معاشرے اورمعاشرتی تبدیلی پر سلسلہ وار کالم (1)
شمس رحمان
میں اس بات کا قائل ہوں کہ آج کے حالات کو سمجھنے اور مستقبل کے لیے درست، حقیقی، مناسب، ٹھوس اور موثر لائحہ عمل اختیار کرنے کے لیے اپنی تاریخ کا حقیقی تجزیہ کرنا بنیادی اور لازمی شرط ہوتی ہے۔ یعنی اپنے حالات کے تاریخی سفر کو سمجھ کر ہم آج درپیش مسائل کو اچھی طرح سے سمجھ سکتے ہیں ، اپنے گرد و پیش کو بہتر سمت اور راستے پر گامزن کرنے کے مواقعوں کو پہچان سکتے ہیں اور حالات میں ترقی پسندانہ، مثبت، تعمیری اور صحت مند تبدیلیاں لانے کے لیے موثر لائحہ عمل تیار کر سکتے ہیں۔
علم و تحقیق کی دنیا میں تاریخی تجزیہ کرنے کے مختلف طریقے اور شکلیں پائی جاتی ہیں۔ حالیہ وقتوں میں آثار قدیمہ اور جنیاتی تحقیق اور معلومات کے ذرائع یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں حیرت انگیز ایجادات اور ترقی نے تاریخ اور علم کی سمجھ کے نت نئے دروازے کھول دیے ہیں۔
یہاں میرپور کا تاریخی تجزیہ تاریخی مادیت کی روشنی میں کیا جا رہا ہے، جس میں بنیادی اہمیت ذرائع پیداوار کو حاصل ہوتی ہے ۔یعنی اگر آپ روزی روٹی کے ذرائع اور آلات اور قوتوں اور ان سے پیدا ہونے والے تعلقات ( یعنی مجموعی طور پر پیداواری سرگرمیوں ) کو سمجھ لیں تو باقی کے معاشرے یعنی سیاسی، قانونی و معاشی اور ثقافتی اداروں اور اقدار و رسوسم و رواج وغیرہ کو بھی بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔
چونکہ یہ تجزیہ کسی علمی و تحقیقی جریدے ( رسالے) کے لیے نہیں بلکہ میرپوری معاشرے میں عمومی تبدیلیوں کو عام انداز میں سمجھنے کے لیے ہے جس کا مقصد اس سمجھ بوجھ کو خاص طور سے معاشرے میں شعوری تبدیلیاں لانے کے خواہش مندوں کے سامنے رکھنا ہے اس لیے اس میں تجزیے میں خصوصی دستاویزات، اعداد و شمار اور تفصیلی حالات چھاننے کا انداز نہیں اپنایا گیا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس طرح کا تجزیہ بہت زیادہ وقت اور نظم و ضبط کا تقاضا کرتا ہے جو میرے پاس نہیں ہے۔ امید ہے کہ علم و تحقیق کے میدان میں مجھ سے بہتر صلاحیتوں اور علم سے لیس طلباء اور استاد اور تجزیہ نگار اس تجزیے کو مزید بہتر بنائیں گے۔
تاریخی مادیت
ہمارے ہاں اکثر مادیت کے نظریے کو ’’ مادہ پرستی‘‘ یعنی مادی اشیا کی پرستش کرنے یا مادی چیزوں کے پیچھے بھاگنے جیسے دولت پسندی کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔ تاریخی مادیت کے نظریے کا اس مادہ پرستی سے صرف اتنا تعلق ہے کہ اس میں انسان کے اندر اس صفت یا ہوس کی وجوہات کو سمجھنے کے لیے تاریخی پس منظر اور وجوہات کاکھوج لگایا گیا ہے۔تاریخی مادیت کے نظریے میں مادہ پرستی کی ترغیب نہیں دی جاتی بلکہ معاشرے اور معاشرتی رحجانات کو اس کے تاریخی پس منظر اور تناظر میں سمجھنے کے لیے علمی تحقیق کی جاتی اور اس کی ترغیب دی جاتی ہے۔
