انعام الحسن کاشمیری
ابتدائی سطور
میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا جب ٹارزن کی پہلی کہانی لکھی۔ جو کاپی مجھے سکول کا کام کرنے کے لیے والد صاحب نے لے کر دی تھی، اس پر میں نے یہ طویل کہانی اتار دی۔ دو سطریں چھوڑ کر لکھا ۔ سمجھ رہا تھا اسی طرح لکھا ہوا چھپتا بھی ہے۔ دس صفحات پر پورا اترنے والی کہانی شاید اسی وجہ سے پوری کاپی میں سمادی ۔ نویں جماعت میں پہنچ کر شعوری سطح تھوڑی سی بلند ہوئی تو افسانے لکھنا شروع کیا۔ ان کا موضوع جواب عرض اور اداب عرض کے قارئین بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ 1998ء میں فرسٹ ائیر میں ایف ایس سی کے مضامین تو رکھ لیے، لیکن ذہن ادبی تخلیقات ہی کی جانب مائل تھا۔ سائنس کے مضامین پڑھتا اور ادبی تحریریں لکھتا۔ اسی برس پہلا باقاعدہ افسانہ سیارہ ڈائجسٹ میں شائع ہوا۔ پھر ایک سلسلہ اگلے چند برس تک جاری رہا۔ یہاں تک کہ فروری 2005 ء میں اپنے شوق کے تحت اردو ڈائجسٹ میں ملازمت شروع کرتے ہوئے صحافتی کیریئر کا کاباقاعدہ آغاز کیا جو کئی برس تک مسلسل عروج کی جانب گامزن رہا یہاں تک کہ نہایت کم عرصے ہی میں ایک انتہا پر پہنچ کر یہ سلسلہ پھر منقطع ہوگیا۔
اصل کہانی کا آغاز
اردو ڈائجسٹ کے لیے میں نے سیارہ ڈائجسٹ کے ایڈیٹر جناب گل نوخیز اختر کے مشورے سے شروع کیا۔ میں ایک کہانی ان کے پاس لے کر گیاتو انھوں نے مشورہ دیا اسے اردو ڈائجسٹ کے لیے لے جائو۔ میں یہاں آیا،اور سب سے پہلے جناب امین اللہ وثیر اور دیگر صاحبان سے ملاقات ہوئی۔ پھر محسن فارانی ملے۔ انھوں نے جناب عامر ہاشم خاکوانی کے پاس بھیج دیا جنھوں نے میرے داڑھی مونچھ سے صفا چٹ چہرہ دیکھ کر پوچھا کہانی آپ نے خود لکھی ہے؟ میں نے کچھ خدشات کے بوجھ تلے دبتے ہوئے اقرار میں سر ہلایا، جیسے شاید یہ قابل اشاعت نہیں۔ خاکوانی صاحب نے پنسل دیتے ہوئے ہدایت کی کہ فلاں فلاں جگہ مناسب تبدیلی کردیں۔ یہ افسانہ اگلے ماہ کی اشاعت میں شامل ہوا اور میری باقاعدہ صحافتی زندگی کی بنیاد ثابت ہوا ۔
اختتام سے آغاز
اردو ڈائجسٹ میں میرا پہلا افسانہ اختتام کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس کا یہ دلچسپ عنوان میرے لیے نہایت نیک شگون ثابت ہوا ۔ اگلے ماہ میں اردو ڈائجسٹ کا اعزازی شمارہ لینے پہنچا تو دفتر کی راہداری میں ٹہلتے صدر مجلس جناب ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی سے ملاقات ہوگئی۔ دراز قد، بھرا ہوا جسم،مضبوط کاٹھی، ہاتھ میں لاٹھی، آنکھوں پر عینک جس کے عقب سے چھلکتی ہوئی ذہانت ۔ مجھے سے آنے کا سبب دریافت کیا ۔ میں نے افسانے کی اشاعت کے متعلق عرض کیا تو متحیر ہوئے ۔ مجھے لیے اپنے دفتر میں پہنچے۔ چائے منگوائی اور پھر گفتگو کا سلسلہ چل نکلا۔ انھیں یہ افسانہ بے حد پسند آیا تھا۔ مجھے ہدایت کی کہ آئندہ بھی ایسے افسانوں کی اشاعت کے لیے اردو ڈائجسٹ کے صفحات حاضر ہیں۔ اس کہانی کا مشاہرہ غالباً 400 روپے ملا۔ تعلیمی مصروفیات کے باعث اگرچہ میں نے بہت کم لکھا، لیکن جو بھی لکھا وہ ڈاکٹراعجاز حسین قریشی نے بڑی محبت سے اردو ڈائجسٹ میں شائع کیا۔ یہی وجہ تھی کہ جب میں ایک بڑی فیکٹری میں پہلے سپروائزر اور پھر مین سٹور کے انچارج کی چند ماہ پر مبنی ملازمت سے اوبھ گیا اور دل چاہا کہ اپنے دیرینہ شوق کی تکمیل کی جانب پلٹوں، تو میرا ماتھا جس صحافتی ادارے کی دہلیز پر ٹکا، وہ اردو ڈائجسٹ ہی تھا۔ فروری 2005ء میں میں اس مہتم بالشان ادارے سے منسلک ہوا۔
ایک عظیم جوہری کی رہنمائی
جناب ڈاکٹراعجاز حسن قریشی نے مجھے ہر ماہ ایک تازہ افسانہ لکھنے، سینکڑوں کتابوں پر مشتمل ادارے کی لائبریری کو ترتیب دینے اور ہر اتوار کو اخبارات میں اشاعت پذیر تبصروں کی مدد سے نت نئی کتابوں کی خریداری کی ذمہ داریاں تفویض کیں۔ لائبریری کی ترتیب چند ہی دنوں میں مکمل ہوگئی۔ افسانہ بھی لکھ دیا ۔ نئی کتابوں کی خریداری اکا دکا کی جانے لگی۔ اس طرح میر اکام تیزی کے ساتھ نمٹ تو گیا لیکن مہینے کے باقی دنوں کے لیے میرے پاس کرنے کو کچھ نہیں تھا اور یہ خطرے سے خالی نہ تھا کہ کوئی بھی ادارہ فارغ بیٹھے رہنے کی تنخواہ ادا نہیں کرتا۔ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی تو بالکل بھی نہیں کہ جنھوں نے اپنے بھائیوں الطاف حسن قریشی ودیگر کے ہمراہ زندگی کی مشکلات و مصائب کا بڑی شدت کے ساتھ سامنا کیا اور پھر عملی زندگی کی بنیاد صفر سے شروع کرتے ہوئے ایک عظیم ادارے کی بنیاد رکھنے کے لائق ہوئے۔ وہ ایک ایسے جوہری تھی جو کسی بھی ہیرے کو ایک نظر میں دیکھتے ہی اس کی اہمیت، حیثیت اور قیمت کا اندازہ کرلیتے اور پھر اسے تراش خراش کر دنیا کے سامنے پیش کردیتے۔ وہ ان ہیروں کو اپنی تجوری میں سجا کر چھپا کر رکھنے کے ہرگز قائل نہ تھے۔ جس کو اپنے ادارے کے لیے موزوں خیال کرتے ، خواہ وہ اس شعبے میں نووارد ہی ہوتا، اسے ضرور موقع فراہم کرتے اور پھر کچھ ہی عرصے بعد اسے اگلی سمت روانہ کردیتے تاکہ وہ اس تجوری میں سجا میلا کچیلا ہی نہ ہوتا رہے بلکہ ہاتھ سے ہاتھ میں ہوتا ہوا اپنی قیمت بڑھاتا چلاجائے۔ اپنی دنیا آپ پیدا کرتا چلاجائے یعنی عروج کی جانب منازل طے کرتا چلا جائے۔ڈاکٹر صاحب کی اس خداداد صلاحیت کا معترف ادارے سے منسلک ہر فرد بخوبی رہا۔
قدرت کی فیاضانہ پھوارکااگلاقطرہ
میرے لیے اب کرنے کو مزید کوئی کام نہ تھا۔ یہ ایک طرح سے خطرے کی علامت تھی۔ مارچ میں بسنت کا غلغلہ بلند ہوا۔ بلندآہنگ قہقہے گونجے، ہوائی فائرنگ کی تڑتڑاہٹ میں پتنگوں اور گڈوں سے سجا آسمان اور زیادہ رنگیلا ہوا۔ کہیں خوشیوں کی پھوار برسی اور کہیں ڈور سے گلے کٹنے والوں کے گرم گرم لہو سے فضا بوجھل ہوئی۔ اچھرہ ، فیروز پور روڈ پر ایک کٹی پتنگ سے لٹکی ڈور سے ٹرانسفارمز میں آگ کے شعلے بھڑکادیے جو پھیلے اور پھر سینکڑوں دکانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس واقعہ نے مجھے راستہ سجھایا اور میں نے اپنے لیے ایک نیا کام تلاش کرلیا۔ ڈاکٹراعجاز حسن قریشی کی نظرشناسی نے میرا حوصلہ بڑھایا۔ یوں میں قدرت کی مہربانیوں کی پھوار میں نہانے لگا اور پھر نہاتا ہی چلا گیا۔
( یادداشتیں قلم بند کرنے کا مقصد اپنے لیے سہولت و آسانی کی بہم رسانی ہے۔ یہ فیس بک کے فرینڈز کے ٹک ٹاک ذہن پر بوجھ بنانے کے واسطے تحریر نہیں کی جارہی ۔ مختلف ویب سائٹس، اداروں وغیرہ سے منسلک افراد کا اصرار ہے کہ عملی زندگی کے متعلق انٹرویو دیں، یادداشیں لکھ کر دیں۔ ایک نشست میں کسی کے واسطے مسلسل لکھنا، ذہن پر بوجھ دے کر ماضی کو کھنگالنا
نوک پلک سنوارنا ، اور پھر اسے تحریر کے قالب میں تراشنا ازحد مشکل ہے۔ پھر میرے جیسے فرد کے لیے ، جس کی روح ہر لمحہ بے چین رہتی ہواور جو ہرجگہ بھٹکتا پھرتا ہو، یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ خود لکھے اور خوب لکھے ۔ چناں چہ ایک جانب یہ یادداشتیں اس سہولت کاری کے واسطے مرتب کی جارہی ہیں ، تو دوسری جانب انھیں مرتب کرکے دراصل اپنے لیے محفوظ کیاجارہاہے۔ یہ محض یادداشتیں ہی نہ ہوں گی کہ جن کا مطالعہ کوفت کا باعث بنے، یا جن کے ذریعے اپنی اہمیت جتائی جائے اور بتانے کی کوشش کی جائے کہ یہ خاکسار دنیا سے الگ تھلگ ایک ایسا انسان ہے، جسے قدرت نے خاص وقت میں تراشاخراشااور پھر اسے دنیا میں بھیج دیا تاکہ وہ اپنی صلاحیت اور قابلیت کی دھاک اپنے جیسوں پر بٹھا سکے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جب ماضی پر نظر دوڑاتا ہوں ، کہیں بھی اپنا وجود دکھائی نہیں دیتا۔ بس یوں معلوم ہوتاہے، کسی غیرمرئی قوت نے میراہاتھ اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا، اور وہ کسی ننھے بچے کی طرح قدم قدم چلاتی رہی۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ یہ غیرمرئی قوت غائب ہوگئی اور میرا وجود ڈولنے لگا۔۔ڈولتے ڈولتے یہ گرا اور کسی مٹی کے مجسمے کی طرح ٹوٹ کر کرچیوں میں بکھر گیا۔۔۔۔اب اس بکھرے وجو کو سمیٹنے کی کوشش کرتا ہوں تو اور زیادہ بکھر جاتاہوں۔۔۔پھر یہ سوچ کر اپنے ہاتھ کھینچ لیتا ہوں کہ وجود کو کرچیوں ہی میں بکھرا رہنے دو کہ اس طرح اسے اپنی اوقات کا احساس تو باقی رہے گا۔ کرچیاں سمیٹ کر پھر سے انھیں وجود کا روپ دینے کی کوشش کی تو یہ ایک بار پھر کسی غیرمرئی قوت کی تلاش میں سرگرداں سرپھٹول کرے گا۔کوئی ایک بھی اسے سمجھا نہ پائے گا کہ وہ دور لد گیا، وہ زمانہ بیت گیا، وہ مہربانیاں و فیاضیاں کسی خاص وقت کے لیے مخصوص تھیں، اب اپنا جہاں تم خود تراشو کہ ایسا ہونا اب ممکن نہیں۔۔۔بالکل ہی ممکن نہیں۔۔۔)
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.