بیٹیاں اور والدین : تحریر: ماہم حامد

بیٹیاں اور والدین : تحریر: ماہم حامد

تحریر: ماہم حامد

اولاد والدین کی عمر بھر کی کمائی ہوتی ہے۔ ان کی زندگی کی سب سے قیمتی دولت ہوتی ہے۔ اولاد کے دکھ ماں باپ کو مار دیتے ہیں اور اولاد کے سکھ مرتے ہوئے والدین میں بھی جان ڈال دیتے ہیں۔ بیٹیاں تو وہ کھیتیاں ہوتی ہے جنہیں پل پل سنبھال کر ، وقت کی دھوپ چھاؤں سے بچا کر، ماں باپ جوان کرتے ہیں اور پھر اپنی کمائی آنکھوں میں نمی لیے کسی اور کے نام کرتے ہیں۔ اس امید پر کہ وہ اس کا بہت خیال رکھے گا اور انہیں اسی طرح سنبھال رکھے گا، جس طرح اتنے سالوں ماں باپ نے خود سنبھالا ہوتا ہے۔ یہ تو وہ روایتی دکھ ہے جو ہر مشرقی والدین کے نصیب میں لکھا ہوا ہے؛ مگر کسی کی بیٹی کے سر سے کوئی راہ چلتا چادر کھینچ لے، اس کی عزت تار تار کر دے، اس کے باپ کی اذیت لفظوں میں بیاں ہو نہیں سکتی۔ عورت وہ بدنصیب ہستی ہے ،جسے دوسروں کے من کا میل بھی میلا  کر دیتا ہے اور مرد وہ خوش نصیب مخلوق ہے معاشرہ جسے ہر گناہ معاف کر دیتا ہے۔ سنا ہے پنجاب کالج میں ہونے والے واقعے کی کوئی رپورٹ درج نہیں کروائی گئی۔ کوئی باپ،  کوئی بھائی تھانے نہیں گیا اور کالج انتظامیہ اور قانونی ادارے کہتے ہیں کچھ ہوا ہی نہیں، یہ افواہ اڑائی ہے کسی نے۔ معذرت کے ساتھ ہر فسانہ کسی سچ سے متاثر ہو کر ہی گھڑا جاتا ہے۔ دھواں وہیں سے اٹھتا جہاں کوئی چنگاری گری ہوتی ہے۔ یہ جو بچے بچیاں میڈیا پر آ کر حقائق بیان کر رہے ہیں ان کے معصوم چہرے ہی بتاتے ہیں کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہے اور جو والدین اپنی بیٹی پر لگا داغ چھپا رہے ہیں، اپنی جگہ درست ہیں؛ کیونکہ یہ ظالم معاشرہ انہیں اس ناکردہ گناہ کی بھی سزا دے گا جو نہ انہوں نے کیا ہے نہ ان کی بیٹی نے کیا ہے۔ بلکہ یہ سب کرنے والا کوئی درندہ تھا۔ جس کا مذہب ہوس تھا، شیطان کا پجاری تھا، انسانیت پر دھبہ تھا؛ مگر پھر معاشرہ اس کے کیے کی سزا ان کو اور ان کی معصوم بےگناہ بیٹی کو ہی دے گا۔ اسی  خوف سے اکثر والدین اپنی لخت جگر کے جسم اور روح کے چھلنی ہونے کا شکوہ نہیں کرتے؛ مگر اس سے معلوم نہیں انہیں کوئی فائدہ ہوتا بھی ہے یا نہیں؛ مگر وہ ظالم بچ جاتا ہے، اس جیسے بہت سے درندوں کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے۔

انہیں کھلی چھوٹ مل جاتی ہے کسی بھی بیٹی سر چادر کھینچ لینے کی اور ایسے لوگوں کو معافی مل جاتی ہے جنہیں میرے خیال سے تو زندہ رہنے کا حق بھی نہیں ہے۔ جب کتا پاگل ہو جاتا ہے غلط اور صحیح کی پہچان بھول جاتا ہے، تو اس کا علاج بندوق کی گولی ہی ہوتی ہے۔ حدوں کو بھولنے والے انسان نما درندوں کے ساتھ بھی یہی ہونا چاہیے تاکہ پھر کسی بیٹی کی عزت داغدار نہ ہو، پھر کوئی باپ کسی کونے میں بیٹھا، شرمندگی اور کرب سےاپنی بیٹی ، اپنی کھیتی اور اپنی عمر بھر کی کمائی کے لٹنے کا ماتم نہ کر رہا ہو۔ خدا تمام والدین کو اس اذیت سے بچائے اور تمام بیٹیوں کی حرمت کی حفاظت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.