شمس رحمان

معاشرےاورمعاشرتی تبدیلی پرسلسلہ وار کالم(4)

لیکن پھربتدریج تجربات سے سیکھنے کی انسانی صلاحیت کی وجہ سے ارتقاء کی  شاہراہ پر انسانی تاریخ کا پہلا انقلاب برپا ہوا۔  انسان نے ( خالق کی طرف سے دی گئی ( کچھ کہیں گے ) ارتقاء پذیر ہونے والی صلاحیتوں کو استعمال کر کے)   خود ‘روزی’  اناج / خوراک  پیدا کرنا سیکھ لیا۔ اس کی ابتدائی ترین شکل ناج اگانا تھا۔ یہ ایک دلچسپ بحث ہے کہ روزی خود پیدا کرنے  یعنی ناج اگانے کا راز مرد نے سیکھا یا عورت نے؟   یہ عام طور پر مانا جاتا ہے کہ  عمومی طور پر شکاری معاشرے میں مرد شکار کر  کے لاتا تھا جب کہ عورت چیزیں جیسے   قدرتی طور پر اگے پھل و سبزیاں  وغیرہ   اکٹھی کر کے/ جمع کر کے لاتی تھی۔    پہلے  عورت نے اناج اگانے کا عمل سیکھا۔  قدیم یونان میں تو ذراعت  کی دیوی بھی عورت تھی ۔ تاہم  قدیم  زمانوں کے بارے میں  نئے آثار قدیمہ ملنے کے بعد  معلوم ہورہا ہے کہ   یہ دعویٰ پوری طرح درست نہیں ہے۔  قدیم عورت بھی شکار کر سکتی تھی اور شکار پر جاتی بھی تھی۔   لیکن یہاں  ہم اس بحث کی تفصیلات میں یہاں نہیں جا سکتے۔ (آخر میں کتابوں اور مضامین کے لنک دیے ہوئے ہیں)
ہمارے اس تجزیے کے لیے یہ جاننا ضروری  ہے کہ دنیا کے جن آٹھ  جغرافیائی مراکز  میں  کاشت کاری کے عمل کی شروعات ہوئیں ان میں کشمیر  اور پنجاب بھی شامل  ہیں۔  اس کا مطلب ہے کہ میرپور بھی  ان خطوں میں شامل ہے جہاں قدیم عہد میں کاشت کاری کا آغاز ہوا۔   کیونکہ جدید قومی ریاستوں اور شناختوں سے پہلے میرپور ثقافتی اور جغرافیائی اعتبار سے  پہاڑی اور    پنجابی  اور کبھی کشمیر   کے مفتوحہ   مضافاتی علاقوں  سے  منسلک رہا ہے۔
(شکاری و ماہی گیری سماج  اور دیگر سماجوں میں  پیداوار کے آلات کیا تھے؟ انسانی محنت کی کیا شکل تھی اور پیدوار کے عمل سے پیدا ہونے والے رشتوں ناطوں  سے تشکیل ہونے والے  سماج کی کیا شکل  و صورت تھی اس  بحث کے لیے الگ حصہ رکھا ہے  تاکہ  انسانی اور میرپوری  معاشرے میں معاشرتی ارتقاء کی کہانی بہت  زیادہ پیچیدہ نہ ہو  جائے۔ )
جب شکار  اور قدرتی خوراک کے ساتھ  ساتھ پیداوار  زراعت  سے بھی ہونے لگی تو  ظاہر ہے کہ خوراک میں اضافہ ہوا لیکن مادی بنیاد ( روزی  کے ذرائع ،  انسانی محنت، آلات پیداوار) بدلی تو    اس وقت کے انسانی  معاشرے میں دور رس تبدیلیوں کا عمل بھی شروع ہوگیا۔ جو اس حصے کے آخر میں پیداواری تعلقات کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے۔
کاشتکاری یعنی زراعت کی دریافت انسان کے لیے انتہائی اہم انسانی دریافت تھی۔  اس کے بعد ہزاروں سالوں انیسویں صدی  تک  زمین ہی اپنے باسیوں کے لیے  روزی کا مرکزی اور بڑا زریعہ رہی۔
ہزاروں سالوں پر پھیلے اس عہد میں  اشیائے استعمال ہاتھوں سے تیار کی جاتی رہیں۔ لیکن اٹھارہویں صدی کے انگلینڈ  میں  بھاپ یعنی سٹیم سے چلنے والے  انجن ، کئی تکلوں والے چرخے ( سپنڈل جینی)   ، روئی پیلنے (  پنج نے )    والی مشین  اور ابلاغ /پیغام رسانی کے لیے تار ( ٹیلی گراف)  جیسی ایجادات نے  پیداوار کے عمل کو صنعتی انقلاب  کی راہ پر ڈال دیا ۔
اس زاویے سے دیکھیں تو دنیا میں  ذرائع پیداوار  یعنی روزی پیدا کرنے کے ذرائع کے ارتقاء کی تین شکلیں قدیم سے آج کے زمانے تک رہی ہیں۔
شکاری
کاشت کاری  اور
صنعت کاری۔
شکاری شکل میں روزی زمین پر مختلف   قدرتی اشیاء  کی شکل میں موجود ہوتی ہے۔  انسان اس کو حاصل کر کے استعمال میں لاتا  یعنی کھاتا پیتا   تھا۔ حاصل کرنے کا یہ عمل شکار اور اکٹھا کر کے لانے پر مشتمل تھا۔ انسان کی قابلیت ابھی اتنی ہی تھی۔  انسان خود پیدا نہیں کر سکتا تھا۔
کاشت کاری عہد میں زمین سے  اناج  خود مگر ہاتھوں سے اگایا جاتا اور استعمال کیا جاتا  تھا ۔انسان نے خود پیدا کرنا سیکھ لیا۔ یہ عہد ہزاروں سال تک چلا اور کئی خطوں میں آج بھی  جاری ہے۔
جبکہ صنعتی عہد  انسان کی طر ف سے  ہزاروں سالوں کے ارتقا کے دوران  کیے جانے والے  کام، تجربات اور مشائدات سے حاصل کردہ علم کی روشنی میں نت نئی  ایجادات کرنے  کے قابل ہو جانے سے شروع ہوا ۔ اس عہد کی پہچان یہ تھی کہ اس میں   ہاتھوں کی بجائے مشینوں سے کام کرنا شروع ہوا۔  جس کا نتیجہ یہ تھا کہ پیداوار اور مستعدی   اور مسابقت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا  ۔   قیمتوں میں کمی ہونے لگی ، تنخوائیں بڑھیں اور دیہاتوں سے شہروں کی طرف ہجرت میں بھی تیزی آئی۔ صنعتی ممالک میں انسانی سماج ایک نئے عہد میں داخل ہو گیا۔

(جاری  ہے )
اگلی قسط نمبر ۵ ۔۔۔ میرپوری معاشرے میں پیداواری زرائع کا ارتقا

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact