تاثرات: نیلما ناھید درانی
امجد اسلام امجد سے میری پہلی ملاقات پاکستان ٹیلی ویژن لاہور سنٹر پر ہوئی۔۔۔ان دنوں ان کا ڈرامہ وارث آن ائر تھا۔۔۔اور وہ روزانہ اس کی ریکارڈنگ کے لیے ڈرامہ کے پروڈیوسر نصرت ٹھاکر کے کمرے میں موجود رہتے۔۔۔
انھی دنوں میں نے ان کو اپنی پہلی کتاب ” جب تک آنکھیں زندہ ہیں ” کا مسودہ دیا۔۔۔جس پر انھوں نے فلیپ لکھ کر دیا۔۔۔
لیکن میں ان کے نام سےبرسوں پہلے سے آشنا تھی۔۔۔ان کی بہن نرگس ۔۔حمایت اسلام اسلامیہ گرلز ہائی سکول برانڈرتھ روڈ لاہور میں میری ہم جماعت تھی۔۔۔وہ کچھ دن سکول نہیں آئی تو ہماری کلاس ٹیچرز نے کچھ لڑکیوں کے ہمراہ مجھے اس کی خیریت دریافت کرنے اس کے گھر بھیجا۔
نرگس کا گھر فلیمنگ روڈ پر تھا۔۔۔جو برف خانہ چوک سے لاہور ہوٹل تک جاتی تھی۔۔۔ایک لال رنگ کی بلڈنگ پر آقا بیدار بخت کے نام کا بورڈ لگا ہوا تھا۔۔۔۔۔اس سے کچھ آگے ایک بڑا سا گیٹ تھا۔۔۔۔جس پر” امجد اسلام امجد ” لکھا تھا۔
اس گھر میں نرگس کے تمام چچا تایا کے خاندان بھی ایک ساتھ رہتے تھے۔۔۔اس کے والد اور چچاوں کی برانڈرتھ روڈ اور بل روڈ پر دکانیں تھیں۔۔
۔امجد اسلام امجد کی شادی ان کی چچازاد فردوس سے ہو چکی تھی۔۔اور۔وہ ایم اے او کالج میں لکچرار تھے۔
اپنی پہلی کتاب کا مسودہ دینے جب میں ان کے گھر گئی تو وہ۔۔۔گڑھی شاہو میں تاج سینما کے عقب میں شفٹ ہو چکے تھے۔ وہاں فردوس بھابھی سے بھی پہلی ملاقات ہوئی۔
میری پہلی کتاب۔۔۔جب تک آنکھیں زندہ ہیں ۔۔۔ کی تقریب رونمائی۔۔۔فلیٹز ہوٹل میں ہوئی تھی۔۔ جس کی صدارت اشفاق احمد مہمان خصوصی وزیر اطلاعات پنجاب چوہدری شجاعت حسین تھے۔۔۔جبکہ مہمانان اعزاز۔۔۔بانو قدسیہ، بشری رحمن، منو بھائی، اظہر جاوید اور امجد اسلام امجد تھے۔۔۔۔گلوکاروں میں حامد علی خان، مظہر حمید اور اقبال باہو شامل تھے۔۔۔۔نظامت دلدار بھٹی کی تھی۔۔۔
دلدار بھٹی کو آنے میں دیر ہو گئی لیکن تقریب وقت مقررہ پر شروع کر دی گئی۔۔۔دلدار بھٹی کے آنے تک تقریب کی نظامت امجد اسلام امجد نے کی۔
اس کے بعد میں نے ان کے ساتھ پی ٹی وی ۔ مختلف کالجوں اور دیگر کئی مشاعرے پڑھے۔
پولیس ٹریننگ سکول چوہنگ لاہور میں مشاعرہ کروایا تو منیر نیازی، شہزاد احمد اور امجد اسلام امجد نے شرکت کی۔۔۔امجد اسلام امجد کے کہنے پر میں نے دوحہ قطر سے آئے ہوئے ممتاز راشد لاہوری کو بھی مدعو کیا۔
میں نے رائل ٹی وی کے پروگرام۔۔۔ستاروں کے ساتھ۔۔کی میزبانی شروع کی تو امجد اسلام امجد کا بھی انٹرویو کیا۔
ریڈیو پاکستان لاہور کے ادبی پروگرام۔۔تخلیق۔۔کے لیے ان کا انٹرویو کیا۔۔۔جس کی میزبان میں اور پروڈیوسر عفت علوی تھیں۔
ایوان صدر کے مشاعرے میں شرکت کے لیے جو یوم آزادی کے موقع پر تھا۔۔۔ سب شاعر اور شاعرات ایک ہی ہوٹل میں مقیم تھے۔۔۔4 اگست کو میں نے اور فرحت سلطانہ نے ہوٹل انتظامیہ سے کہہ کر کیک منگوا کر ان کی سالگرہ منائی۔۔۔جس میں ہوٹل میں موجود شاعر انور شعور، اختر شمار، سعد اللہ شاہ اور سعود عثمانی بھی شریک ہوئے۔
1997 میں۔۔۔ میں جائیکا کی طرف سے جاپان گئی تو ٹوکیو یونیورسٹی کے پروفیسر اسادہ یاتکا نے۔۔۔امجد اسلام امجد کی کتاب ۔۔وارث۔۔دکھائی۔۔۔اور ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔۔۔
اسادہ یاتکا اپنی بیگم میہارو کے ساتھ پاکستان آئے۔۔۔تو میں نے اپنے دفتر میں امجد اسلام امجد کو بلا کر ان سے ملاقات کروائی۔
امجد اسلام امجد کی دلدار بھٹی سے بہت محبت اور دوستی تھی۔۔۔۔
دلدار بھٹی کا جنازہ امریکہ سے لاہور آیا۔۔۔تو وحدت روڈ قبرستان میں وہ پھوٹ پھوٹ کر روتے رہے۔۔۔
کچھ روز بعد وہ چلڈرن کمپلیکس کے ڈائرکٹر بن گئے جہاں ان سے قبل دلدار بھٹی ڈائرکٹر تھے۔
میری ایرانی دوست وفا یزدان منش نے جو اس وقت پنجاب یونیورسٹی میں اردو ادب کی طالبہ تھیں۔۔۔اب تہران یونیورسٹی میں استاد ہیں نےامجد اسلام امجد سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو میں اس کے ساتھ چلڈرن کمپلیکس گئی۔۔۔امجد اسلام امجد اپنی روایتی خوشدلی اور شفقت سے پیش آئے اور انھوں نے اپنی نئی کتاب بھی ہم دونوں کو عنایت کی۔۔۔”بارش کی آواز۔۔”۔
بارش ان کی شاعری کا سب سے بڑا استعارہ ہے۔۔
محبت ایسا دریا ہے
کہ بارش روٹھ بھی جائے
تو پانی کم نہیں ہوتا
امجد اسلام امجد کی دو نظمیں مجھے بہت پسند ہیں جو ہر مشاعرے میں ۔۔۔میں ان سے فرمائش کرکے سنتی تھی۔۔۔ایک انھوں نے اپنے بیٹے ذیشان کے لیے لکھی تھی۔۔۔۔اور دوسری۔۔۔سیلف میڈ لوگوں کے بارے میں۔۔۔ان دونوں نظموں میں ان کی ساری زندگی کے دکھ، درد، جہد مسلسل کی داستان مقید ہے۔۔۔جو ہر سیلف میڈ کو اپنی داستان زندگی محسوس ہوتی ہے۔
امجد اسلام امجد کرکٹ کے بھی شیدائی تھے۔۔۔وہ کرکٹ کھیلتے بھی رہے۔۔۔ان کے ڈراموں میں بھی ان کی اس خواہش کا اظہار ملتا ہے۔۔۔۔ان کے ایک ڈرامے کا ایک ڈائیلاگ جو مجھے پسند ہے۔
“سینچری بنانے والے کرکٹر کو کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ اس نے کتنے چانس لیے ہیں”
ان کے والد کی وفات ہوئی۔۔تو کچھ دن بعد میں نے کامران لاشاری کے گھر ایک مشاعرے میں اپنی نظم ان کی نذر کر کے پڑھی۔
اک ان دیکھی چھت کی مانند
اس نے ہمیں سنبھالے رکھا
جو بھی مصیبت ہم پر آئی
اس کو خود پر ٹالے رکھا
کتنے برسوں خون پسینہ گال کے
روٹی لے کر آیا
کتنے برسوں ایک ہی گھر میں
اس نے سب کو پالے رکھا۔
نظم سن کر وہ آبدیدہ ہو گئے اور دیر تلک اپنے والد کی باتیں کرتے رہے۔
امجد اسلام امجد پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ میں بھی ڈائرکٹر رہے۔۔۔جہاں صغرا صدف ان کے ساتھ کام کرتی تھیں۔۔۔اردو سائنس بورڈ میں بھی تعینات رہے۔
احمد ندیم قاسمی ‘ عطاالحق قاسمی، خالد احمد اور نجیب احمد ان کے قریبی دوست تھے۔۔۔پروین شاکر کو اپنی ہمشیرہ کہا اور اس کی وفات کے بعد اس کے بیٹے گیتو کے لیے بھی نظم لکھی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ وہ ہر شاعرہ ادیبہ کو عزت دیتے اور بڑے بھائیوں کی طرح احترام اور شفقت سے پیش آتے تھے۔
مزاحیہ شاعر انور مسعود ان کے سمدھی تھے۔۔ امجد اسلام امجد کی ایک بیٹی ان کی بہو ہیں۔۔۔جبکہ دوسری بیٹی کی شادی ایک پولیس آفیسر سے ہوئی ہے۔۔۔۔انھوں نے اکثر بیرون ممالک سفر انور مسعود کے ساتھ کیے۔۔۔شاعر سعود عثمانی سے بھی رشتہ داری تھی۔۔
2015 میں برطانیہ آئے تو وصی شاہ ان کے ہمراہ تھے۔۔۔
میں نے بریڈ فورڈ اور ٹوٹنگ میں دو مشاعرے ان کے ساتھ پڑھے۔۔۔میرا بیٹا احسن علی میرے ساتھ تھا۔۔۔جس کو بلا کر گلے لگایا۔۔۔اور کہا یہ تو میرے ڈرامے کا ہیرو ہے۔۔۔۔
مجھے یاد بھی نہیں تھا کہ احسن نے ان کے کسی ڈرامے میں کام کیا تھا۔۔
ریٹائرمنٹ کے بعد اکثر تقریبات میں اپنی بیگم فردوس امجد کے ساتھ شرکت کرتے۔۔فردوس بھابھی بہت خوبصورت اور خوش مزاج ہیں اور ان سے مل کر ہمیشہ ہی اپنائیت کا خوشگوار احساس ہوتا ہے۔۔۔۔
امجد اسلام امجد سے آخری ملاقات کب ہوئی یاد نہیں ۔۔۔۔لیکن ہر ملاقات میں ان کا شفقت بھرا ہاتھ سر پر رکھ کر پاکیزہ مسکراہٹ کے ساتھ حال پوچھنا ہمیشہ یاد رہے گا۔۔۔۔
وہ نا صرف ایک بڑے ادیب ، شاعر، اور ڈرامہ نگار تھے بلکہ ایک نہایت اچھے انسان بھی تھے۔۔۔ہمارے ادبی خاندان کا ایسا فرد جس کی کمی ہمیشہ محسوس ہوگی۔۔۔پچاس سال پر محیط اردو ادب کا یہ روشن ستارہ ہمیشہ آسمان ادب پر درخشاں رہے گا۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.