رب ارحمھما۔ تحریر: حفصہ محمد فیصل

رب ارحمھما۔ تحریر: حفصہ محمد فیصل

از؛ حفصہ محمد فیصل

”مائیں ناراض نہیں ہوتیں“

بس انہیں دکھ ہوتا ہے کہ وہی ننھا منا وجود، جسے سہج سہج کر انہوں نے پالا پوسا، جس کی آہ پر تڑپ اٹھی ،جس کے آنے کے بعد خود کے لیے دعا مانگنا ہی بھول گئی، جس کی ہر کامیابی کے پیچھے اس کی راتوں کی آہ و زاری چھپی ہے، جو اس ننھے وجود کو زمانے کے نرم گرم سے اپنی آغوش میں چھپا کر رکھتی تھی، آج وہی وجود ایک تنومند شجر کی صورت کھڑا ہے تو اس کی ضعیف آنکھیں،کمزور وجود اس کی چھاؤں کی نرمی چاہتا ہے، اس کی پھلواری میں بیٹھ کر مسکرانا چاہتا ہے لیکن جب تم اپنی طاقت کے نشے میں مست ہوکر اس پر اپنے پتے جھاڑ دیتے ہو تو وہ نحیف وجود گھبرا جاتا ہے،اسے خوف آنے لگتا ہے۔ اسے تو آپ کی نرمی کی خواہش تھی۔

خدارا! ماؤں کو پیار سے رکھیے۔

انہیں سچے موتی کی طرح سنبھال کر رکھیے۔

ان کے نازک دل کو سینچ کر رکھیے۔

ان جنتوں کو آراستہ کیجیے۔

ان کے طفیل وہاں کی جنتوں کی خوشبو پالیں گے۔

جب آپ ماں کے پاس جائیں تو ساری مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کر انہیں پوری

توجہ دیجیے۔

ان کے ہاتھوں کو بوسہ دے کر ،ان کے پاؤں داب کر انہیں راحت پہنچائیے۔

ان کو دیکھ دیکھ کر حج مبرور کا ثواب پائیے۔

یہی عمل تو دراصل آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔

بس سمجھنے کی دیر ہے۔

سمجھ آنے تک کہیں زیادہ دیر نا ہوجائے اور یہ سب کچھ پچھتاوا نا بن جائے۔

انہیں اپنے احسان گنوانے سے پہلے ان کے ان گنت احسانات یاد کر لیجیے، پھر زبان کچھ بھی کہنے کے قابل نہ رہے گی۔  ان کی جھکی کمروں کے پیچھے وہ ریاضتیں دیکھیے جو انہوں نے تم کو پروان چڑھانے کے لیے برداشت کیں ،ان کے لرزتے ہاتھوں کے پس منظر میں وہ مشقتیں چھپی ہیں جن کی وجہ سے تمہیں راحت بھری زندگی میسر ہوئی، ان کے مجاہدوں کو اپنی چند عنایتوں کے عوض مت تولنا، ورنہ خسارا ہی خسارا اٹھاؤ گے۔

کسی عربی مفکر نے کیا ہی پیاری بات کہی ہے کہ: ”اے رب! میں پناہ مانگتا ہوں اس زندگی سے جس میں ماں کی خوشبو نا ہو اور باپ کی آواز نا ہو۔“

پھر جلدی سے تھام لیجیے اپنی جنتوں کو نرمی سے، محبت سے، پیار سے۔

منا لیجیے اپنی ماؤں کو مان سے ، چاؤ سے ،لاڈ سے۔

لاٹھی بن جائیے اپنے باپ کی اعتماد سے، استحقاق سے۔۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.