طلاق کی بڑھتی شرح اور اس کے اسباب / بنت حافظ یاسین

طلاق کی بڑھتی شرح اور اس کے اسباب / بنت حافظ یاسین

بنت  حافظ  یاسین
آج پوری دنیا میں خاندانی نظام بتری اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ مغربی کلچر نے تو اس خاندانی نظام کی خوشگوارگی اور فیوض و برکات سے اپنے آپ کو آزاد کر رکھا ہے اور اس کی جگہ بہت سی صفاتِ ذمیمہ میں مبتلا ہو چکا ہے۔ لیکن افسوس کہ آج مسلم معاشرے میں بھی اس نظام کی بقا کچے دھاگے سے لٹکنے کے مترادف ہے اور باقی معاملات کے ساتھ ساتھ خصوصاً خاندانی نظام کو منتشر کرتے ہوۓ مغربی کلچر کی شکل و نوعیت اپنانے میں آج مسلم معاشرہ پیش پیش ہے۔ جس کا  نتیجہ زوال و پسماندگی کی صورت میں مل رہا ہے۔
آج مسلم معاشرہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ والہ و سلم)  کے فرمان ” تم یہود و نصارٰی کے طریقوں کی پیروی کرو گے یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کی بل میں داخل ہوئے تو تم بھی اس میں داخل ہو گے” کی ایک تصویر ہے ۔
اسلامی معاشرے کا اصل رخ تو یہ ہے کہ جن مردوعورت میں اسلامی اصول کے مطابق  ازدواجی تعلق قائم ہو. وہ پائیدار اور عمر بھر کا رشتہ ہو گا. جس سے ان دونوں کا دین و دنیا بھی درست اور ان سے پیدا ہونے والی اولاد بھی اعمال و اخلاق میں شریعتِ مطہرہ کے مطابق ہو گی ۔ اس لئے اس پاکیزہ رشتے کو تلخیوں, رنجشوں اور چپقلشوں سے دور رکھا جائے. ورنہ اس کے برے نتائج علیحدگی اور طلاق کی صورت میں سامنے آتے ہیں ۔چونکہ طلاق اللّٰہ تعالی کے نزدیک نہایت مبغوض عمل ہے. جہاں تک ممکن ہو اس سے بچنا چاہیے۔نبی کریم (صلی اللہ علیہ والہ و سلم) کا فرمانِ گرامی ہے ” تزوّجوا ولا تطلّقوا فانّ الطّلاق یھتزّ منہ عرش الرّحمٰن ” نکاح کرو طلاق نہ دو کیونکہ طلاق سے عرشِ رحمٰن ہل جاتا ہے ۔
نکاح و طلاق کا معاملہ ہر مذہب و ملّت میں عام معاملات کی طرح نہیں کہ طرفین کی رضامندی سے جس طرح چاہیں کر لیں.بلکہ ہر مذہب وملت کے لوگ اس پر متفق ہیں کہ ان معاملات کو ایک خاص مذہبی تقدّس اور مرتبہ حاصل ہے۔ اور انہی مذہبی ہدایات کے تحت یہ معاملات سر انجام ہونے چاہییں.اسی لیۓاگرچہ اسلام نے ” طلاق” کی حوصلہ افزائ نہیں کی بلکہ حتّی المقدور اس سے روکا اور صلح کی ترغیب دلائ ہے.لیکن اس کے باوجود طلاق کے کچھ اصول و ضوابط قائم کیۓ ہیں کہ اگر یہ رشتہ ازدواج ختم کرنا  ضروری ہی ہو جاۓ تو خوبصورتی اور شریعت کے اصولوں کے مطابق قطع کیا جاۓ.جس کی تعلیم ہمیں سورۃ الطّلاق میں ملتی ہے.
طلاق کی اس بڑھتی ہوئ شرح کے اسباب میں بہت سےعوامل شامل ہیں.جن میں سے چند درج ذیل ہیں ۔
غیر ذمہ دارانہ رویہ
ہمارے معاشرے میں اگر کوئ لڑکا یا لڑکی کسی ذہنی انتشار کا شکار ہے تو اسکا حل بھی شادی ہی میں ڈھونڈا جاتا ہے.اگر کوئ غیر ذمہ دارنہ رویہ اختیار کر رہا ہے تو اسکو (اُلجھ جاۓ گا تو سلجھ جاۓ گا ) مطلب (شادی کردو خود ہی سدھر جاۓ گا ) جیسی سوچ رکھ کر بیاہ دیا جاتا ہے جس کے نتائج شادی کے بعد دو خاندانوں میں نفرتوں اور طلاق کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔
جوائنٹ فیملی سسٹم
ساس ,نند ,دیورانی وغیرہ کے برے رویۓ اور چالیں صرف ڈراموں اور فلموں کی ہی رونق نہیں بلکہ یہ برائیاں جوائنٹ فیمل سسٹم کی صورت میں ایک پاکیزہ عقد کو توڑنے کا بھی سبب بنتی جا رہی ہیں جسمیں بے پردگی اور غیر محرموں (دیور ,جیٹھ ) وغیرہ سے اٹیچمنٹ اس قطع رحمی کا سبب بنتی ہے.ایک مکان میں متعدد افراد میں سے ہر حقدار کو اس کا حق نہ ملنا اور اس سے اچھا سلوک نہ کرنا رنجشوں اور دوریوں کا سبب ہے۔
کم عمری کی شادیاں
ہمارے پاکستان خصوصا دیہاتی علاقوں میں کم عمر بلکہ بچپن سے لڑکے, لڑکیوں کا نکاح کروا دیا جاتا ہے. پھر اس بچگانہ ذہنیت کے نتائج خطرناک ثابت ہوتے ہیں .اور بعد از بلوغت پسند و نا پسند کو آڑ بنا کر طلاق کی نوبت آجاتی ہے۔
عدمِ برداشت

عدمِ برداشت کا مرض جہاں زندگی کے ہر معاملے میں نقصان دہ ہے.وہیں یہ مرض میاں بیوی کے نازک رشتے میں کسی زہر آلود خنجر سے کم نہیں .اکثر اوقات شوہر چھوٹی سی بات کو انا کا مسئلہ بنا کر طلاق دے دیتا ہے.جبکہ بعد میں پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا .ایسی ہی صورتحال عورت کی طرف سے بھی دیکھی جاتی ہے۔
کفو کا نہ ہونا
شریعت میں اس بات کا بہت خیال رکھا گیا ہے کہ بے جوڑ نکاح نہ کیا جاۓ .یعنی لڑکی کا نکاح کسی ایسے لڑکے سے نہ کیا جاۓ جو اسکے برابر کا نہ ہو.
کفو کا اعتبار پانچ چیزوں میں ہوتا ہے۔1:نسب    2: مسلمان ہونا 3: دینداری  4: مال  5: پیشہ
عموما کفو کا نہ ہونا بھی طلاق کا باعث بنتا ہے
اس کے علاوہ مالی تنگی, اسلامی تعلیمات سے دوری,موبائل فون کا غلط استعمال ,بد گمانیاں بھی طلاق کے اسباب میں شامل ہیں ۔
(الامان ,الحفیظ)


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.