معاشرہ اور معاشرتی تبدیلی   سلسلہ وار کالم ۔۔۔۔ 6

شمس رحمان، مانچسٹر/ میرپور

پیداواری قوتوں سے مراد وہ تمام قوتیں لی جاتی ہیں جو پیداوار کے عمل میں شامل ہوتی ہیں یعنی جو پیداوار کرتی ہیں۔ پیداواری قوتوں کا مرکز اور بنیاد انسانی محنت ہوتی ہے۔ کیونکہ انسانی محنت کے بغیر  خام لکڑی  اور پتھر کو ہاتھوں سے استعمال کرنے سے لے کر آج مصنوعی ذہانت تک کا سفر ممکن نہیں تھا۔ یہ محنت جسمانی بھی ہوتی ہے اور  دماغی بھی۔ آسان لفظوں میں  پیداوار  ی قوتیں پیداوار کے ذرائع، پیداوار کے  آلات اور انسان کی محنت کے  اشتراک یا مجموعے پر مشتمل ہوتی ہیں۔ پیداوار کے معیار کا انحصار پیداواری قوتوں کے معیار پر ہوتا ہے۔  اب اگر ہم شکاری معاشرے میں پیداواری قوتوں کو تلاش کریں تو  شروع میں ہمیں   پیداواری قوتوں میں انسانی ہاتھ پاؤں، دماغ  اور قدرتی قوتیں شامل تھیں جن کے استعمال سے   کھانے پینے اور حفاظت کے لیے درکار اشیاء حاصل کی جاتی تھیں۔ اس مرحلے پر انسان پیدا کچھ نہیں کرتا تھا بلکہ جو کچھ قدرت کی طرف سے پیدا کیا ہوا تھا اس کو استعمال کرتا تھا۔ ساری محنت اورہنر مندیاں جو کچھ ارد گرد    موجود  تھا اس کو حاصل کرنے اور استعمال کر نے  کے لیے درکار ہوتی تھی۔  لیکن جب انسان نے  ہاتھوں سے لکڑی  کے ڈنڈے اور پتھر استعمال کرنا شروع کر دیے تو یہ پیداواری قوتوں میں  پہلا انقلابی اضافہ تھا ۔   ہاتھوں کے  لچکدار اور ” آزادانہ” استعمال کے بعد  اشرف المخلوقات کے سفر کا یہ  دوسرا مرحلہ تھا ۔   اس  سے انسان کو    یقیناً  ارد گرد کے جانداروں پر  مزید  برتری یعنی اشرفیت   حاصل ہو گئی۔ کاشتکاری سیکھنے کے  بعد  پیداواری قوتوں میں انسانی جسم و دماغ کے ساتھ ساتھ پتھر اور لکڑی کے بنے  ابتدائی آلات اور اوزار   بھی شامل ہو گئے جن میں بتدریج  مسلسل استعمال اور اس استعمال کرنے کے عمل سے سیکھ سیکھ کر مزید اضافہ اور بہتری آتی گئی۔ ارتقاء کا عمل نہ صرف مسلسل  جاری و ساری رہا بلکہ تیز اور پیچیدہ  ہوتا گیا۔   موجود ہ عہد میں صنعتی معاشروں میں پیداواری قوتوں میں   ارتقاء کے طویل سفر کے دوران بہترین سیکھے ہوئے دماغ  نے اب دماغ سے باہر دماغ  (مصنوعی زہانت)   ایجاد کر لیا ہے۔ جس طرح پہلی بار  پاؤں پر کھڑا ہو کر ہاتھ استعمال کرنے کے عمل نے انسانی ارتقاء میں انقلابی تبدیلی کی تھی  اور اسے ارد گرد کے ان جانوروں پر فوقیت عطا کر دی تھی جو دو قدموں پر کھڑے نہیں ہو سکتے تھے اور ہاتھوں کو خود مختاری سے استعمال نہیں کر سکتے تھے  اور جس طرح ہاتھوں سے ڈنڈا یا پتھر استعمال کرنے کے ہنر نے انسان کو مزید  طاقت ور بنا دیا تھا  یعنی  انسان کے ہاتھ لمبے ہو گئے تھے اور کئی ہزار سال بعد  جس طرح  چھاپہ خانے نے   علم اور فہم و فراست کو  عام آدمی تک پہنچانے کا سفر شروع کیا تھا اسی طرح مصنوعی ذہانت در حقیقت انسانی دماغ کی  انقلابی وسعت ہے جو کہ ارتقاء کے سفر  کو مزید تیز اور وسیع کر دے گی۔  اس کو  پھر سے خلاصہ کر کے پڑھ لینا مفید رہے گا۔ انسانی تاریخ کے شروع زمانوں میں ( جو کہ ملین سالوں پر محیط تھے)  زیادہ استعمال انسانی جسم کا ہوتا تھا لیکن جوں جوں ابتدائی آلات  سے لے کر زندگی کی پیچیدگی اور  تنوع ( رنگا رنگی) میں اضافہ ہوتا گیا  دماغی صلاحتیں بھی کھلتی چلی چلی گئیں اور اب تو ہم جس زمانے میں رہ رہے ہیں وہاں دنیا کے کچھ ممالک کے کچھ حصوں میں تو جسمانی محنت پر دماغی محنت غالب آ رہی ہے اور جسمانی طور پر انسان کے پاس  فرصت اور تفریحی سے لطف اندوز  ہونے کے لیے زیادہ وقت ہوتا ہے۔   البتہ وسائل کی غیر مساوی تقسیم ، سامراجی راج اور سرمایہ پرستی کے باعث دماغی ترقی کے شاہکار انسانوں کی اکثریت کو میسر نہیں اور اربوں انسانوں کی زندگیاں چند صدیاں قبل کے عہد میں پھنسی ہوئی ہیں۔ بقول ارون دتی رائے  آج کی دنیا ( انہوں نے ہندوستان کے حوالے سے کہا تھا)  میں کئی صدیاں اکٹھے جی رہی ہیں۔   پیداواری قوتیں جسمانی و دماغی قوتوں کے امتزاج  پر مشتمل ہوتی ہیں۔ پیداواری قوتوں میں ترقی سے پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے اور اگر تقسیم کا نظام اچھا ہو تو خطے کی آبادی کی خوراک  میں بہتری آتی ہے اور ان کو دماغی  قوتوں کے مزید بہتر استعمال سے پیداوار کو بہتر بنانے کے لیے سوچ و  وچار اور غور و خوض کے لیے زیادہ وقت اور مواقع ملتے ہیں جس کے نتیجے میں پیداواری قوتوں میں مزید بہتری آتی ہے اور یوں پیداواری قوتوں کے ارتقاء میں تیزی آ جاتی ہے جس کے نتیجے میں پھر پیداوار  کی مقدار اور معیار میں بھی مزید  بہتری  پیدا ہوتی اور یوں یہ سلسلہ انسان کو ‘ ستاروں پر کمند ڈالنے ‘  اور  ‘ دماغ سے باہر دماغ’ کی  ایجاد تک لے آیا ہے   اور رکا نہیں ہے۔  کچھ ایسی ہی سوچوں سے کئی سال قبل میرے  دماغ میں یہ شعر پیدا ہوا تھا۔  خدا سے بھی ہو جائے گی  ملاقات ایک دن کھلتے جاتے ہیں اسرار آہستہ آہستہ میرپور میں پیداواری قوتوں کو دیکھیں تو  1960  کے عشرے تک یہاں کے کاشت کاری سماج  میں روزی پیدا کرنے کے لیے  پتھر  کے زمانے سے لے کر لوہے کے زمانے کے اوزار استعمال ہوتے تھے جن کو استعمال کرنے کے لیے انسانی محنت زیادہ تر جسمانی تھی ۔ تاہم پیداوار کو قائم رکھنے اور بہتر بنانے کے لیے اپنے مخصوص مادی حالات کی مناسبت سے دماغی محنت بھی ہزاروں سال تک   ارتقاء کا سفر کر کے اتنی ترقی کر چکی تھی کہ اوزراوں اور ہتھیاروں کو نہ صرف بہتر شکل دی جا چکی تھی بلکہ ان کے استعمال کے بھی کئی رنگ ڈھنگ سیکھے جا چکے تھے۔  کیونکہ  اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس طرح سے تخلیق کیا ہے کہ وہ جو عمل کرتا ہے  وہ اس کے دماغ میں محفوظ ہو جاتا ہے جس کو یاداشت کہا جاتا ہے۔ اس لیے اول روز سے انسان نے جو عمل کیا  وہ اس کی یاداشت میں محفوظ ہوتا گیا اور مسلسل عمل سے  وہ سیکھتا چلا گیا۔  اگر غور کریں تو  زندگی کے ہر شعبے میں  ہر علاقے میں اپنے اپنے مقامی ‘عالم’   موجود تھے  جو زمینداری سے لے کر صحت و تندرستی اور  ہنر و کاریگری کے میدانوں میں ماہرانہ علم رکھتے تھے۔ جن کومقامی زبان و ثقافت میں ‘ سیانے ‘ کہا جاتا تھا۔ پیداوار چاہے زمین سے اناج کی شکل میں ہو یا مختلف ہتھیار اور اوزار استعمال کر کے ارد گرد موجود  قدرتی  طور پر موجود اشیاء جیسے مچھلی، شہد،  جانوروں اور مفید و قیمتی  جڑی بوٹیوں  کا شکار یا لوہے، دھاتوں بشمول سونے سے ہتھیار اور زیورات بنانے کے ہُنر،   ان میں سے ہر ایک ہنر کے نام ور ماہرین موجود تھے ۔ بدقسمتی سے اور کئی مادی و سیاسی اندرونی اور بیرونی  وجوہات  کی بناء پر ہمارے یہ عظیم مقامی  ‘سیانے’ اپنا علم کسی تحریری شکل میں نہ لا سکے اور سینہ بسینہ بھی یہ ہم تک نہ پہنچ سکا۔ کیونکہ تحریری علم  خاص طور سے نصاب تعلیم جو رائج ہوا وہ  مقامی معاشرے یا مقامی ماہرین سے حاصل نہیں کیا گیا تھ بلکہ ہزاروں میل دور معاشروں سے درآمد کیا ہوا تھا اور اب بھی ہے۔   میرے خیال میں پیداواری قوتوں کا تصور اب کافی حد تک واضح ہو گیا ہے کہ پیداواری قوتیں کیا ہوتی ہیں ۔ پیداواری قوتوں میں  پیداوار کے لیے استعمال ہونے والی انسانی محنت (جسمانی اور دماغی)   اور اس سے استعمال ہونے والے آلات ہتھیار ،اوزار  اور ہنر مندیاں شامل ہوتے ہیں۔

اب آئیے معاشرے کے اس پہلو  کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ تجزیہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تھی۔ وہ پہلو ہے معاشرتی تعلقات۔ جس کی تفصیل اگلی قسط میں پیش کی جائے گی۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact