حمیراعلیم
جب میری شادی ہوئی تو میں جاب کر رہی تھی اس لیے دو ماہ کی چھٹی لے لی۔لیکن میاں کے آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے کی وجہ سے صرف دو دن کی چھٹی ملی۔اب میں گھر پہ اپنے سسرال کے ساتھ ہوتی اور میاں صاحب آفس میں ۔اسی دوران میری نند نے زیارت جانے کا پروگرام بنایا۔ہر سال جب ان کے بچے چھٹیوں میں ان کےگھر کوئٹہ میں اکھٹے ہوتے ہیں تو وہ لوگ زیارت ضرور جاتے ہیں ۔ انہوں نے مجھے اور میرے شوہر کو بھی چلنے کا کہا۔مگر جون کے آخری دنوں میں آڈٹ والوں کی سختی آئی ہوئی ہوتی ہے اور کبھی کبھار تو رات کے 12 بجے واپسی ہوتی ہے۔اس لئے انہیں چھٹی نہ ملی۔ لیکن مجھے بھیج دیا کہ تم گھر پر بور ہوتی ہو گی جاؤ ان کے ساتھ تھوڑا گھوم پھر آو۔میں، جیٹھانی اور ان کا بیٹا آپی کی فیملی کےساتھ زیارت جانے کے لیے تیار ہو گئے۔
جب میں نے ان سے پوچھا” زیارت کیسا ہے ؟” تو سب نے بولا جیسے مری ہے۔میں نے سوچا چلو پھر ٹھیک ہے۔اور دو جوڑے کپڑے بیگ میں ڈالے اور ان کے ساتھ روانہ ہو گئی۔کوئٹہ سے زیارت کا رستہ تقریبا اڑھائی گھنٹے کا ہے۔ یہ میرا بلوچستان میں پہلا بائی روڈ سفر تھا۔اور مری کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں منتظر تھی کہ اب سرسبز پہاڑ اور آبشار یا جھرنے نظر آئیں گے۔مگر سارے راستے میں نہ تو زیادہ آبادی تھی نہ ہی سبزہ کوئٹہ سے باہر نکلے تو خوبانی آلو بخارے اور سیب کے کچھ باغات ہیں چھوٹے چھوٹے بچے برتنوں میں پھل لئے سڑک کنارے کھڑے تھے۔گاڑی روک کر ان سے پوچھا تو 30 روپے میں پورا برتن بھر پھل بیچ رہے تھے۔ہم نے خوبانیاں خرید لیں جو نہایت میٹھی اور لذیذ تھیں ۔بہت زیادہ فاصلے پر چند کچے گھر تھے اور مکمل ویرانہ نہ کوئی مارکیٹ نہ ہی ریسٹورنٹ وغیرہ۔ایک جگہ سڑک پر کم از کم چھ سے آٹھ فیٹ کا سیاہ سانپ لیٹا استراحت فرماتا نظر آیا تو گاڑی میں بیٹھے ہونے کے باوجود جان پی نکل گئی۔
زیارت شہر کی حدود شروع ہوئیں تو پہاڑوں پر ٹنڈ منڈ جونیپر (صنوبر) کے درخت نظر آئے۔میں نے پوچھا تو پتہ چلا یہ درخت نہیں فوسلز ہیں جو ہزاروں سال سے یہاں موجود ہیں اس لیے ان کی اس قدر بری حالت ہے۔ اور یہ ایشیا کا سب سے بڑا جونیپر کا جنگل ہےیہ سن کر تو خوشی ہوئی۔ مگر اس جنگل کی دیکھ بھال کا کوئی انتظام نہیں جس کی وجہ سے یہ تباہ و برباد ہو رہا ہے۔اپنے ملک کے حکمرانوں کی غفلت پر افسوس بھی ہوا۔
اللہ اللہ کر کے زیارت پہنچے تو ایسا لگا کسی چھوٹے سے گاؤں میں آ گئے ہیں تین چار چھوٹی چھوٹی سی دکانوں پر مشتمل بازار ایک چھوٹا سا بس اسٹاپ اور چھوٹی سی سڑک جس پر کہیں کہیں کچے پکے گھر دکھائی دے رہے تھے۔معلوم ہوا بنگلے یا تو گورنمنٹ آفیسرز کی سرکاری رہائش گاہیں تھے یا بڑے بڑے سرداروں وغیرہ کے گھر جو انہوں نے تفریح کے لیے یہاں آنے پر رہائش کے لیے تعمیر کروائے تھے۔
