استاد تجھے سلام/ ڈاکٹر میمونہ حمزہ

استاد تجھے سلام/ ڈاکٹر میمونہ حمزہ

ڈاکٹر میمونہ حمزہ سعودی عرب

زندگی میں ان گنت استادوں سے واسطہ رہا، ان میں سخت گیر بھی تھے اور مہربان بھی،  ایک ایک نکتے کی تشریح کرنے والے بھی اور اپنے طالب علموں میں ہیرے جواہر تراشنے والے بھی، علم کو تاجرانہ انداز میں بانٹنے والے بھی اور پیغمبروں کی میراث جان کر معلم ِ اعظم کے نقش ِ قدم پر چلنے والے بھی،  میں نے جن سے ایک لفظ بھی سیکھا، وہ استاد کے مرتبے پر ہیں اور انکا احترام واجب!!

’’با ادب بانصیب، بے ادب بے نصیب‘‘ جیسا محاورہ محض ایک محاورہ نہیں بلکہ ایک فلسفہ ہے،  جسے میں نے اپنے تجربے سے سمجھا،  اور جانا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں کالج میں پڑھتی تھی، سکول کی پابندیوں سے نکل کر کالج میں داخلہ ایک سہانا خواب تھا، جہاں استاد رہنمائی تو کرتے تھے مگر اس طرح نہ ہوم ورک ملتا تھا نہ استاد پچھلا سبق سننے پر وقت لگاتے تھے، ہر طالب علم اپنی خواہش سے پڑھنے یا وقت ضائع کرنے کا فیصلہ کرتا، اپنے پسند کے مضامین اور دوتین اساتذہ میں سے عموماً استاد کا چناؤ بھی طالب علم پر۔ دوسرے سال میں ہماری ایک استاد بیمار ہو گئیں اور چند ماہ کے لئے چھٹی پر چلی گئیں، وہ بہت باصلاحیت اور محنتی استاد تھیں، ان کی جگہ ہمیں جن استاد کے پاس جانا پڑا وہ درمیانے درجے کی تھیں، عربی پڑھاتے ہوئے کئی الفاظ پر اٹک جاتیں،  کیونکہ ہم وہ اسباق پچھلی ٹیچر سے پڑھ چکے تھے اس لئے آگے بڑھ کر جواب دیتے جس سے ہم انکی خصوصی توجہ کا مرکز بن گئے،  وہ عموماً ہم سے ہی سوال کرتیں، بلکہ بعض کمزور طالبات کو بھی مشورہ دیتیں کہ وہ ہم سے بریک میں پڑھ لیں،  ہمیں اپنا یہ کردار اتنا پسند آیا کہ اب ہم لیکچر کی پہلے سے تیاری کر کے آتے، عربی کی کتاب کا خلاصہ یعنی ’’کی‘‘ ہمارا استاد تھا، اگر کچھ مشکل پیش آتی تو والدین۔ جو دونوں ہی عربی سے واقفیت رکھتے تھے۔ سے رہنمائی لے لیتے، گزرتے وقت کے ساتھ کلاس پر بھی ہماری دھاک بیٹھ گئی، جسے کچھ پوچھنا ہوتا ہم سے رجوع کرتا، اور ہم پھولے نہ سماتے، ہماری گردن اکڑتی جا رہی تھی، اب ہم میڈم کے لیکچر کو چنداں اہمیت نہ دیتے، پہلے انکی غیر موجودگی میں اور پھر انکے سامنے بھی یہ ثابت کرتے کہ ہمیں بہت آتا ہے، شاید ان سے بھی زیادہ، کبھی کبھار انکے بیٹھنے کے انداز اور لہجے کا مذاق بھی اڑا لیتے، اب حیرت ہوتی ہے کہ ان میڈم نے ہمیں کبھی نہ ٹوکا، وہ ہماری خود سری بھی نظر انداز کر دیتیں،البتہ گھر میں بہنوں کے سامنے ہم ان کارناموں کا ذکر کرتے تو وہ ضرور ٹوکتیں۔

جب انٹر میڈیٹ بورڈ کے امتحانات کا وقت آیا تو ہماری سرشاری کا عجب عالم تھا، پہلا پرچہ ہی عربی کا تھا، ہمارے زیادہ تر پیپیر سیکنڈ شفٹ میں تھے،امتحان کے دن بس میں سوار ہوئے  تو ذرا حیران ہوئے کہ ہماری کلاس فیلوز موجود نہیں ہیں، مگر زیادہ پرواہ نہیں کی، سارا وقت ہم دہرائی میں مصروف رہے، جب سینٹر میں داخل ہوئے تو ایک طالبہ نے یہ کہہ کر حیران کر دیا، آپ اس وقت کیوں آئی ہو، پیپر تو مارننگ شفٹ میں ہو چکا ہے، الٹے قدموں واپس لوٹے، آنسو بھی شاید خشک ہو گئے تھے، واپسی میں سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی سے صدر تک عربی کی کتاب کا ایک جملہ ہمارے سر کی دیواروں سے ٹکرا کر دل کی دنیا کو اتھل پتھل کر رہا تھا:

’’السرّ الذی بینی وبینک احبّ ان یکون مکتوماً‘‘ یعنی وہ راز جو میرے اور تمہارے درمیان ہے میں اسے پوشیدہ ہی رکھنا چاہتا ہوں۔

رب کے راز تو رب ہی جانتا ہے، اس راز کا جو حصّہ مجھ پر آشکارا ہوا تھا، وہ استاد کا احترام نہ کرنے انجام تھا، تیس برس سے زائد ہو گئے نہ یہ واقعہ بھولتا ہے نہ یہ راز!!

اب یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ میری ان استاد کو جب میرے پیپیر چھوٹ جانے کی خبر ملی تو انہیں بہت دکھ ہوا انہوں نے مجھ سے افسوس کا اظہار کیا ہمت دلائی، انہیں خیال ہی نہ آیا کہ میں نے جو کچھ بھگتا ہے اس کا ایک کردار وہ ہیں،  اور جب میں نے سپلیمنٹری امتحان میں عربی کا پرچہ دیا تو میں نے بورڈ میں ٹاپ کیا مگر مجھے سرٹیفیکیٹ نہ مل سکا کیونکہ بالاجزاء امتحان دینے والے کو اس کا حق نہیں ہے۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.