کہانی کار ظہیر ایوب
گزشتہ دنوں کسی صاحب نے ہمارے آبائی گاؤں مندھار کے اندر ریالی کے مقام پر واقع ان کھنڈرات کی تصاویر شئیر کیں اور اس وقت کے فن تعمیر کو خوب سراہا لیکن بدقسمتی سے اس محل نما گھر کے مالکان پر کوئی ایک آدھ حرف بھی تحریر نہ کیا گیا۔بالفاظ دیگر صاحبِ تحریر کا اس عالی شان حویلی کے مالکان پر ذرہ برابر بھی تحقیق نہ کرنا ہمارے دنیاوی جاہ و حشم، شاہانہ کروفر اور اس دنیا کی بے ثباتی کا چیخ چیخ کر اعلان کرتا ہے۔
تقریباً دو صدی قبل (1830ء) کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ ایک ایسا وقت بھی آئے گا کہ جب یہ پرشکوہ اور عالیشان حویلی کھنڈرات میں ڈھل چکی ہوگی۔اس کے متمول خاندان کا شیرازہ بکھر کر رہ جائے گا۔کوئی ان کا نام لیوا نہ ہوگا۔۔زیر نظر کھنڈرات کا ذکر تو ملے گا مگر اس کے مالکان کو کوئی نہ جانتا ہوگا۔اس امیر کبیر خاندان کا سارا مال و زر ، ہزاروں ایکڑ زمینیں، وسیع و عریض باغات،مال مویشی،درجنوں بلکہ سیکڑوں نوکر چاکر،محل نما حویلی،سارا ٹھاٹ بھاٹ اور خاندانی عظمت و سطوت خاک میں مل جائے گی۔
یہ واقعی مقام عبرت ہے۔اک تازیانہ ہے ان کے لیے جو اپنے انجام کو بھلائے اندھا دھند مال و دولت سمیٹنے میں مصروف ہیں۔جنہیں لوبھ و لالچ نے اندھا کر رکھا ہے۔جو شداد،نمرود،سکندر و دارا کو بھول بیٹھے ہیں۔جو مغلیہ خاندان کی تاریخ سے ناواقف ہیں۔ایسا مائنڈ سیٹ رکھنے والے تمام غافل و بےخبر صاحبانِ مال و زر کے لیے یہ کھنڈرات سامانِ عبرت ہیں۔ایک چشم کشا حقیقت ہیں۔
یوں لگتا ہے جیسے اٹھارویں صدی میں نظیر اکبر آبادی نے انہی بنجاروں کے جاہ و حشم کو دیکھتے ہوئے اپنی یہ مشہور و معروف اور طویل تر نظم لکھی تھی…
ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا
کیا بدھیا بھینسا بیل شتر کیا گونیں پلا سر بھارا
کیا گیہوں چانول موٹھ مٹر کیا آگ دھواں اور انگارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا…
یہ حویلی نما گھر خواجگان کا تھا جو کہ 1830ء میں خواجہ جلال الدین اور خواجہ جمال دین نے تعمیر کیا تھا۔خواجہ جمال دین کے بیٹے خواجہ محمد دین تھے جن کے آگے تین بیٹے خواجہ امیر دین،خواجہ کبیر دین اور خواجہ محمد رشید تھے۔۔۔
ہم جب دوسری کلاس میں مندہار پڑھتے تھے اس وقت خواجہ کبیر الدین نے اپنی اس حویلی کے ایک کمرے میں ڈسپنسری قائم کر رکھی تھی جہاں اہل علاقہ کا مفت علاج کیا جاتا تھا۔مرحوم ایک اعلیٰ پائے کے مسیحا تھے۔ان کے ہاتھوں میں قدرت نے شفا رکھی ہوئی تھی۔لوگ دور دور سے بغرض علاج ریالی مندہار آیا کرتے تھے۔
تقسیم سے قبل چہارسو ریالی کے خواجگان کا طوطی بولتا تھا۔ان کے مہاراجہ پونچھ کے ساتھ قریبی علائق تھے۔راجہ کے بیٹوں اور بیٹیوں کی شادی کے دعوتی کارڈ ہم نے خود دیکھے ہیں۔راجہ مختلف تقریبات اور اجتماعات کے موقعوں پر انہیں بطور خاص مدعو کرتا تھا۔قحط سالی اور دیگر آفات سماوی کے موقع پر خواجگان خصوصی عطیات دیا کرتے تھے۔ نقدی اور جنس کی صورت میں مالیہ اور لگان وصول کرکے حکومتی عمال کو دینا اور پورے دیہہ کی دیکھ بھال اور نگرانی کرنا ان کی ذمہ داری تھی۔
خواجہ کبیر دین مرحوم کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا بقید حیات ہیں۔بیٹی کی شادی موضع دیگوار شوکت نواز درانی مرحوم کے ساتھ ہوئی تھی جو کہ آجکل دیگوار میں ہی مقیم ہیں جبکہ “ریالی” کے ان خواجگان کے آخری چشم و چراغ خواجہ شکیل آج کل ہجرت کر کے مظفرآباد مقیم ہیں۔موصوف پرائمری سطح پر ہمارے کلاس فیلو بھی رہے ہیں۔
زیر نظر حویلی اٹھارویں صدی میں تعمیر ہوئی تھی جس کے معمار سری نگر کے سبحان جو اور رحمان جو تھے۔ سات سو دیگر مستری و مزدوروں کی سات ماہ شبانہ روز محنت کے بعد پتھر و چونا کی یہ دو منزلہ حویلی تعمیر ہوئی تھی۔
اس وقت ان کی ٹکر راجہ اغر خان راٹھور اور حاجی امیر خان راٹھور کے ساتھ تھی۔۔یہ دونوں خاندان علاقہ کے بااثر ترین اور روایتی حریف تصور کیے جاتے تھے۔جنہوں نے ایک ہی علاقہ میں ایک ہی وقت میں اور ایک ہی طرز کی حویلیاں تعمیر کر رکھی تھیں۔ان کی بود وباش اور رہن سہن شاہانہ طرز کا تھا۔نوکر چاکر اور خادموں و کنیزوں کی ایک فوج ظفر موج تھی۔چہارسو ان کا ڈنکا بجتا تھا۔راجہ کسی بھی افتاد کے موقع پر حاجی امیر خان راٹھور ان کے والد اغر خان راٹھور اور خواجہ جمال دین و جلال دین سے امداد طلب کیا کرتا تھا اور یہ سربرآوردہ ہستیاں اس وقت مکیش امبانی سے بھی بڑھ کر مال و دولت خرچ کرتی تھیں۔ اللوں تللوں پر نہیں بلکہ ریاست پونچھ کی غریب عوام کی بحالی و آبادکاری کے لیے نقد و جنس کی صورت میں ڈونیشن دئیے جاتے تھے۔
حاجی امیر خان راٹھور والی حویلی جو “پکا کوٹ” کے نام سے موسوم تھی اس میں رہتے ہوئے ہم نے دوسری اور پانچویں جماعت پاس کی تھی۔وہ بھی دومنزلہ حویلی تھی جو چونے اور پتھر سے بنائی گئی تھی۔آرک شیپڈ داخلی دروازہ بالخصوص دوسری منزل کا دیدہ زیب محرابی فرنٹ جو مغلیہ فن تعمیر کی خاص پہچان تھا، ڈیوڑھیاں، دالان، وسیع و عریض ہال (پسار)، برمی کی لکڑ کے بھاری بھرکم ستون،کھڑکیاں اور دروازے جن پر عمدہ کشیدہ کاری کی ہوئی تھی۔اس کے علاوہ سماوار، انگیٹھیاں، بندوقیں،تلواریں،ڈھالیں،زرہ، چاندی کے طشت،لکڑ کی جائے نمازیں،پتھر کی سلیں وغیرہ آج بھی نوادرات کی صورت میں خاندان کے اندر موجود ہیں۔
راجہ اغر خان راٹھور اور ان کی چھٹی و ساتویں پشت کے بارے میں اگلی قسط میں تفصیل بیان ہوگی۔
(جاری ہے)
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.