ممتاز شیریں

ائیر ہوسٹیس نے قطر آمد کی اناؤنسمنٹ کی اور جہاز قطر انٹر نیشنل ائیر پورٹ پر لینڈ کر گیا ۔
یہ ائیر پورٹ سندر آنکھوں اور سہانے خوابوں کی طرح خوبصورت ہے ۔ یہاں مختلف ائیر لائنز کے سینکڑوں جہاز اترتے ہیں اور اڑان بھرتے ہیں جس نے دنیا دیکھنی ہو وہ قطر کا جدید انٹر نیشنل ائیر پورٹ دیکھ لے ۔ ایک جہان ہے اور اس جہان کے اندر کئی جہان آباد ہیں۔ مختلف ملکوں اور تہذیبوں کے لوگ ، بھانت بھانت کی بولیاں ، افسانوی کرداروں کی طرح چلتے پھرتے مسافر ، دریچوں میں رکھے ہوئے پھولوں کی طرح خوبصورت چہرے ، درودیوار کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے خوبصورتی ان پر فریفتہ ہو گئی ہو ۔
چمتکار ہے اور اس چمتکار میں سب چمکدار ہے ۔
چکنے فرش اور اس پر بڑے سلیقے سے سجے ڈیوٹی فری شاپس ،ان میں رکھی دلکش ڈیزائنر کی  بوتلیں جن کے عکس دیکھنے والوں کی آنکھوں سے چھلکتے ہیں۔
“نہ شب کو دن سے شکایت، نہ دن کو شب سے ہے”

پردیسی آنکھیں جنہوں نے اپناوطن چھوڑتے وقت ماں باپ کے روتے چہروں کی جانب ایک بار دیکھا تھا یہاں ایک ایک نقش کو ہزار ہزار بار مڑ مڑ کر دیکھتے نہیں تھکتیں وہ قدم جن کے لیئے بیوی بچوں کی محبت زنجیر نہ بن سکی یہاں بغیر زنجیر کے جیسے ساکت ہو گئے ہیں کہ جیسے چلنا بھول گئے ہوں۔ ہمارے دیہات سے تلاش روزگار میں آئے نوجوان پھٹی پھٹی  آنکھوں سے اس جہان رنگ و بو کو یوں دیکھتے ہیں جیسے میلے میں گُم ہو گئے ہوں۔
سہمے سہمے ہوئے ۔۔۔۔سمٹے سمٹے ہوئے۔۔

کانپتے ہاتھوں میں ویزہ فارم لیے

” زندگی ہم تیرے بھروسے پر
اس طرح اس جہان میں آئے
جیسے اندھا فقیر شام ڈھلے
جگمگاتی دکان پر آئے
جیسے سہما ہوا کوئی لڑکا
کمرۂ امتحان میں آئے “

تیسری دنیا کے نسل در نسل غلاموں نے یہاں آتے ہی ایک نئی غلامی بخوشی قبول کر لی ہے۔
پاکستان کی زرخیز مٹی قطر کی ریت اور بجری میں مل رہی ہے جس سے دیو قامت بلند و بالا اور فلک بوس عمارتیں سر اٹھا رہی ہیں جن کی شان و شوکت ، خوبصورتی اور بلندی پوری دنیا کے لیئے توجہ کا مرکز بن رہی ہے ۔ مگر ان کو دیکھ کر کسی کو یہ خیال نہیں آتا ہے کہ ان کی خوبصورتی میں کس کس ملک کے انجینئر کا کمال ہے ۔۔؟
کوئی ایک لمحے کو بھی نہیں سوچتا ہےکہ کن کن ملکوں کے مزدوروں کا پسینہ اس کی بنیادوں میں شامل ہے ۔
” نام تو شیخ کا ہوگا “

یہاں میرے وطن کے مزدوروں کے لئیے حیات بوجھ اور زندگی وبال ہے۔ قطر اس بھٹہ مالک کی طرح ہے جو مزدوری تو زیادہ دیتا ہے لیکن مزدور سے قیامت خیز گرمی ، جھلساتی دھوپ  اور آگ کے شعلوں کے درمیان کام لینے کا ہنر جانتا ہے

پاکستان میں رکشوں اور ٹرکوں کے پیچھے بڑے دلچسپ جملے لکھے ہوتے ہیں ۔ ایک رکشے کے پیچھے لکھا تھا ” فاصلہ رکھیں ورنہ پیار ہو جائے گا ”
قطر کی خوبصورت کشادہ سڑکیں، آسمان سے باتیں کرتی ہوئی عمارتیں ، بلند و بالا شاپنگ مالز ، بارونق بازار ، خوبصورت گھر ، لش پش کرتی گاڑیاں اور رومانوی داستانوں جیسی درسگاہیں ۔۔۔خوابوں کا یہ شہر ہمارے اندر رچ بس جاتا ہے اور ہمیں سچ مچ اس سے “پیار” ہوجاتا ہے۔

یہ ملک اس بے نیاز صوفی کی طرح ہے جس کو اپنے ارد گرد بیٹھے لوگوں میں سے کسی کے آنے یا چلے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے اور اگر کوئی اس کے زیادہ قریب ہو کر کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ اسے ابتدا میں دکھ دیتا ہے ۔تکلیفیں دیتا ہے اسے کندن بنانے کے لیئے مصیبتوں اور آلام کی بھٹی سے گزارتا ہے اس کی حتی المقدور کوشیش ہوتی ہے کہ آنے والا بھاگ جائے مگر سخت جان اور صابر و شاکر کو وہ گلے سے لگا لیتا ہے اور اپنی نعمتوں کے سب دروازے اس پر کھول دیتا ہے ۔قطر بھی ایسے ہی مزاج کا ملک ہے۔ دکھ دینے والا ، تکلیفیں دینے والا۔۔ مگر ثابت قدم رہنے والوں کے لیئے زندگی کی آسائشوں کی بارش کرنے والا۔

قطر نے اپنی طرف اٹھنے والی امید بھری نظروں کو بہت کم مایوس کیا ہے ۔ سپنے دیکھنے والی آنکھوں کو چوما ہے ۔ انہیں سپنوں کی تعبیر پوری کرنے کے مواقع فراہم کیے ہیں ۔ دستک دینے والے باہنر ہاتھوں کے لیئے ان کی قسمت کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ قطر میں روزانہ ہزاروں لوگ اپنے بریف کیسوں میں خواہشوں کے کلر بکس بھر کر لاتے ہیں اور ان میں تکمیل کے رنگ بھر کر واپس لوٹ جاتے ہیں ۔

آواز دے کے چھپ گئی ہر بار زندگی
ہم ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار آگئے
یہ سوچ کر کے غم کے خریدار آگئے
ہم خواب بیچنے سر بازار آگئے۔

جہاں میں رہتی ہوں وہاں صحرا اور سمندر گلے ملتے ہیں ۔ میری آدھی زندگی صحرا اور سمندر کے درمیان رہتے گزری ہے۔
آج سے  30 سال قبل جب میں یہاں آئی تھی تو ایک کچی ٹوٹی پھوٹی سیدھی سڑک تھی جو شہر سے 100 کلو میٹر دور میری رہائشی کالونی تک جاتی تھی جس پر دوڑتی گاڑی میں بیٹھی میں سوچا کرتی تھی کہ
” منزل کا پتہ ہے نہ کسی راہ گزر کا
بس اک تھکن ہے جو کہ حاصل ہے سفر کا”

لیکن گذشتہ 10 سالوں کے اندر قطر میں سانپ کے کینچلی بدلنے کی مانند تبدیلی آئی ہے ۔تضاد زندگی کا حسن ہے اور یہ حسن قطر میں مجھے بتدریج نظر آیا ہے یہاں کی بد صورتیوں کو اپنی آنکھوں سے خوبصورتیوں میں ڈھلتے دیکھا ہے ۔ اونٹ کی طرح سست رفتار زندگی کو بلٹ پروف ٹرین کی طرح تیز رفتار ہوتے دیکھا ہے ۔ قطر میں ترقیاتی کاموں نے اپنا جال بچھایا ہوا ہے جتنی کرینیں یہاں کام میں لگی ہوئی ہیں ہمیں ڈر ہے کہ کچھ عرصے میں لوگ کرینوں کو قطر کا قومی پرندہ نہ سمجھنے لگیں۔
ماہی گیروں کی بستی سے  ترقی کی  شاہراہ تک

تحیر اور ترقی کا نمونہ قطر
تحیر اور ترقی کا نمونہ قطر

    یہ بات ہم سب کو بہرحال سمجھنا چاہئے کہ آخر چند برس قبل تک ماہی گیروں کی بستی سمجھا جانے والا پسماندہ ملک آج دنیا بھر کی توجہ کا مرکز کیسے بنا ؟
ایک خوشحال، ترقی یافتہ معاشرہ قائم کرنے کی شرائط میں امن و سکون، استحکام، دیانت داری اور باصلاحیت قیادت لازم و ملزوم ہے ۔۔!

خلیج فارس میں سمندر کے کنارے ایک مچھیروں کی بستی تھی وہاں ایک بڑا پرانا بوڑھا درخت ہوا کرتا تھا اس درخت کو بستی والے” الدوحہ” کہا کرتے تھے جس کے معنی “بڑا درخت ” کے ہیں اس وجہ سے اس بستی کا نام “الدوحہ” پڑ گیا۔ 1850 میں یہاں ایک باقاعدہ شہر کی بنیاد پڑی ۔ آج یہ شہر قطر کا دارالحکومت ہے۔اور ملک کا سب سے بڑا شہر بھی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ملک کی نوے فیصد آبادی اسی شہر میں آباد ہے۔ 1991 میں قطر کو آزادی ملی جس کے بعد سے یہ ملک تیزی سے ترقی کے مراحل طے کر رہا ہے۔

قطر کے قابل دید مقامات
قطر یونیورسٹی، قطر نیشنل میوزیم ،الجزیرہ ٹی وی چینل ،اور ایجوکیشن سٹی ،سدرہ میڈیکل کو قطر میں امتیازی مقام حاصل ہے یہاں کی معیشت کا دارومدار تیل اور قدرتی گیس پر ہے ۔ موسم کے لحاظ سے دوسرے عرب ملکوں سے مختلف نہیں ۔ گرمیوں میں درجہ حرارت 50 سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے یہاں موسم اتنا گرم رہتا ہے کہ گھاس “پھوس” میں اور پھول “دھول” میں بدل جاتے ہیں
دوحہ آنے والوں کے لیئے ایک اہم اور قابل دید مقام یہاں کا تاریخی میوزیم ہے اس میوزیم کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں صرف تاریخی نوادرات ہی نہیں بلکہ قطر کی قدیم ثقافت اور معاشرت کو بھی محفوظ کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ موتیوں کی تلاش میں غوطہ خوری کرنے والے ماہی گیروں سے لے کر کاشتکاروں تک قطریوں کے روایتی طرز حیات کی عکاسی اس میوزیم میں بہت خوبصورتی کے ساتھ کی گئی ہے۔
یہاں آپ قطر کے قدیم روایتی لباس، رسومات،قدیم ہتھیاروں اور فنون کے بارے میں بھی آگاہی حاصل کر سکتے ہیں۔
قطریوں نے اپنے ورثے کو سنبھالنے کی پوری کوشیش کی ہے نئے بنائے جانے والے بازاروں میں قدیم کی عکس گری کی گئی ہے۔
بازار میں داخل ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ مصر کے قدیم بازار میں داخل ہو گئے ہیں ۔ قدیم بازاروں کا ماحول، لالٹینوں کی مدھم روشنی، پورے بازار کی عمارت کو مٹی اور گارے سے لیپا گیا ہے ۔ قدیم لکڑی کے دروازے اور قدیم آرائشی ساز وسامان “سوق واقف” کی پہچان ہیں۔
قطر میں سمندر کے بیچوں بیچ ایک شہر بھی “پرل سٹی” کے نام سے آباد کیا گیا ہے یہ سٹی بنیادی طور پر سمندر سے ریت نکال کر بنائی  گئی ہے اور اس کی تعمیر میں لاکھوں ٹن پتھر استعمال ہوا ہے تعمیر کی تفصیلات تو انتہائی پیچیدہ اور خشک ہیں لیکن اتنا کہنا کافی ہوگا کہ دنیا کی بہترین ،کثیر سرمائے اور جدید ترین ٹیکنالوجی کی بدولت وجود میں آئے اس پرل سٹی کو دیکھ کر “زندگی کشف و کرامات نظر آتی ہے ۔”
قطر۔۔آئینوں کا جہاں
متحدہ عرب امارات کی سات ریاستیں سات سہیلیوں کی طرح اپنی  خوبصورتی عیاں کرنے ہاتھوں میں ہاتھ دئیے ایک ساتھ کھڑی ہیں جیسے کسی مقا بلہء حسن میں شریک ہوں لیکن دنیا کی نظر انتخاب ہر بار قطر پہ ہی جا کر ٹھہرتی ہے اس لیئے کہ قطر ماڈرن ہے ۔۔۔جدید ہے۔۔۔!
قطر نے اپنے ہاتھوں میں یک رنگی چوڑیاں نہیں پہنی ہیں بلکہ کانچ کی رنگا رنگ چوڑیاں سجائی ہیں جو کھنکتی ہیں تو دل و جان لٹانے والے خود بخود کھنچے چلے آتے ہیں ۔ یہ اپنے جلوؤں سے حیران کرتا ہے حیرت کا اک در بند ہوتا ہے تو دوسرا کھلتا ہے یوں لگتا ہے جیسے بچپن لوٹ آیا ہو ۔
قطر کی سر زمین پہ پاؤں رکھتے ہی یوں لگتا ہے جیسے ہم آئینوں کی دنیا میں آ گئے ہوں ہر آئینے میں ایک الگ جہاں آباد ہے۔ متحدہ عرب امارات  کی دیگر ریاستوں کی طرح قطر مدرسے میں پڑھنے والا بچہ نہیں بلکہ اس سے بھاگا ہوا لڑکا ہے جو اپنے کھلنڈرے پن ،شوخ اور چنچل مزاج کی وجہ سے آزادی ملنے کے بعد اپنے شوق پورے کر رہا ہے مگر اس کے باوجود مدرسے کی تربیت اور ماحول اس کے اندر سے گیا نہیں ہے وہ اپنے نام، تہذیب اور اقدار کے حوالے سے اب بھی اسلامی ہے
فیفا ورلڈ کپ

فیفا ورلڈ کپ
فیفا ورلڈ کپ

دسمبر  2022 میں قطر نے فیفا ورلڈ کپ (کاس العالم )کا انعقاد کیا۔  قطر کی حکومت کے شاندار انتظامات اور اتنے بڑی تعداد میں غیر ملکیوں کو ایسی خوش اسلوبی سے سنبھالنا بھی حیران کن تھا۔ قطر نے اس ورلڈ کپ پر پانی کی طرح پیسہ بہایا، انتظامات اتنے عمدہ تھے کہ غیر ملکی میڈیا اور ماہرین کے ساتھ اتنی بڑی تعداد میں آنے والے یورپی اور مغربی شائقین کو معمولی سا نقص بھی نہ مل سکا۔ عالمی میڈیا کسی کمزوری، خامی یا انتظامی نااہلی کو ڈھونڈتا رہا مگر قطری انتظامیہ اور عوام زبردست طریقے سے سرخرو ہوئی۔

قطر نے اپنے کلچر اور اسلامی اخلاقیات کو بھرپور انداز میں پیش کیا اور اخلاقی اصولوں پر کمپرومائز نہیں کیا۔ اسٹیڈیم میں شراب کی فراہمی کے حوالے سے سخت قوانین تھے، ہم جنس پرستوں یعنی ایل جی بی ٹی کو اپنے جھنڈوں اور سرگرمیوں کے حوالے سے کوئی رعایت نہیں ملی۔ اس پر خاصا شورمچا، بعض یورپی ممالک کی ٹیموں نے احتجاج کیا۔ بعض کپتانوں نے احتجاجی پٹی بازو پر باندھ کر میچ کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ مغربی میڈیا نے بھی بہت شور مچایا۔ مگر قطر اپنے اصولوں پر ڈٹا رہا۔
قطری حکومت نے کہا کہ۔۔” ہم اٹھائیس دنوں کے اس ٹورنامنٹ کے لئے اپنا مذہب نہیں تبدیل کر سکتے۔”
قطر نے اہلِ مغرب کو باور کرادیا کہ۔۔۔!

دیارِ مغرب کے رہنے والو
خدا کی بستی دکاں نہیں ہے۔۔!!

قطر نے فیفا ورلڈ کپ کا جس خوبصورتی سے انعقاد کیا۔ اس نے دنیا بھر کے لوگوں اور بالخصوص مسلمانوں کا دل موہ لیا ہے
مجھے یہ کہنے میں کوئی مبالغہ آرائی کا خدشہ نہیں کہ قطر بازی لے گیا ہے۔ قطر  نے کھیلوں کی دنیا کے سب سے بڑے ایونٹ کو دعوت اسلام کا نہ صرف ذریعہ بنایا بلکہ کھیل کے نام پر اپنا پیسہ اسلام کے لیے انویسٹ کردیا ۔
قطر نے دنیا بھر سے سینکڑوں علمائے کرام اور اسکالرز منگوائے۔جنہوں نے مختلف زبانوں میں تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیا۔ دو ہزار مقامی علماء کرام بھی فیفا ورلڈ کپ میں میچ کے درمیان ڈیوٹی کرتے رہے ۔
میں جب البیت اسٹیڈیم میں داخل ہوئی تو عصر کا وقت ہورہا تھا اسٹیڈیم کے ساتھ ہی لیڈیز اور جینٹس کے لیے وضو اور نماز کی الگ الگ جگہیں بنی ہوئی تھیں
زرا سوچیں ۔۔۔کیا حرج تھا اگر قطر اتنے بڑےاسٹیڈیم کا ایک کونا قوس وقزح والے جھنڈوں کے لیے مختص کر دیتا۔۔۔؟
چار,چھ فائیو اسٹار ہوٹلوں کو شراب کے پرمٹ جاری کردیتا۔۔؟
یہ کھیل محض کھیل نہیں ہیں یہ دنیا بھر میں فحاشی کے فروغ کے ذریعے شیطانی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کا بڑا ذریعہ ہیں۔
لیکن قطر کیوں حساس ہے کہ ۔۔!
الکحل کے مشروبات پر پابندی ہوگی۔
اسٹیڈیم میں قوس وقزح والے جھنڈے جو ایل جی بی ٹی کیو کا سائن ہیں ممنوع ہوں گے
ہم جنس پرستوں کو داخلے کی اجازت نہ دینے پر ایک دنیا نے نفرت کا اظہار کیا مگر قطر نے پروا نہ کی
یہ قطر ہے کون۔۔۔۔؟
یہ قطر۔۔۔قطر کے حکمران ہیں۔۔۔!!
جو دجالی فتنوں کے آگے بند باندھ رہے ہیں۔
یہود و نصاریٰ کو بتارہے ہیں کہ اسلام ان کے پیچھے چلنے کے لیے نہیں آیا۔
یہ عوامی امنگوں کے ترجمان حکمران ہی ہوتے ہیں جو ملک کی شناخت بناتے ہیں۔
آپ چاہیں تو ایسے حکمران منتخب کریں جن کی ساری دنیا میں چوری اور کرپشن کی داستانیں ہوں۔  یا ایسے حکمران جو قطر کی طرح امّہ کا دل بن کر دھڑک رہے ہوں
جو عوام کے شعور کو جگا کر انہیں بتا رہے ہوں کہ ہم امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماننے والے ہیں ۔۔ہمارا ایمان ہمیں کسی کی غلامی کرنے پر مجبور نہیں کرتا ہے جو ایماندار بھی ہو اور غیور بھی۔۔جو صادق بھی ہو اور امین بھی۔
” تم اپنے حکمرانوں سے پہچانے جاتے ہو۔”
“نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا
سُنا ہے یہ قُدسیوں سے مَیں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا”
وہ شیر کون ہے۔۔؟ وہ شیر قطر ہے
بلاشبہ تیل کی دولت سے مالا مال قطر اگر چاہتا تو اس فیفا ورلڈ کپ میں ناچ و سرور شراب و کباب کے جام لٹا دیتا ۔۔۔لیکن قطر نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس نے اس فیفا کو اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے استعمال کیا ۔ البیت اسٹیڈیم کے اندر شیشے کی مسجد بنی ہوئی ہے ۔ مسجد کے اندر جتنے افراد نماز ادا کر رہے ہوتے ہیں اس سے دو گنا باہر غیر مسلم شائقین کھڑے تعجب کے ساتھ نمازیوں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
کیا پتہ اللہ کب صرف ان کے دیکھنے سے ان کے دل پلٹ دیں ۔
“فكرة المسجد الزجاجی”
قطر نے اس فیفا کپ میں دو باتیں ببانگ دہل پورے یورپ کو بتا دیں کہ۔۔۔۔۔
“اِلّا رسول اللہ”
سب برداشت ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے ایک لفظ نہیں !
ناموس رسالتؐ سے بڑھ کر کچھ نہیں ۔
“غزة فی قلوبنا”
غزہ (فلسطین) ہمارے دل میں ہے۔
قطر نے فیفا ورلڈ کپ اپنی اسلامی طرز و ثقافت پر کروا کر اقوامِ عالم کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ
“اے طائر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی “

اچھی بات یہ ہے کہ قطر کی حکومت نے اعلیٰ انتظامات اور بہت ہی فراخدلانہ مہمان نوازی سے باقی ہر چیز کی کسر پوری کر دی۔ جو لوگ احتجاج کا پروگرام بنائے بیٹھے تھے۔ وہ ٹھنڈے پڑ گئے۔ قطر کا موقف چونکہ اصولی تھا، اس لئے فیفا نے بھی ڈٹ کر قطری حکومت کی حمایت کی۔ یہ سب دیکھنا اچھا لگا۔ مراکش کی ٹیم جیتنے کے بعد فلسطین کا جھنڈا لہراتی رہی، اسے بھی مغربی میڈیاکو برداشت کرنا پڑا۔ قطر نے دکھا دیا کہ اپنے اصولوں پر اسٹینڈ لے کر بھی اتنا بڑا ٹورنامنٹ کرایا جا سکتا ہے۔
میں قطر کو بس ایک اسلامی ملک تصور کرتی تھی
مگر مجھے لکھتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ اسلام طرزِ عمل سے پہچانا جانے والا دینِ حق ہے۔
میری دعا ہے کہ ہر اسلامی ملک اپنے دین کی سر بلندی کے لیے ڈٹ کر کھڑا ہو ۔ آمین

خدائے لم یزل کا دست قدرت تُو زباں تُو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گرد راہ ہوں وہ کارواں تُو ہے
مکاں فانی مکیں آنی ازل تیرا ابد تیرا
خدا کا آخری پیغام ہے تُو جاوداں تُو ہے
دلکش  فن تعمیر کا نمونہ : قطری مساجد
مجھے قطر کی سب سے دلکش بات ہر قدم پہ مساجد کا ہونا لگتی ہے ۔ شہر سے 100 کلو میٹر دور رہائش ہونے کے باوجود آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ سفر میں ہمیں نماز ادا کرنے کے لیئے مسجد کے حصول میں تگ و دو کرنا پڑی ہو ۔دور تک پھیلے ہوئے صحرا میں چند کھجوروں کے پیڑوں کے درمیان کوئی پیاری سی چھوٹی سی مسجد اچانک سے نمودار ہو کر آنکھوں میں خوبصورتیاں بھر دیتی ہے منفرد رنگ اور دلکش طرز تعمیر کی یہ مساجد نماز نہ پڑھنے والوں کو بھی اپنی طرف کھینچ لیتی ہے ان کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ برسوں پرانے دوست لوٹ آئے ہوں ان میں بیشتر مساجد کیمل کلر

کی ہوتی ہیں اور یہ اونٹوں کی طرح صحرا میں اللہ کی نشانیاں لگتی ہیں جنہیں دیکھ کر دل  بے ساختہ پکار اٹھتا ہے۔۔۔!

“ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے
سورج کے اجالے سے فضاؤں سے خلا سے
چاند اور ستاروں کی چمک اور ضیا سے
جنگل کی خموشی سے پہاڑوں کی انا سے
لہراتی ہوئی بادِ سحر بادِ صبا سے
ہر رنگ کے ہر شان کے پھولوں کی قبا سے
چڑیوں کے چہکنے سے تو بلبل کی نَوا سے
موتی کی نزاکت سے تو ہیرے کی جَلا سے
ہر شے کے جھلکتے ہوئے فن اور کَلا سے
ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے”
تیس سال  پہلے قطر کیسے تھا ؟
تیس سال قبل جب ہم پاکستان سے یہاں آئے تھے تو یہ ہمیں مردم بیزار لوگوں کا ملک لگا کرتا تھا دوحہ ایک نیم اجاڑ سی جگہ تھی جس میں عمارتوں کے درمیان ریت ملی مٹی کا ایسا دریا سا بہہ رہا ہوتا تھا جس میں روئیدگی اور سبزے نام کا گزر تک نہ تھا چھوٹے سے ائیرپورٹ سے باہر نکلتے ہی قدرے بے ڈھنگی سی آبادی شروع ہوجاتی تھی جس کے بازاروں میں سستی اشیاء کی عام سی دکانیں تھیں جن کے زیادہ تر گاہک لیبر کلاس کے وہ مزدور تھے جو اس شہر کی تعمیر کے لیئے شدید ترین گرمی کا عذاب سہتے تھے۔ ان دنوں وہاں نہ تو عظیم ،شاندار اور غیر ملکی قیمتی اشیاء سے بھرے ہوئے ائیر کنڈیشنڈ شاپنگ مالز تھے اور نہ سڑکیں ،نہ گاڑیوں کی قطاریں اور نہ ہی یہ چمک دمک جو آج نگاہوں کو خیرہ کرتی ہیں ۔
ہم تو پاکستان سے آۓ تھے ہجوم کے عادی تھے ہر طرف لوگوں کا ایک نہ ختم ہونے والا ہجوم جس طرف بھی جائیں لوگ ہی لوگ ۔۔ شہروں میں لوگ گلیوں میں لوگ ۔۔بازاروں میں لوگ۔۔ریستورانوں ہوٹلوں، ریلوے اسٹیشن ، بس اڈوں پہ ہر جگہ لوگ چھوٹے چھوٹے گھروں میں گنجائش سے زیادہ لوگ شروع شروع میں تو ہم خاصا گھبرائے کہ یہ ہم کس جگہ آگئے ہیں ہمیں تو کچھ بھی “اپنے جیسا” نظر نہیں آتا۔لیکن پھر آہستہ آہستہ اس خاموشی و سکون کے عادی ہوتے چلے گئے۔

درد ہجرت کے ستائے ہوئے لوگ
ہجرت کے اپنے دکھ ہوتے ہیں۔ ہمیں اندازہ ہے کہ ہماری یہ باتیں پڑھ کر کوئی یہ سوچ رہا ہوگا کہ ہم نہایت ناشکرے قسم کےانسان ہیں لیکن ہجرت کے اپنے دکھ اپنی خوشیاں ہوتی ہیں جنہیں ہجرت کرنے والا ہی جان سکتا ہے میلہ دیکھنے والوں کو کیا معلوم کہ کرتب دکھانے والا کس تکلیف میں ہے۔؟

تم نے دیکھا ہی نہیں خواب کا مرنا لوگو
‏تم کو معلوم ہی نہیں ضبط کی قیمت کیا ہے

میلے میں بچہ جمہورا بننے والے،  موت کے کنویں میں سائیکل چلانے والے ، اور سرکس میں جوکر بننے والے کے دکھ کو تماشا دیکھنے والے نہیں سمجھ سکتے۔
جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے
جب اپنی اپنی محبتوں کے عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے
وہ جن درختوں کی چھاؤں میں سے مسافروں کو اٹھا دیا تھا
انہیں درختوں پہ اگلے موسم جو پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے
وہ گاؤں کا اک ضعیف دہقاں سڑک کے بننے پہ کیوں خفا تھا
جب ان کے بچے جو شہر جاکر کبھی نہ لوٹے تو لوگ سمجھے “

اس آدمی کے دکھ کو کون سمجھ سکتا ہے جو کئی برس قبل مزدوری کرنے یہاں آیا تھا شب وروز کی محنت نے اس کی تیر جیسی کمر کو کمان میں تبدیل کردیا ۔ وقت اس کے جوان جذبوں پر اس طرح گزر گیا تھا جیسے سیلاب شاداب فصلوں پہ گزر جاتا ہے۔ اس نے جب پردیس میں ایک دن جوان بیٹی کی شدید علالت کی خبر سنی تو بد حواس ہو گیا جتنی جمع پونجی تھی سمیٹ کر آنکھوں میں ساون لیئے وطن چلا گیا کئی ماہ علاج کرانے کے بعد بھی جب اس کے آنگن کی کلی مرجھاتی ہی چلی گئی اور وہ خود بال بال قرض میں بھیگ گیا تو مجبوراً اپنے جگر کے ٹکڑے کو بستر علالت پر چھوڑ کر واپس آگیا اس کے دل و دماغ میں ایک ہی بات تھی کہ کماؤں گا نہیں تو بیٹی کا علاج کیسے ہو گا؟

” زندگی ہم تیرے تعاقب میں
اتنا چلتے ہیں کہ مر جاتے ہیں “

ریال کمانا اب آسان نہیں رہا، حالات بہت بدل گئے ہیں ۔ عرب جو کہ موقع سے فائدہ اٹھانے کا ہنر خوب جانتے ہیں اس صورتحال سے فائدہ اٹھا رہے ہیں مزدور اور کنٹریکٹ پہ کام کرنے والے طبقے کا استحصال ہو رہا ہے ۔
پاکستان ، بنگلادیش اور بھارت سے آۓ ہوئے لڑکے بہت کم ماہانہ پہ کام کر رہے ہیں
جن میں ان کا اپنا گزارا نہیں ہوتا تو وہ رقم کیسے گھر بھیجیں۔۔۔؟
ان کے گھر والے سمجھتے ہیں کہ بیٹا باہر چلا گیا ہے تو اب ریال کی بارش ہونے لگے گی جب کچھ عرصہ بعد ان کا لڑکا وہ رقم بھی نہیں لوٹا پاتا جو ویزہ کے لیئے لیا تھا تو رفتہ رفتہ سارے خواب عذاب بننے لگتے ہیں اور ان کی آنکھیں ان خوابوں کی کرچیوں سے زخمی ہونے لگتی ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوان باہر کی دنیا کو آئیڈیالائیز تو کرتے ہیں مگر وہاں کے قوانین، کلچر اور مشکلات سے ناواقف ہوتے ہیں اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے یہاں چلے آتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی مشکلات کا سلسلہ ائیرپورٹ سے باہر نکلتے ہی شروع ہوجاتا ہے ۔
سب سے پہلے وہ ان دوستوں اور رشتہ داروں کے لیئے درد سر بنتے ہیں جو انہیں باہر کی رنگینیاں،خوبصورتیاں ،سہولتیں اور آسائشیں تو بتاتے ہیں مگر مشکلات کا ذکر کرنا بھول جاتے ہیں ۔

ان نوجوانوں کے لیئے منیر نیازی کے الفاظ میں ۔

“اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا ”
کے مصداق ہوتا ہے ۔
ان دو دریاؤں میں فرق صرف یہ ہے کہ جو دریا وہ پار کر کے آرہے ہوتے ہیں وہ ان کا اپنا ہوتا ہے اور جس دریا کا سامنا ہوتا ہے وہ اپنا نہیں ہوتا اس لیئے پار کرنا بھی آسان نہیں ہوتا ہے کسی بھی ملک میں بسلسلۂ روزگار بغیر منصوبہ بندی ،لاعلمی اور تیاری کے جانا خود کو ایسے گڑھے میں پھینکنے کے مترادف ہے جس سے نکلنے کا واحد راستہ کسی معجزے کا رونما ہونا ہی ہو سکتا ہے ۔

” ہم دوہری اذیت کے گرفتار مسافر
پاؤں بھی ہیں شل شوق سفر بھی نہیں جاتا ”
قطر میں ادبی  تنظیمیں
کہنے کو تو دوحہ عالی جی کے دوھے جتنا ہے مگر ادبی حوالے سے اس کا علاقہ اور نام بہت بڑا ہے بہت سی ادبی تنظیمیں یہاں کام کر رہی ہیں جس میں “مجلس فروغ اردو ادب ” قدیم ترین ادبی ادارہ ہے یہ وہ ادارہ ہے جو کئی دہائیوں سے بین الاقوامی اردو ایوارڈ تقسیم کر رہا ہے اور عالمی مشاعروں کا بھی اہتمام کرتا ہے ۔ یہ صرف مشاعرے ہی نہیں کانفرنسیں اور مزاکرے بھی کراتا ہے اور ان میں بیرون ملک سے شعراء کرام کو “نان و نفقہ” دے کر بلایا جاتا ہے۔
العدید امریکن ائیر بیس قطر میں امریکہ کا ایک وسیع اور جدید ہوائی اڈا ہے جہاں سخت جان امریکی تعینات ہیں العدید ائیر بیس دوحہ سے 40 کلو میٹر اور ہمارے گھر کے راستے سے گزر کر آتا ہے اس ائیر بیس کا قیام 1991 میں گلف وار کے بعد عمل میں آیا عراق کی جنگ میں جب امریکی فائٹر جہاز اپنی پوری گھن گرج کے ساتھ ہمارے سروں سے شوں شوں کر کے گزرتے تھے تو دل کانپ کانپ اٹھتا تھا ہر لمحے دل کو دھڑکا سا لگا رہتا تھا کہ کہیں اندازے کی غلطی سے کوئی بم ادھر نہ گر جائے۔ اس ائیر بیس کی سیکیورٹی کا انتظام نہایت جدید اور سخت ہے کچھ سال پہلے جب میرا چھوٹا بیٹا تین سال کا تھا تو ایک رات ہم اپنے گھر واپس جارہے تھے العدید امریکن ائیر بیس کے پاس سے گزر رہے تھے کہ حماد میاں کو حاجت ضروریہ پیش آگیا ابھی گھر آنے میں کافی وقت تھا چونکہ آس پاس کوئی آبادی نہیں تھی ہم نے یہ خیال کیئے بغیر کہ ہم العدید ائیر بیس کے پاس ہیں اپنی گاڑی روک لی اور حماد سے کہا کہ تم فارغ ہو لو ہمیں بمشکل دس منٹ ہی لگے ہوں گے ابھی گاڑی دوبارہ اسٹارٹ ہی ہونے والی تھی کہ اچانک سے ایک امریکی فوجی تیز سرچ لائیٹ ہم پر ڈالتا آ پہنچا اور “ادھر کیوں رکے” کی تفتیش شروع کر دی بڑی مشکل سے اسے یقین آیا کہ ہم کسی “بُری ” نیت سے نہیں رکے تھے پھر بھی اس نے ہمارا نام، پتہ،گاڑی کا نمبر ،اور سیل فون نمبر نوٹ کیا ۔ ہمیں کتنے ہی دنوں تک یہ سوچ کر نیند نہیں آئی کہ کہیں کسی “نامعلوم افراد” کے” کردہ ” گناہ کی پاداش میں ہم نہ دھر لیئے جائیں ۔۔۔!
علاج معالجے کی سہولتیں
باہر کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں قطر میں ہیلتھ ٹریٹمنٹ پر خرچ نہ ہونے کے برابر ہے جدید مشینری اور سہولیات سے آراستہ صاف ستھرے حمد جنرل اسپتال میں علاج عوام و خواص سب کے لیئے یکساں ہے ابھی پچھلے سال کی بات ہے حماد (میرا چھوٹا بیٹا) اسکول سے گھر آیا تو پیٹ کے درد سے بے حال تھا ہم بھاگم بھاگ اس کو اسپتال لے کر گئے تو اپنڈیکس ظاہر ہوا ڈاکٹروں نے پہلی ترجیح پر اس کا آپریشن کیا جب تک اسپتال میں رہا بہترین علاج کے ساتھ غذا اور دوا سب مکمل فری ملتا رہا اور رخصت ہوتے وقت بچے کو خوش کرنے کے لیئے ایک عدد پلے اسٹیشن بطور تحفہ اسپتال کی طرف سے دیا گیا۔
قطر کی گلیوں اور بازاروں میں چھوٹے چھوٹے “مطعم” پاکستانیوں اور ہندوستانیوں نے بنائے ہوئے ہیں لاہور اور دِلّی کی کون سی ڈش ہے جو ان مطعموں پر دستیاب نہیں ہے پراٹھا، آلو چھولے ،پائے اور بریانی سے لے کر لسی کے گلاس تک ہر چیز دستیاب ہے دس سے بیس ریال میں بندہ سیر ہو کر کھانا کھا سکتا ہے اور ذائقہ بھی ایسا کہ کسی بھی فائیواسٹار ہوٹل کو مات دے دے۔

قانون کی حکمرانی

       قطر میں رہتے اس بات پر مجھے ہمیشہ ہی حیرت رہی کہ بظاہر تو یہاں شرطے (پولیس) خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں مگر جیسے کہیں قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے وہ بوتل کے جن کی طرح آ دھمکتے ہیں۔
بقول انشاءاللہ خان انشاء۔۔!
”  دیوار پھاندنے میں دیکھو گے کام میرا
جب دھم سے آ کہ کہوں گا صاحب سلام میرا”

یہاں تک کہ شہر کی چھوٹی چھوٹی سڑکوں پہ بھی جیسے کسی نے غلط پارکنگ کی فورا شرطوں کی گاڑی نے انہیں دھر لیا۔
12 پوائنٹس وائلیشن ہونے پہ لائیسنس منسوخ ہو جاتا ہے اور یہاں لائیسنس بنوانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔

