تحریر: عصمت اسامہ ۔

وقت کی ایک خوبی یہ ہے کہ جیسا بھی ہو ،گذر ہی جاتا ہے اور جاتے جاتے بہت کچھ سکھا جاتا ہے ۔وقت بہت بڑا معلم ہے ،اس کا سکھایا ہوا سبق بہت سخت ہوتا ہے اور انسان اسے کبھی نہیں بھولتا ۔ ساری زندگی کسی مقصد کو پانے کی جدوجہد اور تگ و دو میں دوڑتا ہوا انسان کبھی کبھار چیزوں کی حقیقت سے ناواقف ہوتا ہے مگر وقت سب کچھ آشکار کردیتا ہے،ایسے حقائق جنھیں انسان دیکھنا نہیں چاہتا مگر وہ آشکار ہوجاتے ہیں۔ ہر چہرے کے پیچھے چھپے ہوۓ اصل چہرے ،ہر ڈسپلے کے پیچھے چھپی ہوئی ڈمی ،ہر دکھاوے کے پیچھے کی سچائی کو۔ برے وقت کا ایک احسان یہ ہے کہ کسی نہ کسی مخلص دل والے بے لوث انسان سے آپ کو ملوادیتا ہے جسے آپ سے کوئی غرض وابستہ نہیں ہوتی ،جو اپنے کسی مفاد کے لئے نہیں بلکہ صرف آپ کو خوش اور مطمئن دیکھنے کے لئے آپ کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے۔جسے آپ کے اسٹیٹس سے کوئی غرض نہیں ہوتی ۔ آپ کے پاس کوئی کرسی ہو یا نہ ہو وہ اپنے پاکیزہ احساس کو خوشبو کی طرح آپ کے ساتھ ساتھ رواں رکھتا ہے۔ وقت کا بہت بڑا سبق یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت ابن الوقت اور چڑھتے سورج کی پجاری ہے۔ جب آپ کسی مقام عروج پر فائز ہوں تو یہ اکثریت آپ کو چاروں طرف سے گھیرے ہوۓ ہوتی ہے اور جب آپ پر عروج نہ رہے تو یہ اکثریت گردوغبار کی مانند چھٹ جاتی ہے اور اس دھول میں کوئی اکا دکا مخلص انسان ہی باقی رہ جاتا ہے۔ وہ ایک انگلی جو رنج و کرب کے لمحات میں آپ کی  آنکھ سے آنسو صاف کرے وہ ان دس انگلیوں سے بدرجہا بہتر ہوتی ہے جو آپ کی خوشی کے وقت تالیاں بجاتی ہیں۔   بسا اوقات سب لوگ آپ کو تنہا چھوڑ جاتے ہیں صرف رب العالمین ہوتا ہے اور تنہائی ہوتی ہے۔کسی کا قول پڑھا تھا کہ تم جسے مارنا چاہو ،اسے تنہا کردو ،اس کا ساتھ چھوڑ دو ،وہ بغیر مارے ہی مر جاۓ گا۔ لوگ ایسے روئیے اپناتے ہیں جو انسانیت کے قاتل روئیے ہیں مگر بظاہر بہت اچھے، نیک متقی بنے رہتے ہیں ،ان جیسوں کی حقیقت سے صرف وہی واقف ہوتا ہے جو ان کے رویوں کا شکار بن چکا ہو۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو حیرت ہوتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے عظیم الشان حکمران کا ایک ممتاز وصف یہ تھا کہ وہ اپنے لوگوں کا حال جاننے کے لئے راتوں کو گلی محلوں میں گشت کیا کرتے تھے ،تاکہ حقیقت واضح ہوسکے۔ انھوں نے سارے کام اپنے وزیروں ،نائبین پر نہیں چھوڑ رکھے تھے جو انھیں ‘سب اچھا’ کی بناوٹی رپورٹ دے کر غفلت میں مبتلا کئے رکھیں بلکہ وہ اپنی ماتحت رعایا کی خود خبرگیری کرتے تھے تاکہ کوئی ساتھی ان کی بے خبری میں مارا نہ جاۓ۔ہمارے ملک کا رواج ہی نرالا ہے یہاں ہر ادارے میں ‘ڈنگ ٹپاؤ،چل چلاؤ’ کی پالیسی ہے۔ ہر کوئی اپنی ذمہ داری دوسروں کے سر ڈالتا نظر آتا ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ ‘اسٹیبلشمنٹ’ صرف سیاست میں ہوتی ہے ،اب معلوم ہوا کہ ہر ادارے ،ہر تنظیم میں ایک اسٹیبلشمنٹ موجود ہے جس کے تحت کئی ‘قبضہ مافیا’ چل رہی ہیں ۔ان کی مرضی نہ ہو تو کوئی قابل فرد کچھ کرنہیں پاتا۔یہ چھوٹے چھوٹے آکٹوپس  نظام کو اپنے شکنجے میں اس طرح جکڑے ہوۓ ہیں کہ اجتماعیت ان کے سبب رو بہ زوال ہے۔اسی لئے افرادی قوت ایک محدود سفر کے بعد ناکام ہوجاتی ہے۔مسلمانوں نے اس فرمان الٰہی کو  پس پشت ڈال دیا ہے کہ ‘تعاون کرو نیکی اور بھلائی کے کاموں میں مگر گناہ اور ظلم میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون مت کرو’۔ ( المائدہ).یہاں کہیں خاندانی مخاصمت چل رہی ہے تو کہیں ذاتی تعصبات نےاندھا کر رکھا ہے،کہیں دوسروں سے آگے رہنے کی دوڑ ہے تو کہیں کسی کی قابلیت سے حسد وبغض نے دل سیاہ کر رکھے ہیں۔سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ جب آپ کی ٹانگیں کھینچنے والے لوگ ،ٹانگیں دبانے والا رویہ اختیار کرنے پر آجائیں تو اس کا مطلب ہے کہ ان کا اگلا کام آپ کی گردن دبانا ہوگا! لہذا ایسے لوگوں سے فاصلہ رکھنا ہی بہتر ہے۔ ایسے وقت میں خود کو،سورہء کہف کے نوجوانوں کی مانند کسی کہف ( یعنی غار)میں رکھنا ہی بہتر ہے جس وقت ظالموں کا سکہ چل رہا ہو ،حتی ‘ کہ قدرت الہی سے وقت پلٹا دیا جاۓ اور کسی خداترس فرمانروا کا دور آجاۓ۔وقت کا سبق ہے کہ سدا ایک سا نہیں رہتا۔ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں!

                                                                       ~ بس کر میاں محمد بخشا،موڑ قلم دا گھوڑا                                                ساری عمر دکھ نئیں مکنے ،ورقہ رہ گیا تھوڑا


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content