افسانہ نگار:نسیم امیر عالم
مَیں نے کبھی بھی اُن ہاتھوں میں مہندی دیکھی، نہ چوڑیاں۔ وہ کہتی تو تھیں کہ کبھی یہ ہاتھ بڑے نرم و ملائم ہوا کرتا تھے ، مگر مجھے تو ہمیشہ موٹے، کُھردرے اور بدنما ہی لگے ۔ صبح تدریس کے لئے اسکول جانا ، دوپہر میں گھر کے کام اور کھانا بنانا ، شام میں ٹیوشن پڑھانا اور رات دیر تک سلائی کرنا اور ساتھ ساتھ میرے ناز نخرے اٹھانا اور پھر بیمار ابّا کی جھڑکیاں کھانا اُن کا معمول تھا ۔ نہ میں نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا کی اور نہ مجھے کبھی اُن سے اتنی ہم دردی محسوس ہوئی۔ مجھے تو بچپن سے بس یہ ہی غم تھا کہ ماں نے مجھے کبھی وقت نہیں دیا ۔ مجھے علاقے کے اسکول میں تو داخل کروادیا، مگر میری زندگی اور گھر کے طور طریقے غریبانہ ہی رہے۔ مجھے پہلی دفعہ اُن پر شدید غصّہ تب آیا ،جب میرے سب دوست نئی سائیکلیں لائے اور میں نے بھی ضد کی کہ میں بھی سائیکل لوں گا ، اور سب سے تیز چلا کر دکھاