/ محمدجاوید انور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ لوگ جنگل میں کھلے پھول کی مانند ہوتے ہیں۔ اُن کی خوب صورتی اگرچہ اپنی جگہ پورے منظر کو دل کش بنا رہی ہوتی ہے لیکن انسانی آنکھ کا وہاں تک رسائی پانا اتفاق یا حادثے کا منتظر ہوتا ہے ۔
بہرحال جنگل کے پھول کی خوب صورتی فطری ، اصلی اور البیلی ہوتی ہے۔
ان چھُوئی اور خالص۔
کچھ ایسا ہی ارشد ابرار ارش کی افسانہ نگاری کے ساتھ ہے ۔
تونسہ شریف کے نواحی گاؤں میں افسانہ نگاری کا یہ ادھ کھلا پھُول اپنی چھب دکھا رہا ہے ،خُوشبُو بکھیر رہا ہے اور روشن مستقبل کی نوید سنا رہا ہے ۔
ارش بہترین ، معیاری زبان استعمال کرتے ہوئے زیادہ تر راست بیانیہ میں عام لوگوں کی عام کہانیاں لکھ کر انہیں خاص بناتا ہے ۔
اس کے کردار ہمارے اردگرد ہی سے لئیے ہوتے ہیں ۔اس کی کہانیوں کے واقعات کوئی انوکھے یا ان کہے ،ان سُنے نہیں ہوتے ۔اُس کے قلم کی طاقت اس کے تخئیل کی سُبک رفتار ہے ۔اس کی کہانیوں کی روانی ہے ۔ اس کے بیانیہ کا بے ساختہ پن ہے ۔ اس کی زبان پر گرفت ہے ۔ ارش لکھتا ہے اور بلا تکلف بے تکان لکھتا چلا جاتا ہے ۔اس کی تحریر طوالت کے باوجود بوجھل نہیں ہوتی ۔قاری بھی کہانی کے بہاؤ اور اسلوب کی روانی کے ساتھ ہی ساتھ بہتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ منزل کو جا لیتا ہے جو عموماً پھر کوئی دلچسپی لئے ہوتی ہے ۔ارش کے افسانوں “ آخری پتھر “ کی بنت ، عام سی لڑکی ، عام حالات کا شکار ، “ چراغ “ کا معمر ادیب “ مسیحا” کا گھر سے نکالا گیا بُوڑھا ، “قصہ ایک رات کا کی “ مانوی، “ قتلِ آب” کا تشنہ راوی اور دیگر افسانوں کے مرکزی کردار عام سے لوگ ہیں ۔روزمرہ والے ۔بس انہی کرداروں اور عام واقعات ہی سے ارش کی کہانی بُنی جاتی ہے۔کہانی بلاشبہ عام لیکن دلچسپ اور بامقصد ہوتی ہے۔
“ریزگاری” ارش کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے ۔ پہلا مجموعہ عموماً افسانہ نگار یا شاعر کا تعارف ہوا کرتا ہے ۔
عُمدہ زبان و بیان کا مظہر یہ افسانے دلیل ہیں کہ ارش کو بہت آگے جانا ہے ۔جنگل کے پھول کو بن اور شہر یکساں سجانے اور مہکا نے ہیں ۔
ہم منتظر رہیں گے ۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.