پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں ترقیاتی مقاصد کے سرکاری ڈیٹا کا تنقیدی جائزہ/ ڈاکٹر عتیق الرحمن

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں ترقیاتی مقاصد کے سرکاری ڈیٹا کا تنقیدی جائزہ/ ڈاکٹر عتیق الرحمن

ڈاکٹر عتیق الرحمن
کسی بھی علاقے کی منظم اور با کفایت ترقی کے لیے ضروری ہے کہ اس علاقے کے بنیادی اعداد و شمار سے آگاہی موجود ہو۔ ایک ایسا علاقہ جہاں پرصرف  10 گھر موجود ہوں، ان گھروں تک سڑک کی رسائی کے لیے 10 کروڑ خرچ کرنا دانشمندی نہیں۔ اس سے کہیں بہتر ہوگا کہ ان دس گھروں کو متبادل زمین لے کے دے دی جائے۔ اسی طرح اگر 10 کروڑ کے ایک پروجیکٹ میں 50 گھروں کو فائدہ ہو سکتا ہو جبکہ دوسرے  پروجیکٹ میں 500 لوگوں کو فائدہ ہو سکتا ہو تو دوسرا پروجیکٹ زیادہ مناسب ہو گا۔ یہ سب منصوبہ بندی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ کسی بھی ترقیاتی منصوبہ کے آغاز سے پہلے اس علاقہ کے بارے میں بنیادی معلومات موجود ہونی چاہئیں۔
منصوبہ بندی کے لیے سب سے بنیادی انڈیکیٹرمجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی GDPکی کیلکولیشن ہے لیکن بدقسمتی سے آج تک آزاد کشمیر کے لیے جی ڈی پی کی کیلکولیشن  نہیں کی گئی ۔اس کے متبادل کے طور پر آزاد کشمیر میں دو کتابچے تسلسل سے شائع کیے جا رہے ہیں جو کسی حد تک منصوبہ بندی میں مدد دے سکتے ہیں۔ پہلا کتابچہ’ آزاد کشمیر ایک نظر میں

‘AJK at a Glance

کہلاتا ہے جب کہ دوسرا کتابچہ ’

آزاد کشمیر   سالانہ شماریاتی  کتابچہ

 ‘ AJK Statistical Yearbook

 کہلاتا ہے. یہ دونوں کتابچے محکمہ پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ کے زیر اہتمام    شائع ہوتے ہیں اور محکمہ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔ سالانہ شماریاتی کتابچہ زیادہ جامع کتابچہ ہے جس میں آزاد کشمیر کے تمام محکمہ جات سے متعلقہ بنیادی ڈیٹا موجود ہوتا ہے اور یہ کتابچہ 1985  سے شائع کیا جا رہا ہے۔
لیکن بلکہ قسمتی سے سٹیٹسٹیکل بک یا شماریاتی کتابچہ متعلقہ محکمہ جات کی غیر سنجیدگی اور عدم دلچسپی کا مظہر بن چکا ہے۔ متعدد مقامات پر اس کتابچہ میں ایسی معلومات درج ہیں جو حقیقی ہونا ممکن نہیں بہت سے اہم انڈیکیٹرز کا ڈیٹا اس  کتابچہ میں موجود نہیں ہے جبکہ کتابچہ کے مختلف ایڈیشنز کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جن انڈیکیٹرز کا ڈیٹا جمع کرنا ہے ان کی تعریف ہی میں ابہام موجود ہے۔ اس طرح جمع ہونے والا ڈیٹا منصوبہ بندی میں مدد دینے کی بجائے مزید ابہام پیداکرنے کا سبب بنتا ہے۔
میں اس شماریاتی کتابچہ  کے دو ابواب پر مختصر تبصرہ کرنا چاہتا ہوں، پہلا باب بینکنگ سٹیٹسٹکس سے متعلقہ ہے جس میں مختلف بینکوں کے ڈیپازٹس اور ان کی طرف سے شہریوں کو فراہم کیے گئے قرضہ جات کی تفصیل موجود ہے۔ شماریاتی کتابچہ کے گزشتہ ایڈیشن میں یہ ڈیٹا کافی معقول شکل میں دکھائی دے رہا تھا لیکن اس  کے حالیہ شمارے میں اغلاط کی بھرمار ہے۔شماریاتی کتابچہ کے 2023 کے ایڈیشن میں صفحہ 27 پر بینکنگ کے اعداد وشمار درج ہیں،لیکن انہیں درج کرتے ہوئے بنیادی شماریاتی اصول نظرانداز کئے گئے ہیں۔  صرف ایک صفحہ کے جدول میں اندراج کی یکسانیت کا دھیان نہیں رکھا گیا۔ اس صفحہ پر درج اعداد و شمار کے مطابق اپنا مائیکرو فائنانس بینک میں ڈیپازٹس کی مقدار 529 ہزار ارب  روپے ہے، جبکہ سٹیٹ بینک کے مطابق پورے پاکستان کے تمام تر بینکوں میں ڈیپازٹس کی مقدار 24 ہزار ارب  کے لگ بھگ ہے، ایسے میں یہ نمبر کیسے درست ہو سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس بینک کے ڈپازٹس 529  ہزار ارب تو درکنار 529 ارب ہونا بھی ناممکن ہے۔  سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق آزاد کشمیر میں ڈیپازٹ کی کل مقدار 556ارب ہے، جبکہ اس وقت ازاد کشمیر میں کم و بیش 30 بینکوں کی برانچز  موجود ہیں۔ ایسے  میں اکیلے اور نسبتا غیر معروف  بینک کے ڈیپازٹس 529 ارب کیسے ہو سکتے ہیں؟یہ اندراج کی بہت بڑی غلطی ہے جو مصنفین اور مدونین سےنظرانداز ہوئی ہے۔
اسی ٹیبل میں درج معلومات کے مطابق یونائٹڈ بینک نے آزاد کشمیر میں 389 ارب روپے کے قرض چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کے لیے دے رکھے ہیں۔ گزشتہ شمارے کے اعداد و شمار کے مطابق یونائٹڈ بینک کے آزاد کشمیر میں دیے گئے قرضوں کی کل مقدار 23 کروڑ تھی تو ایک سال میں یہ 23 کروڑ  سے 389 ارب کیسے ہو گئی؟ اگر واقعی میں آزاد کشمیر میں کوئی بینک 389ارب کی رقم چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کے لیے مہیا کرے تو آزاد کشمیر کے گلی محلے فیکٹریوں سے بھرے نظر آئیں۔
یہ بھی ممکن ہے کہ یونائٹڈ بینک نے کسی ایک میگا پروجیکٹ کے لیے بہت بڑا قرض دیا ہو اور آزاد کشمیر میں بڑے میگا پروجیکٹ صرف ہائیڈل سیکٹر میں موجود ہیں ۔یہ یونائٹڈ بینک والے ہی بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے کون سے پروجیکٹ کے لیے اتنا بڑا قرض دے رکھا ہے، لیکن  اگر  کسی ایک پروجیکٹ کے لیے اتنا بڑا قرض دیا گیا ہے تو پھر اسے سمال اینڈ میڈیم انڈسٹریز میں شمار نہیں کیا جانا چاہیے۔ میرے نزدیک زیادہ امکان یہی ہے کہ یہ ڈیٹا انٹری کلیریکل غلطی ہے جسے ایڈیٹرز نے بغیر جانچ پڑتال کیے ایسے ہی شائع ہونے دیا اور اب اس غلطی کی بنا پر اس ڈیٹا کو منصوبہ بندی کے لیے استعمال کرنا ممکن نہیں۔
اسی طرح میں شماریاتی کتابچہ کے ایک اور باب پر تبصرہ کرنا چاہتا ہوں جو کہ صنعتوں سے متعلق ہے۔ صنعتوں سے متعلق ڈیٹا 1985 سے شائع کیا جا رہا ہے۔ اس کتابچہ کے دوہزار سترہ  کے ایڈیشن کے مطابق  آزاد کشمیر میں صنعتوں کی تعداد1970 درج ہے جو 2018  میں بڑھ کر 2576 تک جا پہنچی۔  لیکن اس سے اگلا ایڈیشن جو 2020 میں شائع ہوا، اس میں آزاد کشمیر میں صنعتوں کی تعداد محض 237 بیان کی گئی ہے، جو 2021 میں مزید گھٹ کر 200 رہ گئی۔ ان دونوں شمارہ جات کو دیکھنے والا شخص ضرور متذبذب ہوگا کہ آخر کیا وجہ بنی کہ دو سالوں میں 92فیصد صنعتیں آزاد کشمیر سے غائب ہو گئیں، اس چیز کی کوئی وضاحت شماریاتی کتابچہ میں درج نہیں ہے۔
اس ڈیٹا کو مزید تفصیل سے مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ 2018 کے کتابچہ  جس میں صنعتوں کی تعداد 2500 سے زیادہ درج ہے،  اس میں پولٹری فارم، کرش مشین  اوربلاک فیکٹری وغیرہ کو صنعت میں شمار کیا گیا ہے جبکہ 2020 کے کتابچہ میں صنعتوں کی شمار بندی میں ان یونٹس کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ محکمہ صنعت کے اہلکار اور سٹیٹسٹیکل بیورو کے اہلکار اس بات پر تذبذب میں ہیں کہ کرش مشین اور بلاک فیکٹری کو صنعت میں درج کیا جائے یا نہیں۔ڈیٹا جمع کرنے سے پہلے اس ابہام کو دور کرنا ضروری ہے کہ صنعت کی تعریف کیا ہے اور کون سے پیداواری یونٹس کو صنعت میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
لیکن شماریاتی کتابچہ میں  صنعت  کی تعریف  کا ابہام واحد  غیر یقینی  شے نہیں، بلکہ اس کے علاوہ بھی کافی ابہام موجود ہے۔ مثلا مین ہوٹل کو 2017 اور 2020 دونوں ایڈیشز  میں صنعت میں شمار کیا گیا ہے لیکن 2017 کی کتابچہ میں آزاد کشمیر میں  ہوٹلوں کی تعداد 145 درج ہے جبکہ 2020 کے کتابچہ میں  ہوٹلز کی تعداد صرف تین لکھی گئی ہے۔ ڈیٹا کو مطالعہ کرنے والا فرد یہ ضرور سوچے گا کہ تین سالوں میں یہ 142 ہوٹل کہاں غائب ہو گئے؟ لیکن اس بات کی کوئی وضاحت شماریاتی کتابچہ میں موجود نہیں ہے۔
درحقیقت  2020 کے ڈیٹا میں درج معلومات حقائق سے مناسبت نہیں رکھتی۔ مثلا، مظفرآباد شہر  میں عرصہ دراز سے متعدد کارپوریٹ ہوٹل موجود ہیں، جن میں نیلم ہوٹل، سنگم ہوٹل اور پرل کانٹی نینٹل وغیرہ  شامل ہیں، اور ان کے علاوہ بیسیوں دیگر معقول قسم کے ہوٹل بھی موجود ہیں، لیکن 2020 کے شماریاتی کتابچہ میں مظفرآباد کے کسی ہوٹل کا ذکر نہیں، اور اس کتابچہ کے 2023 کے ایڈیشن میں مظفرآباد میں ہوٹلوں کی تعداد 12 درج ہے جو کہ حقیقی تعداد سے بہت کم ہے۔
اسی طرح بہت سے اہم انڈیکیٹر  ایسے ہیں جو شماریاتی کتابچہ میں درج  ہی نہیں کیے گئے۔ مثلا شماریاتی کتابچہ میں صرف سرکاری گیسٹ ہاؤسز کو شمارمیں لایا گیا ہے جبکہ گزشتہ پندرہ سال میں آزاد کشمیر میں بے شمار پرائیویٹ گیسٹ ہاؤسز بنائے گئے ہیں جن کا ڈیٹا دستیاب نہیں۔ اسی طرح پھلوں کی پیداوار کا ڈیٹا شماریاتی کتابچہ میں دستیاب نہیں۔
شماریاتی کتابچہ میں بعض جگہوں پر معلومات درست درج نہیں ۔ مثلا پتلیاں جھیل کی بلندی 12400 فٹ ہے جسے گوگل ارتھ سے ویریفائی کیا جا سکتا ہے لیکن شماریاتی کتابچہ میں اس جھیل کی بلندی 10 ہزار فٹ درج ہے۔
ایک شماریاتی کتابچہ کا تسلسل سے شائع ہونا ڈیٹا کی دستیابی کے لیے ضروری ہے جسے منصوبہ بندی میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر ایسے ڈیٹا میں موجود انڈیکیٹرز کی تعریف ہی میں ابہام ہو تو پھر ایسا ڈیٹا منصوبہ بندی میں مدد نہیں دیتا بلکہ مزید مسائل پیدا کرتا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ اور اس کا سٹیٹسٹیکل بیورو شماریاتی کتابچہ کو سنجیدہ ڈاکومنٹ سمجھیں اور تمام ضروری انڈیکیٹرز کا ڈیٹا اعداد و شمار کی درستگی کے ساتھ درج کیا جائے۔ کتابچہ کی اشاعت سے پہلے اس پر نظرثانی کی جائے، وہ انڈیکیٹرز جن کا ڈیٹا دستیاب نہیں، ان پر بھی ڈیٹا جمع کیا جائے اورمتعلقہ محکمہ جات  کو اعداد و شمار کی درستگی اور تعریف کا ابہام ختم کرنے کی ہدایات دی جائیں۔ ان سب  اقدامات کے بعد ہی اس دستاویز میں درج معلومات کو منصوبہ سازی میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.