ٹریفک قوانین میں سختی کی وجہ یہ ہے کہ حادثات کی شرح بہت بڑھ گئی ہے گورنمنٹ اس کو روکنے کے لیئے سخت قوانین بنا رہی ہے لیکن حد سے زیادہ سختی نے لوگوں کو خوف میں مبتلاکر دیا ہے۔
اونٹ دوڑ اکا المیہ
اونٹوں کی سالانہ دوڑیں بھی قطر کی ایک اہم ثقافتی پہچان ہے لیکن اونٹوں کی دوڑ کا نام آتے ہی ہمارا ذہن بچوں کے استحصال کی طرف چلا جاتا ہے کیونکہ ماضی میں ان اونٹوں پہ 6 سے 7 سال تک کے بچے بندھے ہوتے تھے مقصد یہ ہوتا تھا کہ جب بچے ڈر کر روتے تھے تو ان کی چیخ و پکار کی آواز سے اونٹ اور تیز دوڑتے تھے ۔
اس مقصد کے لیئے غریب ممالک سے بچے اسمگل کیئے جاتے تھے اللہ کا شکر ہے کہ اب یہ مسئلہ حل ہو گیا ہے اور حکومت نے پابندی عائد کر دی ہے اونٹوں کی دوڑ عربوں کا پسندیدہ کھیل ہے اور اس کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت قطر میں کم از کم 20 ہزار دوڑنے والے اونٹ موجود ہیں کیمل ریس کے لیئے بہت بڑے بڑے میدان بنے ہوئے ہیں کیمل ریس کا میدان دیکھتے ہی نجانے کیوں ہماری طبیعت خراب ہونے لگتی ہے ۔
ہماری آنکھوں کے سامنے معصوم پھول سے بچے اور ان کی چیخیں آجاتی ہیں دوڑتے اونٹوں کے کوہانوں پر بندھے بچوں کو میں اپنی تصور کی آنکھ سے روتے ،چیختے،بلبلاتے سنتی ہوں ۔
یہ آوازیں مجھے ماضی میں لے جاتی ہیں جب وحشی اونٹ تیزی سے دوڑتے تھے اور ان اونٹوں پہ بندھے کئی بچوں کی کمر کی ہڈی ٹوٹ جاتی تھی ۔کوئی بچہ اونٹ سے نیچے گر جاتا اور تیز دوڑتے اونٹوں کے قدموں تلے آ کر کچلا جاتا۔ وہ ہونٹ، وہ ناک، وہ آنکھیں، وہ تھوڑی،وہ گردن جس پہ اس کے ماں باپ ،نانا نانی، دادا دادی، بہن بھائی کے بوسے ثبت ہوتے تھے خون میں لت پت نظر آتی ہیں ۔۔
ہمیشہ ان میدانوں سے گزرتے میرا دل بجھ سا جاتا ہے مجھے لگتا ہے میں کیمل ریس کے میدان سے نہیں کربلا کے میدان سے گزر رہی ہوں ۔
دنیا کے ہر خطے میں کچھ ظالم لوگ ایسے ہیں جو ہٹلر اور یزید سے بھی زیادہ سنگدل ہیں اور پورے ملک و قوم کا نام بدنام کرتے ہیں ۔

میں کیا کروں کہ ایک پھول کے مرجھانے سے
چمن سارا مجھے ویران نظر آتا ہے۔۔۔۔!

بڑی طاقتوں کے لیئے قطر الہ دین کے چراغ کی طرح ہے ان کو جب ضرورت پڑتی ہے وہ اسے رگڑتے ہیں اور قطر پورے کروفر کے ساتھ  “کیا حکم ہے میرے آقا”  کی صدا کے ساتھ ہاتھ باندھے کھڑا ہوجاتا ہے ۔چراغ رگڑنے والے اس ہاتھ سے قطر کو خطرہ ہے اسے دوست اور دشمن کی پہچان کرنا ہوگی ۔
شہر ریگزار میں رات کا حسن

شہر ریگزار میں رات کا حسن
شہر ریگزار میں رات کا حسن

رات کے وقت کار میں بیٹھ کر قطر کا نظارہ کریں تو ایسا لگتا ہے کہ ہم کوئی خوبصورت البم دیکھ رہے ہیں۔ اس وقت قطر اپنی بلند و بالا فلک بوس عمارتوں اور شاپنگ سینٹرز کے باعث پوری دنیا کے توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے قطر میں تیرتے ہوئے شہر اور گھومنے والے شاپنگ مالز نے دنیا کو ورطہء حیرت میں ڈال دیا ہے دوحہ اب خوابوں کا شہر بنتا جا رہا ہے ایک ایسا شہر جس کا ہم سب خواب دیکھتے ہیں کسی خوبصورت شہر کا طلسم ہمارے لیئے دیو مالائی کہانیوں سے کم نہیں ہوتا ۔ چاندنی راتوں میں سمندر کے کنارے پانی میں ہمیں مسکراتا چاند نہیں جھلملاتا شہر نظر آتا ہے اور ہم اس کے سحر میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ یہ طلسماتی شہر اب رہائش کے اعتبار سے کافی مہنگا ہو چلا ہے دو کمرے کے فلیٹ کا کرایہ 7 ہزار قطری ریال ماہانہ ہے اس وقت کم آمدنی والوں کے لیئے یہاں رہائش ایک درد سر ہے کیونکہ بقول غالب۔۔۔!
ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہیں،کھائیں گے کیا۔۔۔۔۔؟

20 سال قبل اور آج کے قطر میں زمین و آسمان کا فرق ہے مطارالقدیم سے لے کر دوحہ الجدید تک تبدیلی ہی تبدیلی ہے۔ آسمان سے باتیں کرتی عمارتوں کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ شاید فراز نے اسی شہر کے بارے میں یہ کہا ہوگا کہ۔۔!
” سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اس شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں”

مگر ہم کیا کریں کہ ان خوبصورتیوں کے باوجود ہمارا دل اپنے پاکستان میں ہی رہتا ہے۔ جو سورۃ الرحمٰن کی منہ بولتی تفسیر  ہے ۔

” دل پردیسی پاکستان میں رہتا ہے
چاند ستارہ ہر دم دھیان میں رہتا ہے
اس کے نام پہ جذباتی ہو جاتی ہوں
پاکستان میرے ایمان میں رہتا ہے”

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact