تحریر : جمیل احمد
میں دسویں جماعت میں اُردو کا پیریڈ لے رہا تھا۔ طلباء کو مضمون لکھنے کا کہا گیا تھا۔ سب ہی طلباء نے اچھی کوشش کی تھی، البتہ ایک طالب علم کے مضمون پر نظر ٹھہر گئی۔ ہینڈ رائٹنگ تو اچھی تھی ہی، مضمون کی روانی اور مواد کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا۔ مجھے تدریس کا شعبہ اختیار کیے زیادہ عرصہ تو نہیں ہوا تھا، البتہ اللّہ کا شکر ادا کرتے ہوئے یہ ضرور کہتا ہوں کہ میں “بائی چوائس” استاد بنا۔ شاید اسی غیر محسوس اعتماد کی بنیاد پر میں نے طالب علم کو مشورہ دے ڈالا کہ آپ ایک جرنلسٹ بن سکتے ہو۔ استاد اور شاگرد کا رشتہ بھی کیا خوب ہے۔ شاگرد کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی۔ اس نے اچھے نمبروں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس زمانے میں اچھے نمبر لینے والے طلبہ کے دو ہی اولین چوائس ہوتے تھے، پری میڈیکل یا پری انجینئرنگ۔ والدین کی خواہش تھی کہ بیٹا ڈاکٹر بنے، لیکن بیٹے کی آنکھوں میں جرنلسٹ بننے کے خواب تھے۔ وہ آرٹس کے مضامین اختیار کرنے پر بضد ہو گیا۔ اس کے گھر والوں نے بیٹے کو ایف ایس سی میں داخلہ لینے پر قائل کرنے کے لیے مجھ سے رابطہ کیا کہ شاید استاد کی بات بیٹے پر اثر کر جائے۔ انہیں کیا معلوم کہ یہ استاد کی بات ہی کا اثر تھا، دوسرے لفظوں میں یہ “آگ” استاد ہی کی لگائی ہوئی تھی۔ خیر، شاگرد نے بی اے میں اردو ادب و صحافت کا مضمون چنا، پنجاب یونیورسٹی سےابلاغیات میں ایم اے کیا۔ اسی دوران میں اس نے مختلف اخبارات و رسائل کے لیے لکھنا شروع کر دیا۔ پھر وہ برطانیہ چلا گیا اور میڈیا اینڈ گلوبلائزیشن میں ایک اور ڈگری حاصل کی۔ وہ اپنے خواب کی تعبیر دیکھتا جا رہا تھا۔ پھر اس نے 1999 میں علمی و اشاعتی، تحقیقی اور فلاحی مقاصد کے لیے ایک غیر سرکاری ادارے کی بنیاد ڈال دی۔ مختصر یہ کہ اس کی کامیابیوں کا سفر اب بھی جاری ہے۔ یہ ایک نو آموز استاد کے کہے ہوئے ایک جملے سے ابھرنے والی اصل کہانی ہے۔ سوچتا ہوں، اگر ہمارے تعلیمی اداروں میں سائنٹفک بنیادوں پر طلباء و طالبات کی رہنمائی کا انتظام موجود ہو تو کتنے چھپے ہوئے ہیرے اپنی اصل قدر و قیمت سے شناسا ہو جائیں۔ اس طرح کی رہنمائی کیریئر ایجوکیشن، کیریئر پلاننگ اور کیرئیر کونسلنگ کے زمرے میں آتی ہے۔ بہت سے ممالک میں سکولوں میں بچوں کو ان کے مستقبل کے لیے رہنمائی مہیا کرنے کا باقاعدہ انتظام کیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچے اپنی شخصیت اور دلچسپیوں کے مطابق درست سمت کا تعین کر لیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں کیریئر ایجوکیشن اور کونسلنگ کے حوالے سے آگاہی اگرچہ بڑھ رہی ہے، تاہم ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ درست ہے کہ سکول کی سطح پر کیریئر کونسلنگ طلبہ کو غلط فیصلہ کرنے سے بچا سکتی ہے، البتہ اس بات کا خیال رکھنا ازحد ضروری ہے کہ کیریئر کونسلر تربیت یافتہ ہو۔ وہ مختلف رجحاناتی ٹیسٹ لے سکتا ہو، ان کی رپورٹس پڑھ اور سمجھ سکتا ہو اور ان کی بنیاد پر طلبہ کو درست مشورہ دینے کی اہلیت رکھتا ہو۔ کیریئر کونسلنگ کا کام دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی نازک اس لیے بھی ہے کہ ایک غلط مشورہ کسی کے مستقبل پر بڑی حد تک اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اچھا کیریئر کونسلر سب سے پہلے طلبہ کی شخصیت، دلچسپیوں اور صلاحیتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے تربیت، تجربہ، شخصیت اور مختلف صلاحیتوں کی سمجھ بوجھ درکار ہے۔ میرے مشاہدے کے مطابق طلبہ کو اس وقت کیریئر کونسلنگ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے جب وہ مختلف مضامین کا انتخاب کرنے والے ہوں۔ مثلاً نویں جماعت میں جانے سے پہلے، انٹرمیڈیٹ سے پہلے اور یونیورسٹی میں جانے سے پہلے۔ بہت سے لوگوں کو کیریئر کے دوران میں بھی کیریئر تبدیل کرنے کے لیے کونسلنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں جہاں پروفیشنل کیریئر کونسلنگ کی سہولت ابھی خال خال ہی دستیاب ہے، طلبہ اپنے والدین، اساتذہ اور دوستوں سے اپنے مستقبل کے بارے میں بات چیت کر لیا کریں تو انہیں اپنے رجحان، دلچسپیوں، خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں کچھ نہ کچھ اندازہ ہو جائے گا۔ اس کے بعد طلبہ کو اپنے بارے میں رائے قائم کرنے میں خاصی مدد ملے گی۔ والدین اور اساتذہ کو موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق کیریئرز اور ان کے لیے درکار مہارتوں اور تعلیمی قابلیت کے بارے میں آگاہی دینا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ سکول اس سلسلہ میں نہایت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے سربراہان اپنے اداروں میں کم از کم ایک استاد کو کیریئر کونسلنگ کی ابتدائی تربیت دلوا دیں تو طلبہ اپنے مستقبل کے بارے میں بے یقینی کی کیفیت سے بڑی حد تک باہر نکل سکتے ہیں۔ میں بہت پر امید ہوں کہ بے انتہا ٹیلنٹ کی حامل ہماری نوجوان نسل کو درست سمت پر ڈال دیا جائے تو پھر کائنات کی بے کراں وسعتیں ان کی منتظر ہوں گی۔ ان شاء اللّہ۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.