ارحاء مدثر
سہ پہر کا وقت تھا۔ سورج نے دلہن کی طرح گہرا سُرخ جوڑا پہنےہوئے تھا۔ آسمان بھی سورج کے گہرے سُرخ رنگ کے عروسی جوڑے میں اپنا منہ قدرے شرماہٹ سے چھپائے بیٹھا ایک دن کی دلہن کا منظر پیش کر رہا تھا۔ کالج میں افراتفری کا سما تھا ۔ بی ایڈ کا امتحان شروع تھا ۔سب طلبہ حال میں بیٹھے پرچہ لکھنے میں مصروف تھے، اور باہر اس کے ساتھ آئے ہوئے مہمان ہاتھ میں تسبیح لیے دعاگو تھے۔ انیقہ بھی ان میں سے ایک تھی ،جو اپنی بہن کی ہمراہ آئی تھی۔ جاڑے کا موسم تھا۔ کالج کے لان میں سب ادھر ادھر تاش کے پتوں کی طرح بکھرے بیٹھے تھے۔ انیقہ بھی تاش کے ان پتوں میں سے ایک تھی جو غلطی سے ہاتھ سے پھسل کر کہی دور لان میں سب سے الگ ہیڈ فون کانوں میں لگائے ،اپنے چہرے کو ہاتھوں کا سہارا دئیے بیٹھی، آسمان کو عروسی لباس میں منہ چھپائے ہوئے شرماتے لجھاتے ہوئے مزے سے دیکھ کر مسرور ہو رہی تھی۔ ۔ وہ اردو ادب سے تعلق رکھنے والی ،شعر و شاعری سے شغف رکھنے والی لڑکی تھی۔ آج موسم اس کے مزاج اور پسند کے مطابق تھا۔ اوپر آسمان اور سورج کا عروسی لباس، نیچے ہوا اور بدلتے ہوئے موسم کی وجہ سے ہوا میں ہلکی خنکی ، جو چاروں اطراف دیواروں سے سائیں سائیں ٹکراتے انیقہ کے کھلے سیاہ بالوں کو پریشان کر رہی تھی۔ فطرت کے اس رنگین مناظر سے لطف اندوز انیقہ نے اپنے بالوں کو کلیپ کی مدد سے پیچھے باندھ کر اپنے تخیل کو جھنجھوڑا ۔ کچھ دیر تخیل کی دنیا میں مصروف رہی۔ تخیلاتی دنیا سے مجبور اس کا دھیان ہاتھ میں پکڑے موبائل کی طرف ہوا اور موبائل کا لاک کھولنے لگی۔ لاک کھول کر انیقہ نے موبائل کے سکرین سے چہرا ایک لمحہ کے لئے اٹھائے فضا میں موجود خنکی کو اپنے اندر جذب کرکے اپنے تخیل کی دنیا میں لگے آگ کو بجھانا چاہا ۔جو بے سود و بے کار رہا ۔اور اس نے بغیر سوچے سمجھے تخیلاتی ریگستان میں قدم رکھتے موبائل سکرین پر انگلیاں پھیرتے نظم لکھنی شروع کردی ۔ موبائل سکرین پر انیقہ کی انگلیاں چلتے گئی اور لکھتے لکھتے اختتامی منازل تک پہنچ گئی۔ اس سمے اس کی سماعتوں کو کسی نے ہتھوڑا لے کر زور سے کھٹکھٹایا۔ جسے انیقہ نے نظر انداز کرکے تخیلاتی صحراؤں میں اونٹ پر بیٹھی اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے مسافرت کرتے گئی۔ ایک بار پھر کسی نے اس کو کندھے سے پکڑ کر اونٹ سے گرانا چاہا جس میں وہ کامیاب ہوکر انیقہ کو منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی واپس لے آئی۔ وہ اپنے سامنے کھڑی عورت کی طرف متوجہ ہوئی۔ جو ایک دراز قد کی خاتون برقع میں چہرا چھپائے التجائیں نظروں سے اس سے التماس کر رہی تھی۔ انیقہ نے کانوں سے ہینڈز فری ہٹائی۔ بسمہ اللہ کرکے لان سے اٹھ گئی۔ “جی انٹی السلام علیکم . آپ کو مجھ سے کوئی کام تھا۔۔؟” انیقہ نے حیرانگی کے انداز میں پوچھا۔
جی جی ۔۔۔ بیٹا۔ تمہارے موبائل میں بیلنس ہوں گے۔ انیقہ کے سامنے عورت ہچکچاتے ہوئے بولی۔
انیقہ نے استفہامیہ انداز میں ” جی انٹی ہے بیلنس میرے موبائل میں؟؟ ۔۔۔ کیوں؟”۔۔
ہاتھ میں پکڑے کاغذ کو انیقہ کی طرف بڑھتے ہوئے التجائیں انداز میں اس عورت نے کہا ” بیٹا زرا اس نمبر پر میری بات کروانا…..”
انیقہ حیرانگی سے انجان عورت کے ایسے مطالبہ سے تھوڑی سہم سی گئی۔ پھر اپنی ڈھارس خود باندھ کر اس سے معذرت خواہ ہوئی۔ عورت نے منت سماجت کرنا چاہی ۔ لیکن انیقہ پر کچھ اثر نہ ہوا کیونکہ اس کو گھر کی طرف سے سختی سے منع کیا گیا تھا کہ کسی انجان نمبر پر نہ فون کرنا ہے نہ اس سے بات کرنی ہیں۔ آپ کسی اور سے کہے وہ بات کروادیں گے ۔۔۔” انیقہ کے زبان سے یہ الفاظ ابھی نکلے نہیں تھے کہ
پلک جھپکتے انیقہ کے سامنے کھڑی عورت غائب ہوگئی۔ انیقہ نے ڈھونڈھنا چاہا لیکن نہ ملی۔ پریشانی کی حالت میں موبائل ہاتھ میں پکڑے ہزار ہاں خدشات انیقہ کے دل میں آئیں اور چلے گئے۔اس نے خود کو ملامت کرنا چاہا ۔ برا بھلا کہا دل ہی دل میں سوچا کہ کیا پتہ اس عورت کو ضرورت ۔۔۔۔ ہاں شاید۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔بھائی۔۔۔۔
اپنے سینے میں ہزارہا ادھورے سوالات لئے سوچتی رہی۔ سورج ابھی اپنا عروسی جوڑا نکالے مکمل طور پر غروب ہوگیا تھا۔ آسمان سورج کے سرخ رنگ کے عروسی جوڑے سے اپنا ننگا جسم نکال کر شب خوابی کا لباس پہنے پلنگ پر سونے کے لیے پہلا قدم بڑھا چکا تھا۔ حال میں پرچہ تقریباً ختم ہوچکا تھا ۔ تمام طلبہ باری باری پرچہ دے کر نکل رہے تھے ۔ انیقہ بھی ہال کے دروازے پر نظریں جمائے بہن کے انتظار میں گود میں پرس رکھے لان میں بیٹھی اس خاتون کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ انتظار کرتے کرتے جب ہال کے سامنے طلبہ کا رش زیادہ ہوا تو انیقہ نے ہال کے سیڑھیاں چڑھ کر اپنی بہن کو ڈھونڈنا چاہا۔ طلبہ کا رش زیادہ تھا ۔ جس میں چاروں اطراف سے انیقہ پھنس گئی ۔ چہرے زیادہ تھے ۔ جس میں ایک دم کے لیے انیقہ ھراس سی گئی۔ اس نے نکلنا چاہا ۔ ہاتھ پیر بھی ہلائے جس کے نتیجہ میں وہ طلبہ کے جم غفیر سے قدرے دور ہوئی لیکن اس کا پرس اس کے ہاتھ سے گر گیا۔ جس میں اس نے کچھ دیر پہلے موبائل اور ہیڈ فون بھی باقی سامان کے ساتھ ڈال رکھا تھا۔ انیقہ اپنے ہاتھ کو حالی دیکھ پریشانی کی حالت میں واپس طلبہ کی جم غفیر کی طرف بڑھی اور اپنے موبائل کو ڈھونڈنا چاہا۔ انیقہ کی سرگردانی بڑھتی گئی اردگرد طلبہ کو ہاتھ کے اشارے سے ہٹاتی گئی ۔ طلبہ کی جم غفیر میں انیقہ کی نظر جب زمین پر پڑی جہاں اس کا پرس اس سے تھوڑے فاصلے پر تھا۔انیقہ پرس کی طرف بڑھتی گئی۔ جسے اچانک ایک برقع پوش خاتون نے اپنا آدھا چہرا چھپائے ہلکی سی مسکراہٹ لائے اٹھا گئی۔ یہ برقعہ پوش کوئی اور نہیں بلکہ وہ دراز قد کی خاتون تھی جس سے کچھ دیر پہلے انیقہ کی ملاقات ہوئی تھی۔ انیقہ چیختی چلاتی رہی ۔ “میرا پرس ۔۔میرا پرس۔۔۔”۔لیکن کوئی بھی اس برقع پوش خاتون کو نہ پکڑ سکا ۔
لکھاری کا تعارف
خضرہ قلمی نام ارحاء مدثر ہے۔ خضرا کا تعلق چارسدہ خیبرپختونخوا سے ہیں۔ بی ایس اردو کیا ہوا ہے۔ وہ کالمز ،مضامین، نثری نظمیں،افسانے اور ناولٹ لکھتی ہیں۔ ان کی تخلیقات چارسدہ نیوز ، شہباز نیوز پیپر پشاور، ادبی ورثہ انڈین ، گوھر نایاب ، مردان ،ادبی جرائد وغیرہ میں شائع ہوتی ہیں۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.