اختر شہاب
ارشد ندیم کی کامیابیاں دیکھ کر اور  سن کر بھی ہمیں یاد نہ آتا اور ہماری یادوں پر پردہ ہی پڑا رہتا لیکن بھلا ہو سوشل میڈیا کا جس کی ایک پوسٹ پڑھ کر “جس میں لکھا تھا کہ پاکستان میں لوگ جولین تھرو یا نیزہ بازی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔”  ہمیں یاد آیا کہ جیولن تھرو کا یہ کھیل تو ہم بچپن میں بھی کھیلا کرتے تھے۔

یہ 60ویں دہائی کی بات ہے کہ پاکستان منٹ، لاہور جہاں سے ہمارا تعلق ہے اور جہاں ہمارا بچپن اور جوانی گزری، میں سالانہ انڈور گیمز ہوا کرتی تھی جس میں دوسرے کھیلوں کے علاوہ جیولن تھرو یعنی نیزہ بازی کے مقابلے بھی ہوا کرتے تھے اور بچے بڑے سب اس میں شوق سے حصہ لیا کرتے تھے۔

ان کی دیکھا دیکھی کہ ہمیں بھی نیزہ پھینکنے کا شوق ہوا۔ چند دنوں کی مشقت کے بعد جب ہم نیزہ پھینکنے کے قابل ہوئے تو ایک دن جب ہم نیزہ پھینکنے کی مشق کر رہے تھے، ہمارا ایک دوست فاروق ہم سے کچھ شرارت کر کے بھاگا۔ ہم اسے پکڑنے اس کے پیچھے بھاگے تو اس کی رفتار تیز تھی اور اسے پکڑنا مشکل تھا لہٰذا ہم نے اسے رکنے کی وارننگ دیتے ہوئے، اسے روکنے کے لیے  بھاگتے بھاگتے پیچھے سے جیولن تھرو کی، یعنی نیزہ  کھینچ کر مارا جو سیدھا اس کے سر میں جا لگا وہ پٹ سے گرا اور اس کا سر پھٹ کے خون بہنے لگا۔اور ہم وہاں سے فرار ہو گئے۔
آگے کی کہانی دردناک ہے یعنی آئندہ نیزے کو ہاتھ نہ لگانے کی پابندی کے علاوہ گھر سے جو جوتے پڑے وہ اس نیزہ بازی  کا انعام تھا۔  لیکن شاید اپ یقین نہ کریں کہ اس کے باوجود محض اپنے بچپن کے تجربے کی بنا پر ہم نے بلوچستان یونیورسٹی میں پڑھائی کے دوران یونیورسٹی کی انڈور گیمز میں جیولن تھرو میں تیسری پوزیشن بھی حاصل کر لی تھی ۔
اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اگر ہم نیزہ پھینک کر اپنے دوست کا سر نہ پھاڑتے اور ہم پر نیزہ پھینکنے کی پابندی نہ لگتی اور پڑھنے کے بجائے ہم نیزہ ہی پھینکا کرتے تو کوئی پاکستانی یا ایشیائی بلکہ قسمت ساتھ دیتی تو شاید اولمپک ریکارڈ بھی بنا سکتے تھے ۔۔

اب ارشد ندیم کی اولمپک میں کامیابی کے بعد اسے ملنے والے انعامات پڑھ  کر ہمیں کف افسوس ملنا چاہیے تھا کہ کاش ایسا موقع ہمیں بھی ملا ہوتا تو ہماری بھی خوب واہ واہ ہوتی اور اگر انعامات کی بارش نہ ہوتی تو بھی کم از کم کچھ انعامات تو  ملتے لیکن کیا کریں اس زمانے میں ہمارے اور ہمارے والدین کے سامنے جو مثل مشہور تھی وہ یہ تھی کہ
کھیلوگے کودو گے ہووگے خراب
پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب
سو پڑھائی کی طرف ہی متوجہ ہونا پڑا۔
ایک لحاظ سے اچھا بھی ہوا کہ اپنی پوری زندگی عزت ،آبرو اور امن و سکون سے گزارنے کے باوجود ہمیں کسی قسم کا افسوس نہیں ہے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ، کامیابی کے بعد ارشد ندیم کی طرح”عزت و شہرت کا ہما” ہر ایک کے سر پر نہیں بیٹھتا۔ یعنی ہمارے ملک میں دنیا بھر سے تمغے اور گولڈ میڈل لانے والے افراد اور اولمپیئنوں کی جو ناقدری ہوئی ہے یہاں تک کہ وہ اپنے میڈل تک بیچنے پر مجبور ہو گئے۔ بلکہ اب تو ان کا نام تک بھی کوئی نہیں جانتا۔ اس کے بعد تو کسی کی کم ہی ہمت ہوتی ہے کہ وہ اپنے ملک کے لیے انفرادی طور پر گولڈ میڈل لینے کے لیے اتنی محنت کرے۔
لیکن ہماری تمنا ہے کہ ایک طویل عرصے کے بعد اس قوم نے جس طرح ارشد ندیم کی قدر کی ہے اور اسے نوازا ہے۔ اسی طرح نہ سہی اس سے کچھ کم ہی سہی لیکن موجودہ یا آئندہ  انے والے قوم کے ہیروز  کو نوازے تاکہ وہ بھی محنت کر کے ملک اور قوم کا نام روشن کرتے رہیں۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact