مضمون نگار: پروفیسرنسیم امیر عالم قریشی
شاعری الفاظ کے برتنے ہی کا نام نہیں بلکہ لفظ کو نئے معنی دینے‘ نئے مفاہیم سے سجانے اور نئے رنگوں سے آراستہ کر دینے کا بھی نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لغات میں لفظ کے معانی کے ساتھ مفاہیم کو سمجھنے اور صحیح آواز کو جاننے کے لئے اشعار کو بطور اسناد پیش کیا جاتا ہے۔ یہ خیال بھی درست ہے کہ لفظ شاعری میں اپنے امکاناتی معنوں کے ساتھ اس طرح استعمال ہوتے ہیں کہ اُس کے معنی بہ روح لغت غلط ہوں گے اسی کو شاعری کی روح کہا جاتا ہے۔ اسی سے شعر کے مفہوم میں امکانات کے ہزار پہلو اور لطف کے کئی دریچے وا ہو جاتے ہیں۔
جہاں تک قد ماءکا تعلق ہے تو غالب کی شاعری میں دہلی شہر کا حوالہ بڑے درد کے ساتھ ملتا ہے۔ میر نے بھی اس حوالے کو اپنے اشعار میں سمو دیا ہے۔
حتی کہ ”شہر آشوب“ کے عنوان سے بھی ایک نظم موجود ہے۔ نظم کے عنوان سے ہی شاعری کی ضف ”شہر آشوب“ ذہن میں آتی ہے ۔قدما کے بعد جب جدید شعراءکی جانب دیکھتے ہیں تو احمد فراز ”شہر“ کے حوالے سے بہت کچھ کہتے سنائی دیتے ہیں۔ ان کے لہجے کی انفرادیت اپنے عہد کے شعراءمیں ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ اُن کی شاعری کا لہجہ بلند آہنگ کا حامل ہے۔ اُن کے شعری مجموعے ”بے آواز گلی گوچوں میں“ فراز نے متعدد استعارے استعمال کئے ہیں۔ خاص طور پر لفظ ”شہر“ کو متعدد مواقعوں پر مختلف انداز سے استعمال کیا ہے۔
فراز کہیں ”شہر دل“ کا تذکرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ اُن کے دل کی زمین پر کوئی شہر آباد ہے۔ اُس شہر کو وہ کبھی سجاتے ہیں کبھی سنوارتے ہیں، کبھی خالی پن محسوس کرتے ہیں،کبھی اُداسی و بے کلی شہر میں محسوس ہوتی ہے۔ کیوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے شہر فراز سے باتیں کرتا ہے اور فراز شہر میں گم نظر آتے ہیں۔
کہیں وہ اس لفظ کو محبت کے سچے‘ معصوم‘ آفاقی جذبے سے جوڑتے ہوئے وسعت عطاکرتے دکھائی دیتے ہیں اور یوں اس لفظ کی معنویت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے مثلاً:

جاناں دل کا شہر‘ نگر افسوس کا ہے
تیرا میرا سارا سفر افسوس کا ہے

شہر محبت کب سے خالی خالی ہے
ہم بھی فراز یہاں ہیں شاید رات کی رات

فیض کی طرح فراز بھی ظلم و ستم اور جبر و استبداد کے خلاف ہیں جب وہ لفظ ”شہر“ کی علامت استعمال کرتے ہیں تو مختلف مواقعوں پر اس لفظ کے معنی مختلف ہوتے جاتے ہیں
دیکھو اک صورت نے دل میں کیسی جوت جگائی
کیسا سجا سجا لگتا ہے شہر ملال کسی سے
خصوصاً ان کی نظم ”بن ہاس“ کا مرکزی خیال یہی شہر ہے اور تمام نظم اسی ایک لفظ کے گرد گھوم رہی ہے مثال کے طور پر
مجھ کو شہر میں
میرے شہر میں جانے دو
یا اسی نظم کے آخر میں فراز کی ”قنوطیت“ پر مبنی کیفیت عروج پر نظر آتی ہے جبکہ حوالہ شہر ہی ہے۔

میرا ہمکتا خون اور میرے سسکتے نغمے
دروازے کی دہلیز سے
رستے رستے‘ شہر کے اندر جا پہنچے ہیں
پھر فوراً ہی ایک غزل میں فراز ”شہر کتاب“ کی ترکیب استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر
شہر کتاب اجڑ گیا ”حرف برہنہ سر ہوئے
کہیں وہ درد و محبت کے ساتھ غزل کی وسیع ضف کو شہر کے حوالے کے ساتھ کچھ اس طرح استعمال کرتے ہیں۔

