو پھر وزیراعظم پاکستان نے دستور سازی سے قبل ایک دستاویز قومی اسمبلی کے سامنے پیش کی ۔پاکستان کی سرکاری دستاویزات میں اس دستاویز کوتقدس کا درجہ حاصل ہے۔پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے جب یہ دستاویز منظورکی تو اس پر ایک تبصرہ زبان زد عام ہوا۔
”آج ریاست کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئی ہے“
معاشروں میں بعض اوقات ایسی باتیں بھی عام ہو جاتی ہیں جن کی ذمہ داری کوٸی نہیں لیتا۔یا اس کے کہنے والے کو بھی اس کی خبر نہیں ملتی۔
آوازخلق یا نقارہ خدا شاید ایسی ہی باتوں کے لیے کہا جاتا ہے۔قراردادمقاصد کے بارے میں یہ خیال اتنا بھی بے بنیاد نہیں کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس کی جڑیں ملتی ہیں۔
اس قرارداد میں اس بات کا اقرار کیا گیا تھا کہ حاکمیت صرف اللہ تعالی کی ہے اورریاست کا پبلک لا جمہوریت، آزادی، معاشرتی انصاف اور رواداری کے اصولوں پر مبنی ہو گا جو اسلام نے مقرر کیے ہیں اور ریاست کی ذمہ داری یہ ہوگی کہ وہ مسلمانوں کو اس قابل بناۓ کہ وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن وسنت کے مطابق منظم کریں۔جب یہ قرارداد پیش کی گئی تو اسمبلی کے اندر سے اس پر فوری طور پر کئی اعتراضات اٹھاۓ گئے۔کہ بانی پاکستان محمد علی جناح نے وعدہ کیا تھا کہ پاکستان ایک سیکولر ریاست ہوگی۔ اس پرقائداعظم کےقریبی ساتھی سردار عبد الرب نشتر نےتقریر کی اور کہا کہ قائداعظم نے بتایا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہو گی۔
نظریہ پاکستان میں اسلامی زندگی اورقدروں کا تصوربنیادی حثیت رکھتا ہے۔اخوت،مساوات،عدل،دیانت،خدا ترسی، انسانی ہمدردی اور عظمت وکردار نظریہ پاکستان کے بنیادی جز تھے۔ نظریہ پاکستان کا مقصد پاکستان کو ایک اسلامی اور فلاحی ریاست بنا نا تھا ۔مگر آج پچھتر سال گزرنے کے بعد بھی ہم اندرونی اور بیرونی سازشوں کی وجہ ان مقاصد کے حصول میں نا کام ہیں ۔۔۔۔
ایسا کیونکرہوا کیا کبھی ہم ان مسائلسے چھٹکارا حاصل کر سکیں گے ؟
ان مسائل کے حل کے لیے وہ کونسا لائحہعمل ہے جو ترتیب دینا ہو گا؟
اگر ہم آج کی بات کریں تو وطن عز یز کو سیاسی، معاشی ،تعلیمی ،صنعتی اور  معاشرتی بحرانوں کا سامناہے۔ آج وطن عزیز کا ہر شہری اس فکر میں مبتلا ہے کہ ان مسائل سے کیسے نمٹا جاۓ ۔ان بحرانوں پر کیسے قابو پا سکتے ہیں ۔
عام آدمی کسی نجات دہندہ کا منتظر ہے ۔

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

نجات دیدہ ودل کی گھڑی ابھی نہیں آئی


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content