ہمارا قیام پاکستان ٹورازم کے ہوٹل میں تھا۔میرے ذہن میں مری اور اسلام آباد کے ہوٹلز تھے۔جب ہوٹل کے نام پر ایل شیپ میں چند کمرے اور تین چار چھوٹے چھوٹے سے لانز دیکھے تو خاصا شاک لگا۔بہرحال ہم نے کون سا ساری زندگی وہاں رہنا تھا۔ مجھے عادت ہے کہ چاپے ایک گھنٹے کے لیے بھی باہر جاؤں واپسی پہ شاور لازمی لیتی ہوں ۔سو عادت سے مجبور ہو کر، جب سب اپنا سامان کمروں میں سیٹ کر رپے تھے، میں نے باتھ روم کا رخ کیا۔مزے سے شاور کھولا تو پہلی پھوار پڑتے ہی چودہ طبق روشن ہو گئے۔جون کے مہینے میں بھی پانی ایسے ٹھنڈا تھا جیسے دسمبر میں ۔
شاور لےکر باہر آئی تو آپی ( نند کو سب آپی کہتے ہیں ) نے بتایا کہ :”یہاں گیس نہیں اس لیے پانی گرم کرنے کے لیے لکڑی والے گیزر استعمال ہوتے ہیں اور ابھی ہوٹل کی انتظامیہ سے کہہ دیا تھا کہ گیزر چلا دیں ۔مجھے تمھیں بتانا یاد ہی نہیں رہا کہ پانی ٹھنڈا ہو گا۔”میں نے کہا :”کوئی بات نہیں ۔”جب سب فریش ہو گئے لنچ کر لیا گیا اور سب برآمدے میں کرسیوں پر بیٹھ کر گپ شپ لگانے لگے تو میں نے فرمائش کی :”اب ذرا مال تک چلیں۔”ایک زوردار قہقہہ پڑا سب ہنس رہے تھے اور میں ہونق بنی انہیں دیکھ رہی تھی۔آخر مشکل سے ہنسی روک کر آپی
نے مطلع کیا۔” یہاں کوئی مال روڈ جیسی سڑک یا بازار وغیرہ کچھ بھی نہیں ہے۔بس قائداعظم کی ریزیڈنسی ہے اور ایک دو چیری کے باغات یا کچھ پہاڑ۔شام میں چلیں گے وہاں ۔”
سن کر خاصی مایوسی ہوئی ۔مگر پھر قائد اعظم کی تاریخی رہائش گاہ جو کہ بچپن سے پی ٹی وی پر بلوچستان کی علامت کے طور پر دیکھتے آ رہے تھے دیکھنے کا سوچ کر کچھ ایکسائٹمینٹ محسوس ہوئی۔شام کی چائے پی کر ریزیڈنسی گئے۔ایک لکڑی سے بنی شاندار عمارت جو کہ خوبانی ، اخروٹ اور مختلف پھلوں میں گھری ہے۔اور لان بھی سبزے سے بھرے ہیں ۔اپنی بچپن کی عادت سے مجبور ہو کر یہاں درخت پہ تو نہ چڑھ سکی۔بچپن سے ہی اپنے اور خالہ کے گھر میں جامن، آم، مالٹے، امرود اور بیری کے درخت کی سب سے اوپری شاخ پر چڑھ کے پھل کھانا میرا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے۔مگر اب بحیثیت ممانی اور بھابھی ذرا سنجیدگی اختیار کرنا میری مجبوری تھی دوسرے ریزیڈنسی میں اور بھی بہت سی فیملیز تھیں تو مووی کیمرے سے مووی بنانے پر ہی اکتفا کیا اس وقت نوکیا کا اسمارٹ موبائل تو تھا میرے پاس لیکن اس کی میموری اتنی زیادہ نہیں ہوتی تھی اس لیے کیمرے سے ہی موویز بنائی جاتی تھیں۔مگر آپی کے بیٹے نوفل سے فرمائش کر کے خوبانیاں اور چیریز اتروا کر کھائیں ۔
ریزیڈنسی کے اندر داخل ہونے لگے تو کئیر ٹیکر نے کہا :” جوتے اتار کر اندر جانا ہوگا۔”سب نے جوتے اتارے اور اندر چلے گئے۔نیچے کے فلور پر قائداعظم کے ڈرائنگ اور ڈائننگ رومز تھے جن میں ان کے استعمال کا سارا فرنیچر بالکل ایسے رکھا گیا تھا جیسے قائد ابھی بھی وہیں رہ رہے ہوں ۔مجھے ان کے آتشدان میں استعمال ہونے والی لکڑی رکھنے کا میٹل کا اسٹینڈ بیحد پسند آیا۔گیلری اور کمروں میں قائد اعظم اور فاطمہ جناح کی دوسری تاریخی شخصیات کےساتھ تصاویر لگی تھیں ۔اوپر کے فلور پر قائد اعظم اور فاطمہ جناح کے بیڈ رومز تھے۔جن میں ان کے ذاتی استعمال کی کچھ اشیاء جیسے کپڑے جوتے وغیرہ بھی موجود تھے۔ایک بات کا افسوس تھا کہ اندر جا کر ان چیزوں کو چھو نہیں سکتے کیونکہ دروازے نہ صرف لاکڈ تھے بلکہ ایک چین یا رسی ان سے تقریبا دو فٹ کے فاصلے پر بندھی تھی تاکہ لوگ کمرے کے بالکل نزدیک نہ جائیں صرف کھڑکیوں سے ہی اندر دیکھنے کی اجازت تھی۔
گیلری پر رسی بندھی دیکھ کر آپی کی پانچ سالہ نواسی نے پوچھا۔” ماما !کیا قائداعظم ان رسیوں پر اپنے کپڑے سکھاتے تھے؟” اور سب اس کے اس معصوم اندازے پر مسکرا اٹھے۔یہاں زیادہ دیر تک رکنے نہیں دیا جاتا ایک وقت میں ایک فیملی سیر کرتی ہے اس لیے اسے جلدی واپس جانا پڑتا ہے تاکہ دوسرے لو گ بھی اندر جا سکیں ۔دوسرے اندھیرا بھی پھیل رہا تھا اور مغرب کے وقت ریزیڈنسی بند کر دی جاتی ہے اس لیے یہاں سے نکل کر ہم واپس ہوٹل چلے گئے۔اب تو یہ تاریخی ورثہ بھی تخریب کاری کی نذر ہو گیا۔راکٹ لانچرز کے حملے میں ساری ریزیڈنسی جو کہ لکڑی کی بنی تھی جل گئی۔اگرچہ اس کی دوبارہ تعمیر تو کر دی گئی ہے مگر اب یہاں کچھ بھی اوریجنل نہیں ہے۔
رات کا کھانا کھا کر سب سو گئے۔صبح ناشتے کے بعد کچھ پہاڑیوں پر گئے۔ایک جگہ درخت کی شاخیں کچھ اس انداز میں بڑھی ہوئی ہیں کہ اللہ بنا ہوا ہے ۔اسی پہاڑ کے سامنے دیکھیں تو کلمہ لکھا ہوا ہے۔پھر کسی چشمے کا رخ کیا مگر پتہ چلا کہ مقامی لوگوں نے اس طرف جانے کا رستہ سیاحوں کے لئے بند کر دیا ہے۔اس لیے مری کی پہاڑیوں جیسے بل کھاتے کچے رستے پر اوپر جا کے واپس نیچے آ گئے۔یہاں بھی صرف جونیپر تھے یا کچھ جنگلی جھاڑیاں جن میں چھوٹےچھوٹے جنگلی جانور تھے۔واپس ہوٹل پہنچے تو ایک نیا نویلا شادی شدہ جوڑا لان میں بیٹھا تھا۔دلہن اٹھ کر ہمارے پاس آئیں اور کہنے لگیں ” آپ لوگ یہاں سیر کرنے آئے ہیں؟ ” ہمارے اثبات میں جواب دینے پر گویا ہوئیں ۔” اصل میں ہم ہنی مون پر آئے تھے اور ہمیں امریکہ واپس جانا ہے۔ابھی ایجنٹ کا فون آیا ہے کہ ہماری صبح کی فلائٹ ہے تو ہم واپس جا رہے ہیں مگر ہمارا کمرہ آرمی میس میں بک ہے اگر آپ مناسب سمجھیں تو وہاں ٹھہر جائیں ۔”
کمرے تو ہمارے پاس ہوٹل میں تھے مگر ہم نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں کوئی حرج نہ سمجھا اور سب لڑکیاں اور بچے آرمی میس میں چلے گئے۔یہ بلڈنگ زرا اونچائی پر اور اونچے نیچے زمین کے قطعات پر بنی ہے۔کمرے بڑے بڑے اور صاف ستھرے تھے۔کمبل بیڈ شیٹس بھی صاف تھیں اور الیکٹرک ہیٹر اور گیزرز بھی تھے۔
موبائل کے سگنلز کا ذرا مسئلہ ہوتا ہے زیارت میں مگر سب سے بات چیت ہو ہی رپی تھی۔میری ایک دوست نے فون کیا تو بار بار کال ڈراپ ہونے پر پوچھا کیا مسئلہ ہے۔میں نے بتایا کہ زیارت آئی ہوئی ہوں ۔فورا سے پوچھا گیا ” ہنی مون پر؟” میرے انکار پر اور یہ بتانے پر کہ نہیں نند کی فیملی کےساتھ ۔اس نے ایک لطیفہ سنایا جو مجھے آج بھی نہیں بھولا۔کہنے لگی۔
“دو نئے شادی شدہ سکھ دوست ملے تو ایک نےدوسرے سے پوچھا ہنی مون پر نہیں گئے؟ ایک سکھ بولا ” میں نے ہنی مون کے آدھے پیسے بچا لیے اور اکیلا ہنی مون پر ہو آیا۔” دوسرا بولا” میں نے تو پورے ہی پیسے بچا لیے۔میرا ایک دوست ہنی مون پہ جا رہا تھا میں نے بیوی کو اس کے ساتھ بھیج دیا۔” تو تمھارے میاں نے بھی پورے پیسے بچا لیے اور تمھیں نند کی فیملی کےساتھ بھیج دیا۔
رات آرمی میس میں گزار کر صبح واپس ہوٹل گئے ناشتہ کیا اور کچھ باغات کی سیر کی اور واپسی کے لیے روانہ ہو گئے۔چیری کا سیزن تھا اس لیے ہم نے باغوں میں سے کچی پکی چیریز توڑ کر کھائیں ۔پورے پاکستان میں زیارت کی چیری مشہور ہے۔واپسی میں ایک پہاڑ سے نکلنے والی آبشار کے پانی پر بنی بڑی سی ندی میں تربوز ٹھنڈا کر کے کھایا اور پانی میں پاؤں ڈال کر بیٹھے بھی۔پانی نہ صرف صاف شفاف تھا بلکہ ٹھنڈا اور میٹھا بھی تھا۔لڑکے تو نہائے بھی۔
جب کوئٹہ میں داخل ہوئے اور گھر کے نزدیک پہنچے تو چیریز اور تربوز نے اپنا رنگ دکھایا اور مجھے فوڈ پوائزننگ ہو گئی۔تو زیارت کو سفر کئی لحاظ سے یادگار تھا۔ایک یہ بھی کہ تین دن تک وامیٹنگ اور بخار ہی ٹھیک نہ ہوا۔مگر یہ ایک ایسا فیملی ٹرپ تھا جو میری زندگی کی خوشگوار یادوں میں بہترین اضافہ ثابت ہوا۔اگر آپ قدرتی نظارے اور پر فضا مقام پسند کرتے ہیں تو زیارت ضرور جائیں مگر گرمیوں میں کیونکہ جون جولائی میں بھی یہاں ٹھنڈ ہوتی ہے۔اور سردیوں میں میں اس لئے ریکمینڈ نہیں کروں گی۔کیونکہ برفباری کی وجہ سے نہ صرف رستے بند ہو جاتے ہیں بلکہ پانی اور بجلی بھی غائب ہو جاتے ہیں اور گیس تو وہاں ہے ہی نہیں ۔امید ہے آپ بھی دوستوں یا فیملی کےساتھ زیارت کا ٹرپ انجوائے کریں گے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.