اکیسویں صدی میں پیشہ ورانہ مہارت اور بامقصد تعلیم/ تحریر: فرحانہ مختار

اکیسویں صدی میں پیشہ ورانہ مہارت اور بامقصد تعلیم/ تحریر: فرحانہ مختار

تحریر: فرحانہ مختار

تیزی سے بدلتے وقت اور انفارمیشن کے سیلاب نے مقصدیت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ تعلیم معلومات کو ذہن میں جذب کرنے یا کاغذ پر چھاپ کر نمبر لینے کا نام نہیں۔
تعلیم کا مقصد راستہ دکھانا اور روشنی کرنا ہے۔ سوچ کے در وا کرنا اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہے۔
تعلیم و تدریس کے عمل کو اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہو گا تاکہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس، انفارمیشن ٹیکنالوجی کو تعلیمی میدان میں بطریقِ احسن استعمال کیا جا سکے۔

جدید دور کی تعلیمی، معاشی، معاشرتی، ضروریات سے نبرد آزما  کرنے کے لئے آج کے معلم کو اپنی “تعلیمی فلاسفی” کو ازسرِ نو ترتیب دینا ہوگا۔ اس ضمن میں جدید دور کے حالات و واقعات اور ضروریات کے پیشِ نظر معلم کو اپنے فرائض  کو بھر پور انداز سے سوچنا اور سمجھنا ہوگا۔ معلم کو جائزہ لینا ہوگا کہ وہ کیوں پڑھا رہا ہے؟ کیا پڑھا رہا ہے؟  طلباء کو کتاب پڑھانا چاہتا ہے یا نئی راہیں اور منزلیں دکھانا چاہتا ہے؟ کتابوں کے لفظ دھرانا چاہتا ہے یا لفظوں میں چھپی ذندگی سکھانا چاہتا ہے؟ یقیناً اس تدبر کے بعد معلم اپنے فرائض سے بخوبی آگاہ ہو جائیں گے۔

کمرۂ جماعت میں داخل ہوں تو مقصد سبق یا مشق کو مکمل کرانا نہ ہو بلکہ اہم ہے کہ ہر عمر کے “بچوں کی نفسیات” کا بخوبی علم ہو۔ طلباء کی عزت نفس کا خیال رکھا جائے، انہیں سنا جائے اور سوال کرنے کا اختیار دیا جائے۔ بچوں سے علم و حکمت کی بنیاد پہ مضبوط تعلیمی و تدریسی تعلق قائم کیا جائے۔ خاص طور پر طلباء کی عمر کے لحاظ سے آسان فہم انداز میں گفتگو کے زریعے  “زندگی کا مقصد” واضع کیا جائے۔ مقصد کی تکمیل کے لئے لائحہ عمل مرتب کرنے اور جدوجہد کرنے کی ترغیب دی جائے۔ ملک پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے معلم کو اپنے تمام طلباء کو محض “ڈگری لے کر نوکری کی تلاش” جیسے نامناسب خواب سے جگا کر تخلیق، تجارت اور کاروبار کرنے کی طرف مائل کرنا ضروری ہے۔

معلم جس شعبے میں بھی خدمات سر انجام دے رہا ہو، یہ جدید دور کی اہم ضرورت ہے کہ طلباء کی “تحقیقی و تخلیقی صلاحیتوں” کو بھر پور طریقے سے اجاگر کرے۔ اس ضمن میں جامعات کا کردار اہم ہے۔ معلم اپنے طلباء کو محض پراجیکٹ نہ دیں بلکہ اپنے اپنے شعبے میں کچھ تخلیق کر کے مارکیٹ کرنے جیسے اہم کام کی رہنمائی کریں۔
عصرِ حاضر اور پاکستان کے معاشرتی و معاشی حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ تمام سکولوں اور جامعات میں عمر کے لحاظ سے طلباء کو کوئی “ہنر یا کاروبار” کرنے کی مہارت لازمی دی جائے۔
“جدید کتب اور تحقیقی جرائید” کا مطالعہ لازمی قرار دیا جائے، تا کہ معلم اور طلباء، تمام دنیا میں جاری تحقیق اور جدید علوم سے روشناس ہو سکیں۔

معلم جب کمرۂ جماعت میں داخل ہو تو سبق اور اس کی اپنی ذات سے اہم وہ اذہان ہوں جو کچھ نیا سیکھنے کے متلاشی ہوں اور وہ آنکھیں ہوں جو مستقبل کے لئے با مقصد اور تخلیقی خواب سجائے ہوں۔ طلباء کی “سوچ و فکر، تخلیق و تحقیق اور فہم و فراست” کو سبق مکمل کرنے پر اولین ترجیح دی جائے۔ ہر سبق سے متعلق مہارت و ہنر دینے کی کوشش کی جائے تا کہ طلباء کی “ذہنی و جسمانی نشو ونما” کے ساتھ اخلاقی و سماجی تربیت بھی ممکن ہو سکے۔ ہر سبق کو محض کتاب سے پڑھا نہ جائے بلکہ طلباء کی رہنمائی کی جائے کہ اس سبق سے حاصل شدہ معلومات کو حقیقی زندگی میں کیسے استعمال کیا جائے۔
معلم روحانی والدین تصور کیے جاتے ہیں، لہذا اہم ہے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے طلباء  کی “تربیت” پر بھی بھر پور توجہ دیں۔ آج معاشرے میں پھیلی نا انصافی، بد دیانتی اور اخلاقی پستی کو دور کرنے کے لئے بھی معلم کو فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔ عمر یا جماعت کے لحاظ سے طلباء کو نماز کا پابند کرنے کے لئے کوشش کرنی ہو گی۔ مزید برآں، طلباء کی اخلاقی و معاشرتی تربیت کرنی ہو گی۔

جدید دور میں “آرٹیفیشل انٹیلیجنس” اور روبوٹکس نے ہر میدان میں قدم رکھ دیا ہے۔ معلم بھی چیٹ جی-پی-ٹی اور اس جیسے دوسرے پروگرامز سے مدد لے کر اپنے تدریسی عمل کو مزید موثر و کارآمد بنا سکتا ہے۔ مثلا” لیسن پلان، اسائنمنٹ کا عنوان، تصاویر یا کسی بھی سبق سے متعلق تفصیلی مضمون وغیرہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
معلم، کمرہءجماعت کا بادشاہ ہے۔ وہ اپنی فہم و فراست سے نئی نسلوں کی تعلیم و تربیت اگر اعلی انداز سے کرے تو معاشرہ بہتری کی راہ پہ گامزن ہو سکتا ہے۔ ہمیں بحیثیت معلم اب یہ ذمہ داری بلند عزم و حوصلے سے لینی ہو گی کیونکہ ملک کو معاشی و معاشرتی ہر لحاظ سے مثبت سوچ رکھنے والے اعلی اخلاق و اقدار کے حامی ہنر مند افراد کی اشد ضرورت ہے۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.