“اپنے دسترخوان کی نمائش نہ لگائیے۔” انگبین عُروج،کراچی۔

You are currently viewing “اپنے دسترخوان کی نمائش نہ لگائیے۔” انگبین عُروج،کراچی۔

“اپنے دسترخوان کی نمائش نہ لگائیے۔” انگبین عُروج،کراچی۔

انگبین عُروج،کراچی۔

نبی آخرالزماں حضرت محمدﷺ نے اپنی امت کو تاکید کی ہے،جس کا خلاصہ ہے کہ اچھے پکوان بنائیں تو اپنے پڑوسیوں کو ضرور بھیجیں اور اگر اس قدر استطاعت نہ ہو تو احتیاط کریں کہ اُس کھانے کی خوشبو بھی آپ کے پڑوسی کے گھروں تک نہ پہنچے!!

بحیثیتِ مجموعی ہم ایک ایسی قوم تو بن ہی چکے ہیں جن کا دین،ایمان،مذہب سب کچھ کھانا،کھانا اور محض کھانا ہی رہ گیا ہے۔قیامت کی نشانیوں میں ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ایک خوان اٹھے گا اور دوسرا سج جاۓ گا اور فی زمانہ یہ نشانی اس قدر عام ہو گئی ہے کہ قیامت پاس ہی کھڑی محسوس ہوتی ہے،انا للہ وانا الیہ راجعون!!

اُمتِ مسلمہ کی جو حالت ہے،جس کیفیت سے ہمارے مسلمان بہن بھائی اور نبیﷺ کے امتی گزر رہے ہیں کیا ہم جان کر بھی انجان نہیں بنے بیٹھے ہیں؟؟کہیں بھوک سے روتے بلکتے معصوم بچے گھاس کھا کر بھوک کو جھوٹے دلاسے دے رہے ہیں تو کہیں دو دو ماہ سے ہمارے بہن بھائیوں نے روٹی کی شکل نہیں دیکھی۔ان کے پیٹ روٹی کا ذائقہ تک بھول گئے ہیں۔

چلیے فلسطین اور کشمیر کو ہم کیوں روئیں،ان کے لیے رونے والے ڈیڑھ ارب مسلمان بھی تو گہری نیند سو ہی رہے ہیں اور پھر ہم تو سوشل میڈیا پر بلاناغہ درجنوں کے حساب سے ان پر مظالم اور تشدد کی ویڈیوز شیئر کر ہی رہے ہیں،ہمارا کام اس سے زیادہ بھلا اور کیا ہو سکتا ہے!!

اپنے ملک کے ابتر حالات پر ہی نظر ڈال لیجیے،کتنے لوگ ہیں جو آپ کا پرتکلف دسترخوان دیکھنے کی تاب لا سکتے ہیں؟؟مساکین،سفید پوش عوام تو دور متوسط طبقے کے سیکڑوں لوگ بھی آپ کا طویل سجا سجایا دسترخوان دیکھ کر اپنی کم نصیبی پر شکوہ کرتے ہیں،رب کی عطا کردہ نعمتوں کی ناشکری کے مرتکب ہوتے ہیں!!

مانا کہ اس ملک میں اشرافیہ اور عیش و عشرت میں بدمست لوگوں کی کمی نہیں۔مہنگائی اور بے روزگاری کا رونا دھونا ایک طرف اور لمپی لمبی چمکتی دمکتی امپورٹڈ گاڑیوں سے سڑکوں کی سجی پارکنگ،شہر کے مصروف ترین چوک چوراہوں اور شاہراہوں پر مفت دسترخوانوں پر ہٹے کٹے مفت خورے،آۓ روز کھلنے والے نت نئے ریسٹورینٹس اور کھانے پینے کی سو سو کلومیٹر طویل فوڈ چین،بازاروں میں مہنگائی کا رولا پیٹتی عوام کا ایسا ہجوم کہ تِل دھرنے کو جگہ نہ ہو یہ سب ایک طرف ہے لیکن ان سب میں کہیں نہ کہیں ایسے ضرورت مند سبزی فروش،پھل کی ریڑھی لگانے والے اور کئی تنگ دست بھی ہیں جو ان ضیافتوں،پرتکلف عشائیوں کا لطف اٹھا پانا تو دور،کئی دن کے فاقہ زدہ بھوک سے روتے بلکتے بچوں کو زہر دے کر ان کی بھوک مٹانے یا رات کی تاریکی میں تیل چھڑک ان کی بھوک ہمیشہ کے لیے جلا ڈالنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے!!

بڑے بڑے ریسٹورینٹ اور کھانے پینے کے مراکز نے کیا کھانوں کی تصاویر اور بھاری بھرکم  مینیو کی کم تشہیر کر رکھی ہے،جو عوام بھی اس عجیب ذہنی مرض میں مبتلا ہو گئی ہے۔

افسوس!کہ ہم کیا کر رہے ہیں،کیوں کر رہے ہیں ہمیں اس کا شعور بھی نہیں رہا!

یہ ہیجان ہم پر کیوں کر سوار ہے اور اس کا کون سا مثبت پہلو نکلتا ہے کہ جو کچھ ہمارے دسترخوان پر ہے وہ سارا عالم دیکھے؟؟روزانہ کی بنیاد پر اپنے دسترخوان سجا کر پہلے روزے کی افطاری،دوسرے روزے کا مینیو کا کیپشن لگا کر ہم اپنے اسٹیٹس اور فیس بک اسٹوریز پر کس کو دکھا رہے ہیں اور کیوں دکھا رہے ہیں؟؟بہت سے باشعور اور اعلٰی تعلیم یافتہ دماغ کہیں گے کہ آپ کو کیا مسئلہ ہے،آپ اگنور کریں،ہمارے اسٹیٹس اور اسٹوریز نہ چیک کیا کریں،اپنے کام سے کام رکھیں وغیرہ۔

گزارش ہے کہ یہاں مسئلہ یہ ہے ہی نہیں کہ کوئی کیوں دیکھے اور کیوں سوچے۔مسئلہ یہ ہے کہ آج بنیادی ضروریات و غذائی اجناس ایک چوکیدار،سبزی فروش،بنک یا آفس کے گارڈز اور بہت سے لوگوں کی پہنچ سے دور ہیں لیکن موبائل اور سوشل میڈیا نام کی بَلا باآسانی سب کی پہنچ میں ہیں۔مسئلہ یہ نہیں کہ میں یا آپ ان تصاویر سے کتنے متاثر ہو رہے ہیں لیکن ایک چوکیدار جو دن بھر دھوپ میں کھڑا ہو کر بھی رات کے وقت مختصر سی دال روٹی کھلانے کی سکت رکھتا ہے،وہ ایسے دسترخوان دیکھ کر ضرور ذہنی اور روحانی طور پر متاثر ہو رہا ہے۔ساتھ ہی رب سے شکوہ کرنے کا مرتکب بھی ہو رہا ہے کہ کسی کو اتنا دیا ہے اور ہمیں اتنی محنت پر بھی اتنا تھوڑا رزق ملتا ہے(سوشل میڈیا کے وجود سے پہلے شاید یہ ذہنی کرب و اذیت بھی اپنا وجود نہیں رکھتی تھی) !

انسانی فطرت ہے کہ اس کے پاس کتنی ہی آسائشات کیوں نہ آ جائیں،اسے زیادہ کی طلب رہتی ہے۔کسی نفسیاتی معالج سے جا کر پوچھیں وہ آپ کو تفصیل سے بیان کرے گا کہ اس قسم کی تصاویر کس طرح ذہنی انتشار،ہوس و طلب میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔

پیغمبرِ آخر الزماںﷺ،جنہوں نے ہمیشہ لباس و خوراک میں خود بھی سادگی اختیار فرمائی اور امت کو بھی ہمیشہ سادگی کا،کم کھانے، کم بولنے اور دسترخوان پر شوربا پتلا کر کے پڑوسیوں اور  مستحقین تک پہچانے کا درس دیا۔ذراسوچیے!کیا ہمیں ایسے نبیﷺ کا امتی ہوتے ہوۓ یہ بھاری بھرکم پرتکلّف دسترخوان اور ہزاروں روپے ساٹھ ساٹھ، ستّر ستّر قسم کے کھانوں پر اڑانا زیب دیتا ہے؟کیا یہ اِسراف نہیں؟

ایسے وقت پر کہ جب امّتِ مسلمہ شدید کرب میں مبتلا ہے،صبح سے شام خوراک کے ایک ایک دانے کو ترستی ہے،حالتِ جنگ میں ہے،دربدر ہے،بچہ پچہ،ماؤں کے نومولود خوں میں لت پت ہیں،یتیمی و بے سر و سامانی کی حالت میں ہیں۔کیا ان پر ڈھاۓ جانے والے ظلم و ستم کی،کرب و اذیت کی محض ویڈیوز شیئر کر دینے سے ہم یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ہمیں ان کا کتنا دکھ اور تکلیف ہے؟؟ہرگز نہیں!!

مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں،ایک انگلی بھی کَٹ جاۓ تو جسم کا پور پور تکلیف محسوس کرے گا۔کیا یہی وہ تکلیف ہے جو دو دو گز کے لمبے چوڑے دسترخوان کی نمائش لگا کر ہم محسوس کر رہے ہیں؟؟

اس بات کو رہنے بھی دیں تو کم از کم مقدس ماہِ رمضان کے کی تعظیم و تکریم ہی کر لیں،روزے کا مقصد،اس کی روح کو سمجھ لیں۔یہ بابرکت مہینہ ہمیں بھوک و پیاس کی مشقت اور نفسانی خواہشات سے بچنے کی ترغیب دلا کر ہم میں تقوٰی پیدا کرنے کے لیے آتا ہے۔یہ ضیافتیں،افطار پارٹیاں،افطار ڈِنر بوفے اُڑا کر کون سی بھوک و پیاس کا احساس کر پا رہے ہیں ہم؟؟

فی زمانہ پروردگار نے اگر آپ کا دسترخوان ہرا بھرا رکھا ہوا ہے تو رب کی نعمتوں کا کروڑوں شکر بجا لائیں۔اُس رب کا احسانِ عظیم ہے آپ پر کہ جب بھوک،ننگ و افلاس گلی گلی مُحلّے مُحلّے ناچ رہی ہے، آپ پیٹ بھر کر سکون کی نیند سوتے ہیں۔

خدارا!ہزاروں قسم کے لوازمات سے سجے دسترخوان کی نمائشیں لگا کر اللہ کے غیظ و غضب کو دعوت نہ دیجیے۔

وما توفیقی الا بااللہ!

دعاؤں کی طلبگار،

انگبین عُروج،کراچی۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.