محض لمبا ہی نہیں، بہت ہی لمباقد، مضبوط باٹی ڈاہڈی کاٹھی، سفیدگوں رنگت، اُسی سے ملتی جلتی تراشیدہ داڑھی، سر پر قراقلی جو جسمانی اونچائی کو مزید معلومات عطا کرتی ہے۔ متسبم چہرہ، نرم خو، بڑھتی عمر کے باوجود مناسب صحت، انگریزی ادب کا استاد، اُردو شاعری کا رسیا اور ’مردِمیداں‘، خوش باش، خوش وضع اور خوش گفتار جو منڈھ ابتداء سے ہی ’’حق‘‘ کہلایا گیا۔ اسی لئے ازاں بعد باوقار بھی ٹھہرا اور بامراد بھی ہوا… عبدالحق مرادؔ، اپنی وضع کے ’مزے‘ کے انسان ہیں۔
عبدالحق مراد کی زیست محنت سے عبارت ہے، عملی زندگی کا آغاز لیب اسسٹنٹ کے طور پر کیا۔ پھر ترقی کی اور سائنس ٹیچر ہوئے۔ اُنہوں نے کب رکنا تھا، سو آگے بڑھتے گئے۔ اب وہ انگریزی کے لیکچرار ہوئے۔ گزرتے سمے کے ساتھ ترقی کرتے رہے اور ’’دم واپس‘‘ گورنمنٹ ڈگری کالج دھیرکوٹ کے پرنسپل تھے۔ وہ کب بس کرنے والے تھے، مڑے تو ویمن یونیورسٹی باغ کے ایڈوائزر ہوئے۔ اگر بات یہاں تک ہی ہوتی تو شاید بات ختم ہو جاتی لیکن زندگی کے پرپیچ سفر میں کہیں ان کا پالا پروفیسر عبدالعلیم صدیقی سے پڑا۔ ان کی صحبت اور شفیق راجہ کی رفاقت میں اچھے بھلے عبدالحق کو شعرو ادب کی چاٹ لگا دی اور یوں مولویانہ وضع کا یہ بندہ مرادؔ ہو کر بامراد ہو گیا۔
پہلی نظر میں دیکھنے اور چھکنے پر عبدالحق مراد، کسی طور بھی ’’شعری خرابیوں‘‘ کے حامل انسان نہیں لگتے۔ وہ بظاہر سنجیدہ فکر مگر خوش مزاج ’’استاد‘‘ معلوم ہوتے ہیں لیکن ذرا سی ’کھوج‘، کھڑک پر ان کے اندر کا شاعر زکوٹے جن کی طرح آن حاضر ہوتا ہے اور لحظہ بھر میں اشعار کی آمد یوں شروع ہو جاتی ہے لیکن جیسے بھلے کاروبار میں مہاجن کی آمدن۔
میں مدتوں سے عبدالحق مرادؔ کو جانتا ہوں، باوجود پوری سعی کے مجھے شفیق راجہ کی قربت اور غربت کے علاوہ کوئی ایسا کھرا نہیں ملا جو ان کی شخصیت کو ان راہوں پر لے جانے کا سبب قرار دیا جائے جن پر وہ خود یا شفیق کی شفقت کے باعث چل دوڑ رہے ہیں۔ بہرحال اس راہ پر چلتے ابتداًء یقینا اُنہوں نے اشعار کہے ہوں گے، لیکن ’’منہ دکھائی‘‘ کے لئے اُنہوں نے اوّلاً ’’قاضی جی‘‘ کو سامنے لایا۔ جو پروفیسر قاضی عبدالحق مرحوم کی سوانح ہے۔ اس مرحلے سے گزرنے کے بعد عبدالحق مراد اپنے دل کی مرادیں پوری کرنے کے لئے ’شاعری‘ کی طرف بڑھے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’مکان قاتل مکینوں کے‘‘ ہے۔ یہ مجموعہ 2005ء کے زلزلے کے بعد کے حالات کا نوحہ ہے۔ یہ شہر آشوب بھی ہے اور منظوم واقعاتی تاریخ بھی۔ عبدالحق مراد نے بہت سلیقے اور ہنرمندی سے اس قیامت صغریٰ کے بعد کی کیفیات کو شعری قالب عطا کیا۔ یہ منفرد موضوع پر ایک مختلف کاوش ہے جو کئی حوالوں سے خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔
’’جنبش لب‘‘ عبدالحق مراد کا دوسرا شعری مجموعہ ہے، یوں تو عبدالحق مراد اُردو کے علاوہ انگریزی ادب کے کماحقہ علم رکھتے ہیں۔ پھر عربی اور فارسی زبان و ادب سے بھی ان کی شناسائی ’’اچھی بھلی دوستی‘‘ کی حدوں سے بھی آگے گزر چکی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ قدیم و جدید گوجری شعرو ادب سے بھی ربط رکھتے ہیں کہ وہ نسلی نسبی ’’گوجر‘‘ ہیں۔ ان تمام ’’امور‘‘ یا ’’عوامل‘‘ نے ان کی اردو شاعری کو بھی خاص رنگ ڈھنگ عطا کیا ہے۔ اگرچہ عبدالحق مراد غزل بھی کہتے ہیں اور خوب کہتے ہیں لیکن میری دانست میں ’’نظم‘‘ ان کے مزاج کے زیادہ قریب ہے۔ عبدالحق مراد کا ایک اور خوبصورت شعری مجموعہ ’’سانس چلتی رہے‘‘ ہے۔ اس مجموعے میں بھی حمد و نعت کے علاوہ نظمیں ہیں اور غزلیں بھی، قطعات بھی ہیں اور ’’فردیات‘‘ بھی۔
عبدالحق مرادؔ کو راہِ حق کا بامراد مسافر بنانے بتاتے میں ان کی محبت اور محنت بھری تخلیق ’’نوائے قرآن‘‘ کا حصہ یقینا سب سے زیادہ ہے۔ ’’نوائے قرآن‘‘، قرآن پاک کا منظوم ترجمہ ہے جو بلاشبہ ذہانت، مشقت اور کتاب اللہ سے بے پناہ محبت کا مظہر ہے۔ اس کی تکمیل میں یقینا برسوں کی ریاضت لگی لیکن اس منفرد تخلیقی کارنامے نے عبدالحق مرادؔ کو وہ عزت عطا کی جو صرف انہی کا حصہ ہے۔ نوائے قرآن کی زبان سادہ و عام فہم ہے۔ مشکل اصطلاحات اور مرکبات سے کماحقہ گریز کیا گیا ہے اور اس کے معانی و مفاہیم کی اصل صحت کو زیرنظر رکھا گیا ہے۔ ’’نوائے قرآن‘‘ جہاں قرآن پاک کے مفہوم و مطالب سے گہری آگاہی کا اظہاریہ ہے، وہاں شعری و فنی لوازموں پر عبدالحق مراد کی باٹی گرفت کا ثبوت بھی ہے۔ ’’نوائے قرآن‘‘ یقینا ایک اایسا تخلیقی شاہکار ہے جو مرادؔ کو بامراد بنانے کا ذریعہ بھی ہے۔ نوائے قرآن قرآن فہمی کے لئے بھی معاون ہے اور زبان و لسان اور ادائیگی و اسلوب کے حوالے عبدالحق کے ’’سجوڑپنے‘‘ کی عملی تصویر و تعبیر بھی ہے۔
’’نوائے قرآن‘‘ عبدالحق مراد کا ازلی زادئہ بھی ہے اور شاید ’’توشہ‘‘ بھی۔ میرا گمان ہے کہ وہ عمومی تخلیقی راہ سے چلتے جب اس ’’خصوصی سفر‘‘ پر پہنچے تو قدرت نے ان کی لگن کو ’’قبول‘‘ کرتے ہوئے اور معقولیت اور مقبولیت ارزاں کی ہے جس کے باعث ’’شفیق راجوں‘‘ کا ہم جولی سیدھا سادھا شاعر ایک ماہر مترجم کے روپ میں سامنے آیا اور یوں سامنے آیا کہ علامہ اسحق مدنی، مفتی رویس ایوبی، زاہد الرشدی، ڈاکٹر علی اصغر چشتی، ڈاکٹر حبیب الرحمن عاصم، محمد منظورالحق الازہری جیسوں سے بااعتبار سندل اور یوں مزید باوقار ہوئے۔
یوں تو ’’نوائے قرآن‘‘ کے عبدالحق مراد کو ’’قلم توڑ‘‘ دینا چاہیے تھا لیکن وہ ہیرا پھیری سے نہ گئے۔ لہٰذا اب اُنہوں نے ’’نغمہ مراد‘‘ کہہ ڈالا۔ نغمہ مراد جناب مرادؔ کی منظوم خودنوشت ہے جو یقینا ایک اہم اور علیحدہ رنگ ڈھنگ کا کام ہے۔ اُردو میں گرچہ خودنوشت تو مدتوں سے لکھی جا رہی ہے لیکن منظوم خودنوشت ذرا کم نہیں بہت ہی کم لکھی جاتی ہے۔ عبدالحق مراد نے اپنی زندگی کے احوال کے لئے شعری آہنگ کا انتخاب کرکے اپنے باعلم اور ’’تگڑے فنی کردار‘‘ ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ عبدالحق مرادؔ نے کہاں ’’نوائے قرآن‘‘ لکھی، وہاں اُنہوں نے ’’نوائے حدیث‘‘ بھی کہی۔ پانچ سو احادیث کا منظوم ترجمہ یقینا ایک اور سنگ میل ہے جو تخلیق کار کی دینی محبت کا ثبوت بھی ہے اور ان کی قادر الکلامی کا اظہاریہ بھی۔
عبدالحق مرادؔ یقینا بامراد ٹھہرے ہیں کہ قدرت کی عطا کردہ صلاحیت کو اُنہوں نے ربّ تعالیٰ کے کلام اور نبی پاکﷺ کی احادیث کی تعبیر و تفہیم کا ذریعہ بنایا۔ یہ عمل یقینا بے مثل بھی ہے اور بے نظیر بھی۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے علم مگر حلم سے لبریز عبدالحق مرادؔ ایک بے حد صاحب مطالعہ شخص ہیں، وہ جہاں کلاسیکی ادب سے شغف رکھتے ہیں وہاں جدید ادب بھی، ان کی نظروں سے اوجھل نہیں رہتا۔ ایک شاعر، ایک مترجم اور ایک استاد کے طور پر اُنہوں نے ایک خاص عزت پائی تو ’’نوائے قرآن‘‘ اور ’’نوائے حدیث‘‘ کی تخلیق سے اُنہوں نے اپنا دامن خیر و برکت سے یوں بھر دیا کہ بلاشبہ وہ یہاں وہاں بامرادؔ ہوئے ہیں اور ہوں گے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.