ابو ظہبی کا باڈر قریب ہے اور ہم بس میں سفر کر رہے ہیں،اس وقت رات کے ساڑھے چار بجے ہیں جبکہ ہم ۱۱ بجے ہی اسکول سے روانہ ہو چکے تھے،اس سفر کی اہمیت اور بر وقت تکمیل کی خاطر پرنسپل صاحبہ نے متحدہ عرب امارات کا قومی دن یعنی نیشنل ڈے آج ہی منا ،بلکہ منوا لیا تھا،ویسے یہ پروگرام ۲۹ نومبر ,جمعہ کو تمام اسکولز میں منعقد کیا جاتا ہے اور پھر “یوم الوطنی”کی خوشی میں چار چھٹیاں دی جاتی ہیں ،ویسے نیشنل ڈے کی اصل تاریخ یکم دسمبر ہے-
ربَّنا سے شروع ہونے والی مقبول دعائیں میرے ہاتھ میں تھیں کہ یکدم خیالات بارہویں جماعت کی اردو کی کلاس میں جا بھٹکے،یہ خیالات کا گھوڑا بھی بڑا ہی بے لگام ہوتا ہے،کب اور کہاں جا بھٹکے پتہ ہی نہیں چلتا، لیکن مجھے آج اس گھوڑے کی بے لگامی پر بہت پیار آ رہا ہے،یہ مجھے دس بارہ سال پرانی یادوں کی گلیوں میں سیر کرانے جھٹ پٹ لے گیا ،کوئی سگنل ،کوئی پاور، سوچ کے پر سے زیادہ تیز پرواز کر ہی نہیں سکتی وہ مقام،وہ جگہیں جہاں جانے میں آپ کو زمانے لگ جائیں وہاں سوچ کے سگنل آپ کو پلک چھپکتے لے جاتے ہیں،اس کے لیے نہ کسی نیٹ کی ضرورت،نہ بیلنس کی،نہ کسی ذریعے کی اور نہ زر کی۔
جب میں بارہویں جماعت میں تھی تو ربَّنا کی یہ مقبول دعائیں مجھے میری اردو کی استانی کی جانب سے تحفے میں ملی تھی ،جس پر انہوں نے میری محبت میں گلزار کی ایک نظم بھی لکھی تھی جس کے کچھ اشعار مجھےاب بھی یاد ہیں،لیکن وہ نظم پھر کبھی آپ کو سناؤں گی،ابھی مقصدِ تحریر کچھ اور ہے- ربَّنا کی ان مقبول دعا ؤں کی تالیف اس وقت مختلف تھی اب اس کی دوبارہ تالیف کی گئی ہے اور بہت خوبصورت ہے۔
دعائیں پڑھتے پڑھتے میرا خیال بارھویں جماعت میں دعا پڑھاتی ہوئی اردو کی استانی اور پھر ان کی ایک تحریر جس کا عنوان تھا”حرم کی چاند رات”تک جا پہنچا۔میں جب سردیوں کی رات میں ،ٹھنڈے ہاتھوں سے ان کی اس تحریر کو ٹائپ کرتی تو خیالات میں کھوئی کھوئی گرم آہیں بھرتی وہ منظر تراشتی جو حرم کی چاند رات ، حرم کی عید اور وہاں کے شب و روز کا ہوتا ہو گا۔
میں دن دن پھر اپنے صوفے پر بیٹھی سوچتی رہتی کہ نجانے قسمت کب میری نظروں کو یہ مناظر دکھائے،کوئی سبب تو نہ تھا البتہ امید سی تھی اور الحمدا للٌه، اللّه نے چار بار اپنے گھر کی حاضری اور دو بار مدینے کے سحور و افطار،حرمین کی تراویح اور حرم کی چاند رات نصیب فرمائی،میں نے اب تک ان کی تفصیلات نہیں لکھیں لیکن آج ابو ظہبی کے بارڈر کے قریب دبئی سے مدینہ اور خصوصاً عمرہ پر جانے کے لیے بس میں بیٹھی اس سفر اور اسباب و احبابِ سفر کا حال اس لیے قلم بند کر رہی ہوں کہ یہ ایک سفر ہی نہیں بلکہ ایک احساس،ایک محبت،ایک خلوص اور ایک لیڈر
کی بے لوث کوششوں کا حال ہے جس نے آج ہمیں اللّه کے گھر کا مہمان بنا کر سوئے حرم روانہ کیا ۔
تقریباً دو ہفتے پہلے ہماری پرنسپل عائشہ نسیم نے ایک میٹنگ بلائی،سب نے کہا کہ شاید اسپورٹس ڈے کے حوالے سے کوئی بات ہو یا شاید نیشنل ڈے،لیکن جو بات تھی وہ گمان سے کئی آگے اور سوچ سے کئی بالاتر تھی۔
انہوں نے کہا کہ آج اس میٹنگ کا مقصد کوئی اسکول کا کام نہیں ہے بلکہ آپ لوگوں کے لیے ایک سرپرائز ہے-اپنے دلکش چہرے پر ایک طمانیت بھری مسکراہٹ اور آنکھوں میں بے لوث خلوص لیے وہ کہنے لگیں کہ آپ لوگوں نے اسکول کے لیے بہت کچھ کیا اور بہت محنت کی میں نے سوچا کہ میرے وہ ٹیچرز جن کی سروس کو پانچ سال یا اس سے زیادہ گزر چکے ہیں ان کو ایک بہت خاص تحفہ دوں ،وہ مزید بتانے لگیں کہ میں نے بورڈ آف گورنرز کے سا تھ میٹنگ کی ہے۔ انہوں نے اسکول کے لیے کی گئی میری خدمات کو سراہا اور کہا کہ ہم۔اسکول کے لیے کیا کر سکتے ہیں،میں نے فوراً سے اپنے د ل کی دو باتیں ان کے سامنے رکھ دیں کہ آپ میرے ٹیچرز کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیں اور میری دلی خواہش ہے کہ میرے وہ ٹیچرز جنہوں نے اس اسکول کو اپنی زندگی کے قیمتی سال دیے ،کئی ٹیچرز دس دس اور بیس بیس سال سے اسکول کی خدمت کر رہے ہیں، میں چاہتی ہوں کہ جتنے ٹیچرز کو اسکول میں پانچ سال سے زیادہ ہو گئے ہیں میں ان کو عمرے پر لے کر جاؤں،اورعمرے پر کیا جانے والا خرچہ صدقہ، خیرات یا زکوۃ نہ ہو بلکہ ہماری ذاتی کوشش ہو۔میں نے اپنے سربراہان سے آپ لوگوں کے لیے عمرے کے پیکج کی منظوری لے لی ہے،یہ سب بتاتے ہوئے فرطِ جذبات سے کبھی ان کی آنکھیں ٹمٹما جاتیں اور کبھی ایک پُر سکون مسکراہٹ ان کے چہرے پر بکھر جاتی۔ان کا یہ اعلان کرنا تھا کہ میٹنگ ہال میں موجود تمام اساتذہ کرام فرطِ مسرت اور جذبات سے جھوم گئے اور پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا،انہوں نے گفتگو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اب چونکہ آگے دسمبر کی چھٹیاں ہیں اور آپ سب کا کوئی نہ کوئی پلان ہو گا اس لیے میں آپ لوگوں کونیشنل ڈے کی چھٹیوں میں لے کر جاؤں گی،میں (کے ایچ ڈی اے)سے درخواست کروں گی کہ وہ آپ لوگوں کو جمعہ کی بھی چھٹی دے دے،میں نیشنل ڈے کا پروگرام بہت مختصر کر دوں گی تاکہ آپ لوگ جمعرات کو گیارہ بجے اسکول سے روانہ ہوں اور جمعے کی نماز مسجدالنبوی میں جا کر ادا کر سکیں۔
میں نے اپنے ٹیچنگ کرئیر کے دوران نہ کوئی ایسی میٹنگ دیکھی اور نہ کوئی پرنسپل جواپنے ۳۸ ٹیچرز کو ایک ساتھ درِ نبی کا مہمان بنا دے اور سوئے طیبہ روانہ کر دے
انہوں نے ان تمام ٹیچرز کے نام اناؤنس کیے جنہیں اس سفر پر جانا تھا میں سوچتی رہی کہ میرا نام اس فہرست میں نہیں ہو گا کیونکہ مجھے ابھی یہاں چار سال اور دو ماہ ہوئے ہیں،لیکن دل ہی دل میں اللّه سے دعا کرتی رہی کہ میں بھی اس قافلے کا حصہ بن جاؤں ۔جب انہوں نے آخری نام یہ کہتے ہوئے شامل کیا کہ میں صبا کانام بھی فہرست میں شامل کر رہی ہوں اور اس کے اپروول کے لیے اپلائی کروں گی لیکن بالفرض اپروول نہ آیا تو آپ کو ذاتی خرچ پر جانا ہو گا لیکن میں کوشش کروں گی کہ ۵۰ فیصد ڈسکاؤنٹ کروا دوں،میری تو آنکھیں اشکوں سے جھلملا اٹھیں کہ اللّه نے اتنی جلدی میرا نام اس فہرست میں شامل کر دیا،اگر مجھے پوری پیمنٹ کر کے بھی جانا پڑے تب بھی جاؤں گی کیونکہ گزشہ کئی روز سے میرا دل حرم پاک اور درِ نبی کی حاضری کے لیے مچل رہا تھا۔
میں نے اللّه کا شکر ادا کیا اور میم عائشہ کی بھی ممنون ہوئی جنہوں نے میرا نام فہرست میں شامل کیا۔انہوں نے عمرے کی تمام تفصیلات سے ہمیں آگا ہ کیا ،کہ کب مکہ اور کب مدینہ جانا ہے ہمارا یہ ٹریپ 6 روزہ ہے،دو دن مکہ دو دن مدینہ اور دو دن بس کے سفر کے،بتاتی چلو کہ بس میں دبئی سے مکہ مدینہ آنے میں 26 سے 30 گھنٹے لگ جاتے ہیں لیکن مجھے بائی روڈ مدینہ آنا پسند ہے۔روانگی سے قبل پرنسپل صاحبہ نے ایک اور میٹنگ بلائی اور وہ بتاتی گئیں کہ میرے،میرے گھر والوں اور دوستوں کی جانب سے آپ لوگوں کے لیے کچھ تحائف،اور مدینہ میں ڈنر اور لنچ کا بھی انتظام ہے،انہوں نے آتے ہوئے سب کو جائے نماز،تسبیح ،لوشن،دعاؤں کی کتاب کے علاوہ کچھ رقم ریال کی صورت میں دی۔اس کے علاوہ انہوں نے سب کے لیے خصوصی جیکٹس اور بیگز بھی تیار کروائے جن پر اسکول کا نام لکھا ہوا تھا۔بس میں بھی ان کی جانب سے ضروریاتِ سفر موجود تھے۔روانہ ہوتے وقت بس میں آ کر ہمیں بار بار ایک ماں کی طرح ہدایات دیتی رہیں اور دعا کی التجا کرتی رہیں۔ اس خاتون نے کہاں کہاں اور کس کس طرح دعائیں سمیٹیں ہیں میں تحریر نہیں کر سکتی۔نیکی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ اس قافلے میں میرے کچھ ایسے ساتھی بھی موجود ہیں جن کو میں نےحرمین کی یاد میں تڑپتا دیکھا تھا لیکن وہ کسی نہ کسی مجبوری کے باعث عمرہ نہیں کر سکتے تھے۔مس عائشہ بذاتِ خود تو اس قافلے میں موجود نہیں تھیں کہ وہ دیکھ پاتیں کہ کیسے میرے ان ساتھیوں کی سانس سانس ان کو دعا دے رہی ہے،یہ وہ ہیں جن کی آنکھیں پہلی بارحرمین کی زیارت کر پائیں گی،یہ وہ دل شکستہ ہیں جن کے پاس کبھی وسائل نہیں تھے تو کبھی قافلہ ،آج وہ قافلے کا حصہ ہیں اور ان کے رشتے دار اور دوست احباب سب مس عائشہ کے لیے دعا گو ہیں۔بہت سو کے ہاتھوں میں ربَّنا کی دعائیں بھی ہیں جن کا وہ ورد کررہے ہیں۔
آج جب خود غرضی اور نفسا نفسی اپنے عروج پرہے لیکن ایسے لوگ آج بھی موجود ہیں جو اپنی ذات اور اپنے وسائل سے بڑھ کر دوسروں کا بھلا کرتے ہیں،خدمتِ خلق کر کے دعائیں لیتے ہیں اور لوگوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھرنے کا سبب بنتے ہیں۔جب تک دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں نیکی کا وجود مٹ نہیں سکتا۔اللّه رب العزت مس عائشہ کی نسلوں نسلوں کو اس کارِ خیر کا اجر دے۔آمین
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.