ایک یادگار سفر۔ تحریر: سعدیہ اجمل

ایک یادگار سفر۔ تحریر: سعدیہ اجمل

از ؛سعدیہ اجمل

جیسے ہی میں مدرسے کے امتحان دے کر فارغ ہوئی تو روزمرہ کے معمولات میں  ایک ٹھہراؤ سا آگیا۔ چونکہ وفاق کے امتحان تھے تو تقریباً اگلے دو،ڈھائی ماہ تک چھٹیاں تھیں۔ دل بوجھل ہونے کی وجہ سے مزاج بھی ہمہ وقت برہم رہتا،غرض طبیعت میں عجیب و غریب قسم کی اکتاہٹ در آئی تھی۔
اپنے مزاج کی اس تبدیلی پر میں حیران بھی تھی کہ یہی وہی فراغت تھی جس کی میں شدید خواہش مند تھی اور اب جب کہ یہ میسر تھی تو بری طرح گھل رہی تھی۔
دن یوں ہی بے مقصد  کسی تفریح و مشغلے کے بغیر گزر رہے تھے کہ دن میرے والد صاحب نے ہمیں بتایا کہ ان کے کسی دوست کے بیٹے کی شادی ہے جس کے سلسلے میں انہوں نے بہاولپور جانا ہے اور چونکہ سب کو چھٹیاں ہیں ( اتفاق سے انہیں دنوں میری چھوٹے بہن بھائی بھی سالانہ امتحان دے کر فارغ ہوئے تھے اور انہیں بھی سکول سے چھٹیاں تھیں) تو وہ سب کو ساتھ لے کر جائیں گے‍۔
یہ خبر سن کر ہم سب خوشی سے اچھل پڑے۔ہم سب کو بہاولپور جانے کا بہت شوق تھا،وہاں میری خالہ رہائش پذیر تھیں، لیکن ابو جان کی کاروباری مصروفیات کی وجہ سے شدید خواہش کے باوجود کبھی وہاں جانا نہیں ہوا تھا۔اب اچانک ہماری مراد برآئی تھی۔

بہاولپور ہمارے شہر شیخوپورہ سے  تقریباً 408 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ روانگی اگلے دن صبح 10 بجے تھی۔ ہم نے خوشی خوشی اپنا سامان باندھا اور بیٹھ کر صبح کا انتظار کرنے لگے۔ہمارا سونے کا بلکل بھی ارادہ نہیں تھا کیونکہ ہمیں ڈر تھا کہ سوگئے تو خالہ کے گھر نہیں جاسکیں گے۔ہماری والدہ نے جب ہمیں یوں جاگتے پایا تو فوراً سونے کا کہا،چونکہ سفر طویل ہونے والا تھا اس لیے ہم نے بھی یہی سوچا کہ کچھ دیر آرام کرنا چاہئے۔
اگلے دن نمازِ فجر کی ادائیگی کے لئے بیدار ہوئے تو طبیعت خلافِ معمول تروتازہ تھی۔نماز و تسبیحات سے فارغ ہوکر گھر کے کچھ کاموں میں امی کا ہاتھ بٹایا اور پھر جانے کی تیاری کرنے لگے۔اور ٹھیک 10 بجے ابو جان نے گاڑی پر ڈرائیونگ کی نشست سنبھال لی اور ہارن دے  کر چلنے کا اشارا دینے لگے،ہارن سنتے ہی جلدی جلدی ہم سب بہن بھائی اپنی والدہ کے ہمراہ اپنی اپنی جگہوں پر براجمان ہوگئے۔یوں پرجوش انداز میں ہم نے اپنے   سفر کا آغاز کیا۔
اس دن موسم معتدل تھا اس طرح ہمارے سفر کا مزہ دوبالا ہوگیا۔راستے کے مناظر پر غور و فکر کرتے چھوٹے بھائی بہنوں کی نوک جھونک سے لطف اندوز ہوتے ہم منزل کی طرف گامزن تھے۔ سفر طویل تھا تو اس وجہ سے نمازِ ظہر و عصر ہم نے راستے میں ادا کی اور عین مغرب کے وقت ہم بہاولپور پہنچ گئے۔
خالہ نے نہایت گرمجوشی سے ہمارا استقبال کیا ننھے ننھے خالہ زاد بھائی بہن ہمیں دیکھ کر پھولے نہ سمارہے تھے۔
کھانا لگ چکا تھا،کھانا کھانے اور نمازِ عشاء ادا کرنے کے بعد ہم نے آرام کرنے کا سوچا۔دن بھر سفر میں رہنے کے بعد جیسے ہی ہم بستر پر لیٹے فوراً نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا،اور پھر ہم صبح  نمازِ فجر کے لئے ہی بیدار ہوئے۔نماز ادا کرنے کے بعد باہر دالان میں چہل قدمی کی اور ﷲ تعالیٰ کی قدرت کا مشاہدہ کیا۔کچھ ہی دیر بعد ناشتہ تیار ہوگیا ،ناشتہ کرنے کے بعد ہم سب نے کالونی کا چکر لگانے کا ارادہ کیا میں خالہ زاد بہن بھائیوں اور اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی۔ ہم عمر ساتھی نہ ہونے کی وجہ سے اکثر انسان لطف اندوز نہیں ہوپاتا،اکتا جاتا ہے لیکن میں ان کی ہمراہی میں اکتانے کی بجائے مکمل لطف اندوز ہورہی تھی۔ ان سب کی خوش گپیاں اور نٹ کھٹ حرکتوں کے ساتھ کالونی میں گھومنے کا بہت مزہ آیا۔
ہم نے وہاں تقریباً پانچ دن قیام کیا اور اسی دوران ہم نے چڑیا گھر،میوزیم،نورمحل و دیگر تفریحی و تاریخی مقامات کی سیر کی۔اس قیام کے دوران میں نے دل میں تہیہ کر لیا کہ دوبارہ زندگی میں جب کبھی موقع ملا تو بہاولپور ضرور آؤنگی۔
آخرکار واپسی کا وقت بھی آپہنچا۔ میری خواہش تھی کہ ہم کچھ دن اور رکیں لیکن میرے بھائی بہنوں کی سکول کی چھٹیاں ختم ہوگئی تھیں۔اس لیے واپسی ضروری تھی۔خیر اگر ہم اور رک بھی جاتے تب بھی میں نے سیر نہیں ہونا تھا۔
اپنی اس حالت پر مجھے شاعر کا ایک فقرہ یاد آگیا کہ؛
“ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے آرمان لیکن پھر بھی کم نکلے”
خالہ اور ان کی فیملی ہماری واپسی پر بہت مغموم تھی۔بوجھل دل اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ دوبارہ آنے کا وعدہ کرتے ہوئے ہم واپسی کے سفر کے لیے روانہ ہوئے۔ اداسی کے باوجود  اپنے شہر جانے کی ایک انوکھی سی خوشی دل میں پھوٹی تھی۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.