شہر غزل کی گلیوں میں دلگیر تیرے
تجھ سے تیری باتیں کرتے جاتے ہیں

ایک جگہ اپنے محبوب سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتے ہیں

جاناں دل کا شہر‘ نگر افسوس کا ہے
تیرا میرا سارا سفر افسوس کا ہے

کہیں فراز شہر کو دکھ کے ساتھ جوڑتے ہوئے ”شہر ملال“ کی ترکیب واضع کرتے ہیں۔
دیکھو اک صورت نے دل میں کیسی جوت لگائی
کیسا سجا سجا لگتا ہے شہر ملال کسی سے
محبت اور درد کا آپس میں گہرا رشتہ ہے اسی رشتے میں بھی لفظ ”شہر“ زیادہ مضبوط طریقے سے سامنے آتا ہے۔
شہر محبت کب سے خالی خالی ہے
ہم بھی فراز یہاں ہیں شاید رات کی رات
اور جب وہ شہر کو احتجاج و جبر کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں تو گویا ان کے چنے ہوئے لفظوں میں وہ آتش فشاں پنہاں ہوتا ہے کہ حبیب جالب کی یاد دلاتا نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر مندرجہ ذیل شعار میں فراز کا تند لہجہ اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔
آج دیوار کھیچ گئی ہے اگر
شہر کل بھی تھا صورت زنداں
یا
شہر والے سب امیر شہر کی مجلس میں ہیں
کون آئے گا غریب شہر ناپرساں کے پاس
حتی کہ ایک جگہ شہر کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
اے شہر میں تیرا نعمہ گر ہوں

کہیں موجودہ سیاسی‘ سماجی‘ معاشی ابتری کا نقشہ شہر کے استعارے کے ساتھ مجھ کو اس خوب آوری سے استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
اب لوگ جو دیکھیں گے تو خواب اور طرح کے
اس شہر پہ اتریں گے عذاب اور طرح کے
کہیں بے حسی کی کیفیت میں گزرتے ہوئے شو روز کو شاعر کی حساس آنکھ سے دیکھتے ہوئے مزید فرماتے ہیں:
سارا شہر بلکتا ہے
پھر بھی کیسا سکتہ ہے
گلیوں میں بارود کی بو
یا پھر خون مہکتا ہے
کہیں وہ شہر کی بدحالی و ابتری پر ترپ کر آہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں۔

چلواس شہر کا ماتم کریں

کہیں فراز شہر کے خوبصورت استعارے کو رعایت لفظی کے ساتھ کچھ اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ شعر کی داد معنویت نمایاں ہوتی چلی جاتی ہے۔
عجب نہیں ہے جو خوشبوﺅں سے ہی شہر خالی
کہ میں نے دہلیز قاتلاں پر گلاب دیکھے
خوشبو کی رعایت کے ساتھ گلاب کا فقط استعمال کیا اور پھر شہر کے خوشبو سے خالی ہونے کا لطیف اشارہ دیا۔ کہیں وہ وقت کے سامراجوں کو للکارتے ہوئے خود سے مخاطب ہوتے ہیں دراصل وہ خود سے مخاطب ہوتے ہوئے ان تمام لوگوں سے مخاطب ہیں جو ظلم و استبداد کے شکار ہیں۔
کڑی ہے جنگ کہ اب کے مطالبے یہ فراز
امیر شہر بھی ہے اور خطیب شہر بھی ہے
اسی مجموعہ کلام میں “شہر آشوب” کے نام سے ایک نظم ہے اور “شہر آشوب” نظم کے عنوان سے اس کا متن ظاہر ہے۔
فراز کے اس مجموعہ کلام یعنی “بے آواز گلی کوچوں میں” ایک نظم ”فیض کی فراق میں“ ہے۔ اس نظم میں خصوصیت کے ساتھ شہر کا استعارہ بطور طنز استعمال کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر
تیرے بول ہیں سارے گونگے شہروں کی گویائی
تیرے گیت ہیں امن کی لے اور آشتی کی شہنائی
آخر میں فراز کے اسی مجموعہ کلام سے ایک نظم اقتباس ہے جس میں لفظ ”شہر“ کو بہت درد اور محبت کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے اس نظم میں ”شہر“ کے حوالے سے اداسی بھی ملتی ہے اور محبت بھی۔
شہر کے لئے تڑپ بھی ہے اور اس کی فکر بھی۔ الغرض اس نظم پر فکری و معنوی روشنی ڈالنے کے لئے علیحدہ مضمون درکار ہے۔ لیکن ابھی ہم بات اسی نظم کے ساتھ ختم کرتے ہیں۔ کیونکہ شہر کا حوالہ اس نظم میں پوری توانائی کے ساتھ ملتا ہے۔
تم اپنے عقیدوں کے نیزے
ہر دل میں اُتارے جاتے ہو
ہم لوگ محبت والے ہیں
تم خنجر کیوں لہراتے ہو
اس شہر میں نغمے بہنے دو
بستی میں ہمیں بھی رہنے دو
ہم پالنہار ہیں پھولوں کے
ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں
تم کس کا لہو پینے آئے
ہم پیار سکھانے والے ہیں
اس شہر میں پھر کیا دیکھو گے
جب حرف یہاں مر جئے گا
جب تیغ پہ لے کٹ جائے گی
جب شعر سفر گزر جائے گا
جب قتل ہوا سُر سازوں کا
جب کال بڑا آوازوں کا
جب شہر کھنڈر بن جائے گا
پھر کس پہ سنگ اٹھاؤ گے
اپنے چہرے آئینوں میں
جب دیکھو گے ڈر جاؤگے

One Response

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact