گاؤں “مسافر” کا ایک یادگار سفر: تحریر: حنا نور

گاؤں مسافر
گاؤں مسافر
گاؤں مسافر

گاؤں “مسافر” کا ایک یادگار سفر: تحریر: حنا نور

حنانور 

     “امی امی میں گاؤں جانا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔”

میں اس وقت آٹھ سال کی تھی اور گھر میں سب سے “چھوٹی” تھی تو سب میری بات مان جاتے تھے۔

میں گاؤں جانے کے لیے بضد تھی ، تو میری دو بڑی بہنیں ( مجھ سے ایک سال بڑی) جو “جڑواں” ہیں۔ ایک کانام سعدیہ، دوسری کا جویریہ ہے۔ وہ بھی امی کو منانے لگ گئیں: “امی ہم بھی جانا چاہتی ہیں” دل بہت پُر جوش تھا اور خوف بھی تھا کہ کہیں امی جانے سے روک نہ دیں۔ آخرکار ہم نے امی کو منا ہی لیا ۔امی نے کہا: کل شام تک واپس آجانا تاکہ سکول کا ناغہ نہ ہونے پائے، ہم اپنے بہنوئی جو کہ ہمارے چچازاد بھائی بھی ہیں ان کے ساتھ رکشہ پر ایک نئی منزل کی طرف چل پڑے ۔

گاؤں ہمارا آبائی وطن ہے، وہاں ہمارے بہت سے رشتے دار اور میری دو بہنیں رہتی ہیں۔

 ہمارے گاؤں کا نام “مسافر” ہے ۔کہا جاتا ہے کہ اس بستی میں ایک مسافر آدمی کا انتقال ہوگیا تھا جسے اس گاؤں میں  ہی دفن کیا گیا۔ اس کے بعد سے یہ گاؤں مسافر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ شہر سے ہمارا گاؤں تک دو میل کا فاصلہ ہے۔

  شہر کی آبادی سے نکلے تو ہر طرف سر سبز پیڑ ،پودے اور  کھیت نظر آرہے تھے۔ راستے کے ایک طرف کھیت تھے دوسری طرف پانی۔ بہنوئی مذاق کر رہے تھے کہ “میں تم لوگوں کو پانی میں گرا دوں گا”

ہمارے گاؤں کی طرف جاتے جاتے راستے میں دو اور گاؤں بھی تھے، راستے میں ایک بہت خوبصورت مسجد تھی اس کی دیوار چھوٹی ہونے کی وجہ سے مسجد باہر سے ہی مکمل نظر آرہی تھی۔

جتنا گاؤں کے نزدیک ہوتے جارہے تھے دل اتنا تیزی سے دھڑک رہا تھا۔

آخرکار ہم گاؤں کو پہنچ گئے، گاؤں میں بہت رونق تھی مٹی سے بنے ہوئے بڑے گھر، سب کے گھروں میں پیڑ، پودے، درخت، اور پالتو جانور تھے گاؤں ہر طرح سے آباد تھا۔

بہنوئی اپنے گھر لے آئے سب بہت خوش ہوئے ہمیں دیکھ کر، پھر دل کو سکون مل گیا۔

 شام ڈھلنے والی تھی، پرندے اپنے آشیانوں کو لوٹ رہے تھے، گھر کا صحن بھت بڑا تھا اس میں کھجور کا ایک درخت اور بید مشک کے درخت لگے ہوئے تھے۔ ان میں پرندوں نے گھونسلے بنائے ہوئے تھے، سفید سارس کی آواز سنائی دے رہی تھی ہر طرف سے۔ سفید سارس اپنے آشیانے میں پہنچ کے آوازیں کرنے لگتے ہیں پھر سو جاتے ہیں۔

“میں مانتی ہوں شہر میں رات بھی دن لگتی ہے

پر تو کبھی میرے گاؤں کی ڈھلتی شام دیکھ”

صحن کی دوسری طرف بھینسوں کا باڑہ تھا اور ایک کتا بھی تھا انکی حفاظت کے لیے اور مٹی سے بنا ہوا چھوٹا سا گھر تھا خرگوشوں کا، اس میں بہت سارے خرگوش تھے جو کہ گھاس کھا رہے تھے اور مرغیاں بھی تھیں صحن میں۔