تاریخی مادیت کا آسان لفظوں میں مطلب ہے ، معاشرے کے مادی حالات کو مرکز بنا کر انسانی تاریخ کا مطالعہ کرنا۔ یا مادی حالات کی تاریخ پر نظر رکھ کر معاشرے کا مطالعہ کرنا۔ یعنی تاریخ کا مطالعہ کرتے وقت نظر معاشرے کے مادی حالات پر رکھ کر اس معاشرے کے ماضی اور حال کو پڑھنا اور سمجھنا۔ اس طرح سے تاریخ کا مطالعہ کرنے اور تاریخی مادیت کے نظریہ سازوں کی طرف سے انسانی تاریخ کے مطالعے سے یہ حقیقت دریافت ہوئی تھی کہ تمام ادارے انسان کی اجتماعی معاشی سرگرمیوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ آسان لفظوں میں اجتماعی معاشی سرگرمیوں کا مطلب ہے روزی روٹی پیدا کرنے کے لیے مختلف کام کرنا۔ قدیم غاروں کے زمانے سے جدید صنعتی و سرمایہ داری معاشرے تک انسانی تاریخ کے مطالعے سے تاریخی مادیت کا قانون دریافت کرنے والوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ معاشرہ درحقیقت انسان کے پیداواری عمل کے دوران پیدا ہونے والے اور پروان چڑھنے والے رشتوں اور داروں سے مل کر بنا ہوا ہوتا ہے۔ اس معاشرے کے معاشی، قانونی، سیاسی، ثقافتی اخلاقی ادارے اور اقدار اور رسوم و رواج ان رشتوں سےبراہ راست با بالواسطہ تشکیل پاتے ہیں۔ یعنی معاشرے کے ادارے ایک طرح سے مادی جڑبنیاد بنانے والے رشتوں سے بنتے ہیں۔ اس کو اور سادہ الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ انسان کی زندگی کی بنیادی ضرورت اور ترجیح روزی روٹی پیدا کرنے کے لیے محنت و مشقت ( جسمانی اور دماغی) ہوتی ہے ۔ اس ہی سے پھر باقی رشتے اور ادارے بتدریج پیدا ہوتے اورپروان چڑھتے ہیں۔
تاریخی مادیت نظریے کا مختصر پس منظر
تاریخی مادیت کی یہ عینک بنائے جانے (یعنی تاریخی مادیت کا نظریہ متعارف ہونے) سے پہلے، دنیا کے فلسفی سمجھتے تھے کہ انسانی سوچ اور نظریات معاشروں میں معاشرتی تبدیلی کے مرکزی انجن ہوتے ہیں۔ یعنی سوچیں اور نظریات پہلے پیدا ہوتے ہیں اور پھر وہ معاشرے کے ڈھانچے ، مادی حالات اور اداروں میں تبدیلیاں لاتے ہیں یا ان کی روشنی میں تبدیلیاں رونما ہوتی یا لائی جاتی ہیں۔ تاہم تاریخی مادیت کے نظریے نے دعویٰ کیا کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ بلکہ مادی حالات کے بدلنے سے معاشی، سیاسی، سماجی و اخلاقی اور قانونی حالات و ادارے اور اقدار میں تبدیلیوں کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ ۔ یعنی پہلے مادی حالات بدلتے ہیں ہیں اس کے بعد باقی کے حالات۔ یعنی سوچ مادی حالات سے پیدا ہوتی ہے۔
اس نظریے کو منظم شکل میں پیش کرنے والے دو جرمن فلسفی دوست تھے۔ کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز ۔ انہوں نے یہ نظریہ انیسویں صدی کے برطانیہ میں ایسے وقت پیش کیا جب برطانیہ اور یورپ کے دیگر حصوں میں گزشتہ چند صدیوں سے سائنسی فکر اور روشن خیالی عروج پر تھی ۔ معیشت، معاشرت اور سیاست میں بنیادی ، دور رس اور گہری اور وسیع تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ دوسرے لفظوں میں معاشروں کی کایا کلپ ہو رہی تھی۔ یعنی نیچے والی مٹی اوپر ہو رہی تھی۔ اس فکری انقلاب میں تھامس ہوبز ( 1588 تا 1679) سے لے کر فریڈرک ہیگل ( 1770 تا 1831) تک درجنوں فلسفیوں اور عالموں نے اہم کردار ادا کیا تھا ۔ اس فکری دھارے یا انداز فکر کی بنیادی صفت یہ تھی کہ انہوں نے سماج ، تاریخ، انسانی طرز عمل و معاشرے وغیرہ کو عیسائی پادریوں کے ادارے ‘کلیسا’ کی طرف سے پیش کی جانے والی توضیحات اور تشریحات سے ہٹ کر سائنسی مطالعے کے ذریعے سمجھنے کی کوششیں کیں اور وضاحتیں پیش کیں۔ یہ وہ عہد تھا جب خیالات کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ یہ خیالات (آئیڈیاز) کی عظمت کا عہد تھا۔
روشن خیالی کے اس عہد میں جہاں ایک طرف انسانی خیالات اور افکار کو تاریخی ارتقاء کی مرکزی قوتیں یعنی انجن قرار دینے کی دلیلیں دی جاتی تھیں وہاں عقل و خرد کے ذریعے معاشی اور معاشرتی امور اور تاریخ کو انسانی زندگی کی مادی ضروریات اور ان کو پورا کرنے سے متعلق معاشی سرگرمیوں پر نظر رکھ کر سمجھنے کی کوششیں بھی سامنے آنے لگیں۔ مارکس سے پہلے فرانس کے فلسفی اور ریاضی دان ‘ کنڈورسے’ ( 1743 تا 1795) نے آزاد معیشت ، آئینی حکومت اور برابری کے حقوق پر لکھا اور ‘ ہنری ڈی سینٹ سائمن ‘ (1760 تا 1825) نے محنت کشوں کے ساتھ کھڑے ہو کر تاریخ کی مادی تشریح کرتے ہوئے اس کو غلاموں، مزارعوں اور تنخواہ مزدوروں کے ادوار سے پہچانا۔ فرانس ہی کا ‘اوتھوانا بغناغ ‘ ( 1761- 1793 ) پہلا مفکر تھا جس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ تاریخ میں معاشرے کو چلانے میں مرکزی کردار معاشی قوتوں کا رہا ہے۔ یعنی معاشی قوتیں معاشرے کا انجن ہوتی ہیں اور معاشرے کو چلاتی ہیں۔ ان میں تبدیلیاں ، معاشرتی تبدیلیاں (معاشرتی تغیر) لاتی ہیں۔
یہ سوال کہ معاشرتی تبدیلی کیوں آتی ہے سب سے پہلے جرمن فلسفی ہیگل ( 1770 – 1831 ) نے اٹھایا ۔ اس نے کہا کہ روشن خیال مفکرین تاریخ کے ایک عہد سے دوسرے عہد میں پائے جانے والے فرق کو تو پہچان لیتے ہیں کہ کیا کیا تبدیل ہوا لیکن یہ نہیں بتا سکتے کہ تبدیلی آئی کیوں؟
ہیگل نے اس عہد کے معیشت دانوں کے اس دعوے کو مسترد کیا کہ شہری معاشرے کی بنیاد انسان کی فطرت پر قائم ہوتی ہے جو آفاقی ہوتی ہے اور بدلتی نہیں ۔ اس کے مقابلے میں ہیگل نے یہ دلیل پیش کی کہ انسان کی فطرت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں موجود فن و ادب، سائنس اور ریاستی ادارے اور ان کے قواعد و ضوابط ، قوانین اور اقدار و روایات یوں ہی کہیں سے اُگ نہیں آتے بلکہ ان سب کا ایک تاریخی پس منظر ہوتا ہے یعنی ان کے پیدا ہونے کے اپنے مخصوص حالات ہوتے ہیں اور ان کی پیدائش اور پروان چڑھنے کے اس تاریخی عمل کو سمجھے بغیر ان کو سمجھا نہیں جا سکتا۔ ہیگل نے فلسفیانہ خیالات کو تاریخی تناظر دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ ہمہ گیر سچائیاں نہیں بلکہ اپنی مخصوص ثقافت کا اظہار ہوتے ہیں ۔ یعنی یہ کہ معاشرتی تبدیلیاں اپنے اپنے ثقافتی دائروں میں اپنے اپنے حالات کے مطابق رونما ہوتی ہیں۔
یہ بہت دلچسپ عہد اور بحثیں ہیں جدید علوم کے منبعوں کو سمجھنے کے لیے لیکن یہاں ان بحثوں کی تفصیلات پیش کرنے کی گنجائش نہیں ۔ یہاں صرف یہ بتانا تھا کہ جس عہد میں تاریخی مادیت کا نظریہ پیش کیا گیا وہ عہد یورپ میں ایک طرف سرمایہ داری طرز پیداوار کی پیدائش اور افزائش کا عہد تھا اور دوسری طرف اس میں تاریخ ، معاشرے ،معاشرتی تبدیلی ، انسانی فطرت وغیرہ کے بارے میں کلیسائی تشریحات اور توضیحات کو چھوڑ کر تجربات و مشاہدات کی روشنی میں زندگی اور کائنات کو سمجھنے کی سائنسی کوششیں پھل پھول رہی تھیں۔
تاہم تاریخی مادیت کے نظریے میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ خیالات ہی معاشرے کو چلانے والی واحد قوت نہیں ہوتے اور نہ ہی بادشاہتوں ، سلطنتوں ، ایمپائروں کے عروج و زوال کی تہہ میں صرف معاشرے کے اوپرلے طبقے کے عظیم اور بہادر انسانوں کی سرگرمیاں کارفرما ہوتی ہیں۔ یعنی تاریخ عظیم خیالات، عظیم شخصیات اور حکمرانوں کی سرگرمیوں سے زیادہ کچھ ہوتی ہے۔
تاہم جس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ تاریخ کے اس مادی نظریے نے معاشروں میں ارتقاء کے عمل یعنی معاشرتی تبدیلی کے سفر کو سمجھنے کی کوششیں کرنے والے فلسفیوں کو جو سر کے بل کھڑے ہو کر دنیا کو دیکھ رہے تھے سیدھا کر کے پاؤں پر کھڑا کر دیاوہ یہ دعویٰ تھا کہ ‘ سوچ مادہ نہیں پیدا کرتی بلکہ مادہ سوچ پیدا کرتا ہے۔ یعنی پہلے مادہ اور پھر سوچ۔ یعنی سوچ اور خیالات ارد گرد کے مادی حالات کے تناظر میں پیدا ہوتے ہیں۔ ( اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کی خیالات کی کوئی اہمیت یا تبدیلی میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔ بلکہ نکتہ یہ ہے کہ معاشرتی تبدیلی فقط نظریات اور افکار سے نہیں آتی بلکہ معاشرے کے مادی حالات میں تبدیلی سے آتی ہے۔ اس کا تفصیلی تجزیہ یہاں بات کو بہت پیچیدہ بنا دے گا)۔
تاریخی مادیت کا مرکزی دعویٰ یہ تھا کہ معاشرتی تبدیلی کا انجن وہ تضادات ہوتے ہیں جو پیدوار کے ذرائع ( روزی روٹی پیدا کرنے کے ذرائع) اور ان سے پیدا ہونے والے تعلقات ( پیداوار ی تعلقات ) میں پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ نظریہ اس وقت پیدا ہوا جب یورپ صنعتی اور سرمایہ داری دور میں داخل ہو رہا تھا، تاہم اس نے معاشرتی تبدیلی ( تغیر) کا جو ‘قانون’ دریافت کیا اس کو معاشرے میں تبدیلی کے عمل اور وجوہات اور شکلوں کو سمجھنے کے لیے ڈارون کی طرف سے زمین پر زندگی کے ارتقاء کے نظریے جیسا اور اس جتنا اہم قرار دیا گیا۔ اس کا نچوڑ یوں بیان کیا جاتا ہے۔
“انسانی تاریخ کی سادہ سی حقیقت جو گھاس کی طرح اُگے ہوئے نظریات کے پیچھے چھپی رہی وہ یہ ہے کہ سیاست، علم ، فن وغیرہ سے پہلے انسان کو کھانے ، پینے، محفوظ رہائش، اور تن ڈھانکنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے زندہ رہنے کے لیے یہ بنیادی اور لازمی ضروریات پوری کرنے کے لیے انسان جو سرگرمیاں کرتا ہے ان کے فروغ سے ایک معاشی بنیاد بنتی ہے جس پر اس معاشرے کے ریاستی ، اداروں ، قانونی تصورات ، فن و اخلاقیات کی ‘عمارت’ قائم ہوتی ہے۔ “
اس نظریے نے انسانی سماج کے مطالعے میں بنیادی تبدیلی پیدا کی۔ پہلے سماجی تبدیلی ، واقعات اور حالات کا سبب لوگوں کی سوچوں یا پھر آسمانی قوتوں میں ڈھونڈا جاتا تھا۔ اس نظریے نے اسباب کو معاشرتی پیداواری عمل اور پیداواری تعلقات اور پیداوار کی تنظیم اور تقسیم میں ڈھونڈنے کی دلیل پیش کی۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.