اُستاذ الحکماء حکیم محمد عبداللہؒ (1974-1904) برّصغیر پاک وہند کی طبّی دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں، پشت ہا پشت سے علم طب، علم دین اور تصنیف و تالیف آپکے خاندان کی شناخت چلی آتی ہے۔ آپکا تعلق متحدہ پنجاب (اب ہریانہ) کے قصبہ روڑی ضلع سرسہ سے تھا۔ آپکے والد گرامی مولانا محمد سلیمانؒ ایک طبیب اور مبلغ اسلام کے طور پرمعروف تھے۔ مولانا سلیمانؒ بلا شبہ ایک ولی کامل اورہندوستان کی اسلامی تحریکوں کے پشتیبان تھے۔ آپکی تصانیف کی تعداد بیس سے زائد ہے۔ حکیم محمد عبداللہؒ مولانا خیرالدین سرسوی ؒ کے شاگرد رشید تھے۔ آپ نے کچھ عرصہ حکیم اجمل خان مرحوم کے استاد حکیم عبدالوہاب انصاری المعروف نابینا صاحب کے سامنے بھی زانوئے تلمذ تہہ کیا۔1923ء میں محض انیس سال کی عمر میں پھٹکڑی جیسی سستی دوا سے تمام امراض کے علاج کیلئے اپنی پہلی کتاب ’’خواص پھٹکڑی‘‘ تصنیف کی۔لاہور کے ناشران کتب کیجانب سے ایک نو آموز کی کتاب چھاپنے سے انکار پر آپ نے روڑی جیسے دور افتادہ علاقے میں دارالکتب سلیمانی کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ کی بنیاد رکھی۔ 1946ء تک آپکے قلم سے تقریباً 60 طبی کتب شائع ہو کر مقبول عام و خاص ہوئیں۔ آپکی مطبوعہ وغیرمطبوعہ کتب (جو تقسیم کے باعث ہندوستان میں رہ گئیں)کی تعداد 140کے قریب ہے۔ 1934ء میں مسیح الملک حکیم اجمل خانؒ کی قائم کردہ ممتاز ترین اطباء پر مشتمل آل انڈیا یونانی اینڈ آیورویدک طبی کانفرنس نے ان کتب کو طبّ یونانی میں بیش بہا وجلیل القدر اضافہ قراردیتے ہوئے فاضل مصنّف کو درجہ اوّل کی سند اور طلائی تمغہ عطا فرما کر حوصلہ افزائی فرمائی۔آپ پہلے طبّی مصنف تھے جو اس منفرد و یگانہ اعزاز کے مستحق قرار پائے۔ تقسیم برّصغیر کے بعد آپ اپنے وطنِ مالوف سے ہجرت کر کے جہانیاںضلع خانیوال میں اقامت پذیر ہوگئے اور یہاں مکتبہ سلیمانی کے نام سے سلسلہ خواص کی 6کتب طبع کی گئیں، تاہم نامساعد معاشی حالات کے باعث آپ نے کتب کے اشاعتی حقوق عارضی طور پر شیخ محمد اشرف تاجر کتب کشمیری بازار لاہور کو عطا کر دئیے۔جہانیاں میں آپکا مطب مرجع خلائق تھا ، تادم زندگی قلم وقرطاس سے آپکارشتہ برقرار رہااور آپ فروغ علم و طب میں ہمہ تن مشغول رہے۔ بحیثیت خطیب آپکی تقاریر بہت دلپذیر اور موثر ہوتیں،پاکستان کے اکثر دینی وعلمی اکابرین سے آپکا ذاتی تعلق تھا۔کتابوں سے محبت آپکو وراثت میں عطا ہوئی تھی،روڑی میں دس ہزار سے زائد نادر و نایاب کتب پر مشتمل آپکے کتب خانہ کا شمار ہندوستان کی بیمثال ذاتی لائبریریوں میں ہوتا تھا ۔کتابوں سے شیفتگی کا یہ عالم تھا کہ قیام پاکستان کے بعدنامساعد حالات کے باوجود چند ہی سالوں میں سلیمانی لائبریری جہانیاں کے نام سے آٹھ دس ہزار کتب دوبارہ اکٹھی کر لیں۔
حکیم محمد عبداللہ کی تصانیف میں کنزالمجربات گلِ سرسبد کی حیثیت رکھتی ہے یہ کتاب بفضلہ تعالی بیسیویں صدی کی مقبول ترین اور مفید عام طبی کتب میں سے ایک ہے۔ 1925ء (میں اسکی پہلی جلد کی اشاعت )سے ابتک تقریباً ایک لاکھ کی تعداد میں فروخت ہو چکی ہے۔ اسکے قریب بھی کسی طبی کتاب کی فروخت کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ اس کتاب میں کیا ہے؟ اور اسکے نسخہ جات کتنے مجرب اور مفید ہیں؟ یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ اسکی تالیف سے لیکر ابتک بلا مبالغہ لاکھوں افراد نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے‘ برّصغیر پاک و ہند میں شاید ہی کوئی مطب ایسا ہو جس میں کنز المجربات کا کوئی نسخہ استعمال نہ ہوتا ہو۔ہزارہا افراد نے خطوط اور بالمشافہ ملاقات میں اظہار کیا کہ اس کتاب کی بدولت انہیں علم طب سے دلچسپی پیدا ہوئی اور انہوں نے حکمت کو بطور پیشہ اختیار کیا۔ 1968ء میں پاکستان طبی بورڈ نے حکیم محمد حسن قرشی مرحوم کی سربراہی میں اطبّاء کی رجسٹریشن کیلئے پورے مشرقی اور مغربی پاکستان کا دورہ کیا۔ دورہ کی تکمیل کے بعد طبّی بورڈ کے اراکین جہانیاں تشریف لائے اور انہوں نے حکیم محمد عبداللہؒ کو اُستاذ الحکماء کا خطاب دیا اور بتایا کہ ’’پورے پاکستان میں ہم نے انٹرویو کے دوران اطباء سے پوچھا کہ وہ عموماً کن طبی کتب سے استفادہ کرتے ہیں؟ نوے فیصد کا جواب تھا، ’’حکیم محمد عبداللہ کی کنزالمجربات!!‘‘۔
اسکے علاوہ حکیم محمد عبداللہ کی کنزالمرّکبات،کنزالمفردات،نیز آسان گھریلو علاج پر سلسلہ ہائے خواص الاشیاء‘ مفت علاج‘ گھر کا علاج‘ پھلوں سے علاج‘ پھولوں سے علاج وغیرہ مشہور ومعروف ہیں اور ہاتھوں ہاتھ طلب کی جاتی ہیں۔ آپکی تصانیف عام فہم اور خصوصاً عربی و فارسی کی دقیق اور گنجلک طبی اصطلاحات سے پاک ہیں۔ ذخیرۂ معلومات قابلِ قدر‘ پیرایہ بیان نہایت سلیس، دلچسپ اور دلنشین ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپکی تالیفات سے نہ صرف طبابت پیرا حضرات بلکہ معمولی پڑھے لکھے اشخاص اور گھریلو خواتین بھی بخوبی مستفید ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے چند کتب انگریزی، ہندی، مرہٹی اور گجراتی زبان میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ حکیم محمد عبداللہؒ کی علمی دنیا میں وجہ شہرت آپکی بخل شکنی ہے۔ آپ نے ہزارہا روپے کے نایاب، مجرب اورصدری نسخہ جات آنے والی نسلوں کے استفادہ کیلئے اپنی کتب میں یہ کہ کر درج کر دیے کہ ’’ رازقِ حقیقی اللہ تعالیٰ ہے اور اپنے علم اور نسخہ جات کو رازق سمجھنا شرک کے مترادف ہے۔‘‘اپنے سلسلہ ہائے تصانیف کے بارے میں حکیم صاحب لکھتے ہیں کہ ’’قیام پاکستان سے قبل میں نے جو کتابیں لکھیں ان میں اصل مقصد تو خدمت خلق ہی تھا۔ لیکن ساتھ ہی انہیں ذریعہء روزگار بھی سمجھتا تھا، مگر اب کتابوں کی نگارش کی بڑی غرض اللہ کی مخلوق کی خدمت کر کے اسکی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ بناءً علیہ اسمیں منافع کا پہلو فقط اتنا ہی ہے کہ جس سے زندگی کے باقی ماندہ دن گزارنے میں کسی کا دست نگر نہ ہونا پڑے۔‘‘
بشکریہ ادارہ مطبوعات سلیمانی لاہور
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.