     سردی کا موسم تھا تو بہن ہمیں باورچی خانے میں لے آئی، باورچی خانہ خاصہ بڑا تھا ، وہاں لکڑیوں کی آگ جل رہی تھی اس کے ارد گرد کھجور کے تنے سے بنے ہوئے قالین بچھائے ہوئے تھے ہم ان پہ بیٹھ گئے۔

وہ میرا گاؤں ہے، وہ میرے گاؤں کے چولھے

کہ جن میں شعلے تو شعلے دھواں نہیں ملتا

 رات کا اندھیرا ہوگیا تھا ۔بہن نے موم بتی جلا کے کھڑکی پہ رکھ دی، اور رات کا کھانا بنانے لگ گئی ۔ہمارے دو بھانجے بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گئے۔ ایک بھانجا مجھ سے بڑا ایک میرا ہم عمر ہے ۔ہم آپس میں باتیں کرنے لگے ۔میں سب کو کہانیاں سنا رہی تھی، میرا تکیہ کلام تھا “پھر یہ ہوا کہ” کہانی کا ایک جملہ پورا کر کے کہتی پھر یہ ہوا کہ ۔۔۔۔

میرا بڑا بھانجا ابو ہریرہ بہت شرارتی ہے وہ بات بات پہ مجھے ٹوک رہا تھا اور کہہ رہا تھا پھر یہ ہوا کہ پھر یہ ہوا کہ ۔۔۔۔

میں نے آخر کار ہکلاتے ہکلاتے کہانی مکمل تو کر دی لیکن میرا بھانجا اپنی شرارتوں سے باز نہ آیا۔

بہن نے کھانا بنا لیا ہم کھانا نوش کر کے بستر کی طرف گئے، بستر پر جاتے ہی سونے کے بجائے ہم سب بچے اپنی باتوں میں لگ گئے ۔رات کا اندھیرا تھا ۔کمرے میں صرف ایک موم بتی جل رہی تھی۔ مدہم روشنی تھی ۔ ابو ہریرہ کو شرارت سوجھی ہمیں ڈرانے کے لیے اپنی من گھڑت باتیں بتانے لگ گیا اور کہ رہا تھا: کہ “ہمارے ہاں ایک جن نے خود کو سانپ بنادیا ہے اور وہ رات کو آتا ہے ہمارے مرغی کے انڈے کھا جاتا ہے”۔

اس کی ڈراؤنی باتیں سن کر ہم نے سچ مان لیا میری تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی حیرانی سے کہ گاؤں میں یہ سب ہوتا ہے۔ اس کی باتیں، لمبی راتیں۔۔۔۔

 آخر کار کب نیند نے اپنے آگوش میں لے لیا پتہ ہی نہیں چلا۔

      صبح سویرے بہن نے اٹھایا ۔ہاتھ منہ دھوکے پھر سیدھا ہم سب باورچی خانے کی جانب گئے اور وہاں چائے کے ساتھ بسکٹ کھائے تو سعدیہ نے بتایا کہ “میرا ہاتھ نیچے لٹک رہا تھا صبح کو مرغے نے میرے ہاتھ کو زور کی چونچ ماری میں ڈر گئی” ہم سب اس کی بات پہ ہنسنے لگے۔۔۔۔۔

پھر مسجد کی طرف روانہ ہوئے، گاؤں کے بچے صبح سویرے مسجد جاتے تھے قرآن پاک پڑھنے کے لیئے۔ مسجد میں استاد جی قرآن پڑھا رہے تھے ۔ اس کے بعد استاد جی نے کہا “بچو! چھٹی سے پہلے مسجد کے صحن کی صفائی کر کے جانا”

مسجد کے صحن میں ایک نیم کا درخت تھا جس کی وجہ سے وہاں قدرے  گند گی پھیلی گئی تھی ،ہم سب بچے خوشی خوشی کام کرنے لگ گئے ۔کوئی صحن سے قالین سمیٹ رہا تھا تو کسی نے جھاڑو لگایا ۔جھاڑو دراصل کھجور کا تنا تھا اس سے صحن میں پڑے پتے ہٹا رہے تھے۔ مسجد کے صحن میں ایک جگہ بنی ہوئی تھی جس میں پانی بھرا جاتا تھا تاکہ بندہ آسانی سے وضو کر سکے ۔ہم نے نلکے سے پانی نکال کر اس میں ڈالا اس کو پانی سے بھر دیا اس کے بعد گھر گئے۔

     گھر پہنچے تو ناشتہ تیار تھا ناشتے میں لسی، مکھن، اور انڈے کھائے۔۔۔۔۔۔ چونکہ گاؤں میں صبح بہت جلدی سے ہوتی ہے تو  آٹھ بجے تک ہم نے کھانا کھا لیا تھا۔ اور ہم سب بچے خرگوش کے لیے گھاس کاٹنے گئے کھیت کی طرف چلے  گئے۔

گھر سے باہر دروازے کے سامنے ایک چھوٹا کنواں تھا اس کے ارد گرد گھاس اگی ہوئی تھی۔

ہم چلتے  چلتے کھیت  تک جا پہنچے۔ تر و تازہ ہری بھری کھیتیاں تھیں، کھیت کے کنارے پر درخت لگے ہوئے تھے ۔ سر سبز پتوں پہ شبنم کی بوندیں سورج کی روشنی کی وجہ سے چمک رہی تھیں ۔اتنا مزہ آرہا تھا  مگر گھر جانے کو دل ہی نہیں مان رہا تھا ۔ گھر تو جانا تھا خرگوش جو گھاس کے انتظار میں تھے،

ہم سب بچے مُٹھی بھر گھاس کاٹ کے ٹوکرے میں رکھ رہے تھے اور ٹوکرا بھر گیا تو میرا بھانجا اسے اٹھا کے گھر لایا ہم سب بھی اس کے ساتھ ہی تھے۔

پھر ہم تینوں بہنیں بڑی بہن جس کو ہم باجی کہتے ہیں کے گھر گئے ۔ ان کا گھر چھوٹی بہن کے گھر کے بالکل قریب تھا۔

وہاں میرے دو بھانجیاں جو کہ مجھ سے بڑی ہیں شدت سے ہمارا انتظار کر رہی تھیں  کیونکہ رات کو ہی انہیں ہمارے آنے کا علم ہو گیا تھا۔ بڑی بھانجی فردوس میری سہیلی بھی ہے۔ اس کی شخصیت بہت  پرکشش ہے اگرچہ وہ مجھ سے کچھ سال بڑی ہے لیکن اس کا دوستانہ رویہ اس بات سے بے پرواہ کرتا ہے کہ وہ مجھ سے بڑی ہے۔ سب نے پرجوش استقبال کیا۔

 باجی کا گھر بھی بہت بڑا تھا، صحن میں ایک طرف گائے اور بھینس تھی اور ایک کتا بھی تھا جو ہمیں ڈراؤنے انداز میں دیکھ رہا تھا اگر بر وقت ہماری بہن نہ آتی تو وہ ہمیں کاٹ بھی سکتا تھا کیونکہ باجی کا کہنا تھا کہ “یہ اجنبی شخص کو گھر نہیں آنے دیتا”

صحن میں ایک طرف بڑا باورچی خانہ تھا ۔صحن کے بیچ میں ایک بہت بڑا و گھنا نیم کا درخت تھا۔ صحن میں ایک اور دروازہ بھی تھا۔

     ہم صحن میں رکھی چارپائی پہ بیٹھ گئے ۔وہاں سورج کی تپش تھی، ہم سب آپس میں بات چیت کرنے لگے۔

 “بچوں کو تو باتوں سے زیادہ گھومنے پھرنے کا شوق ہوتا ہے” اس لیئے فردوس ہمیں گھمانے لے گئی ۔صحن کے دروازے کے باہر بہت سارے درخت تھے ۔دروازے کے بائیں جانب کھجور کے بڑے بڑے درخت تھے اس پر “گلو” نے اپنا قبضہ جمایا ہوا تھا ۔

گلو اتنی زیادہ پھیلی ہوئی تھی کہ کھجور کے درخت نظر ہی نہیں آرہے تھے گویا کہ گلو کا غلاف پہنا ہے میں نے گلو کے کچھ پتے توڑے۔ سامنے خالی میدان تھا اور دور دور تک کھیت دکھائی دے رہے تھے۔ باجی نے کہا بچو! “احتیاط کرو ویران جگہ ہے یہاں جن بھوت کا بسیرا ہے” یہ سن کر ہم گھر کی طرف آگئے۔

   اچانک وہاں گھر کے باہر سے ایک الارم نما آواز سنائی دی ۔ ایک آدمی شہر بیچنے کے لیے کچھ چیزیں لایا تھا۔ سب بچے وہاں دوڑتے چلے گئے اور اپنی اپنی پسند کی چیزیں لائے ۔باجی نے ہمارے لیئے بھی چیزیں منگوائی ۔خوب مزہ کیا ۔

پھر دو پہر کا کھانا بھی کھایااور چھوٹی بہن کے گھر گئے وہاں “بید مشک” کے درخت میں رسی سے بنا ہوا جھولا لگا ہوا تھا ۔میں اس جھولے میں بیٹھی ڈر بھی لگ رہا تھا کیونکہ جھولا بہت اوپر تک جارہا تھا لیکن بہت مزہ آرہا تھا۔

اس کے بعد گاؤں میں جو بھی  ہمارے رشتے دار تھے ان سے ملنے کے لیے گئے۔

اس دوران  میری جڑواں بہنوں سے پوچھنے لگ گئے کہ آپ میں سے جویریہ کون ہے، اور سعدیہ کون؟ وہ جہاں بھی جاتی تو ان سے یہ سوال ضرور کیا جاتا تھا۔ سب سے مل کر واپس آئے۔

    شام ہونے لگی تھی ہم تینوں بہنیں اور ہمارے دو بھانجے گھر سے باھر کھیلنے کے لیے گئے ، ان کا  کتا بھی ہماری حفاظت کے لیے  ہمارے ساتھ چل رہا تھا ۔ہم گھومتے گھومتے دور تک چلے گئے ۔گاؤں کے چاروں طرف سیلاب سے حفاظت کے لیے مٹی اور پتھروں کا ایک بند بنا ہوا ہوتا ہے ۔ ہم اس بند کی دوسری جانب گئے جہاں بہت ساری کھیتیاں تھیں۔

 وہاں ایک قطار میں آم کے درخت تھے ۔ان درختوں کی گھنی چھاؤں کے نیچے دو چار پائی رکھی ہوئی تھی اور سامنے پانی کی موٹر لگی ہوئی تھی جس میں سے وافر مقدار میں پانی بہ رہا تھا ۔پا نی  بہت صاف و شفاف تھا ۔ہم نے چلو بھر کے اس میں سے ٹھنڈا پانی پیا اور چار پائی پہ بیٹھ گئے پھر کھیت میں گھس کر پکڑن پکڑائی کھیلتے  رہے جس سے کھیت کو نقصان ہو رہا تھا ۔
اچانک  مالی آیا جس کے ہاتھ میں ڈنڈا تھا۔ اس کو دیکھ کر ہم  وہاں سے ایسے بھاگے کہ چپل پہننے کی بھی زحمت نہ کی اور ہاتھ میں چپل لے کہ پوری رفتار  میں وہاں سے بھاگے خوف بھی تھا لیکن شرارت سے باز نہ آئے ہم بھاگتے بھاگتے بند سے نیچے اتر رہے تھے کہ میرا پیر پھسل گیا اور میں زمین پہ آ گری زمیں پہ مٹی تھی اس وجہ سے کوئی چوٹ تو نہ لگی البتہ کپڑے گندے ہوگئے۔

آخر کار ہم گھر پہنچے تو بہن نے اپنے بیٹے کے کپڑے مجھے پہنے کو دیئے ۔میں نے  منہ ہاتھ دھوکر وہ کپڑے پہنے، مجھے لڑکوں والےحلیے میں دیکھ کر سب ہنس رہے تھے۔

 اب چونکہ شام ہو گئی تھی  اس لیے ہمیں گھر جانا تھا ۔

ہم باجی کو خدا حافظ کہنے کے لیے گئے تو اس نے ہمیں پیسے پکڑائے اور چھوٹی بہن نے بھی ہمیں پیسے دیئے جو کہ ان کی رسم تھی کہ جب کوئی بچہ گھومنے جاتا تو گاؤں والے بطور ہدیہ پیسے دیتے اور کھجور کے موسم میں کھجور دیتے۔

 شام ڈھلنے کو تھی ۔ہم بھی گاؤں اور گاؤں والوں کی  حسین یادیں سمیٹ کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے ۔

 اس دوران ہماری بہن اس وقت تک ہمیں  بہن دیکھتی رہی  جب تک ہم اس کی آنکھوں سے اوجھل نہ ہوئے۔

“زاد سفر میں گاؤں کی یادوں کو باندھ کر

شہروں کو لوٹتی ہوئی آنکھوں کی خیر ہو ۔”


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.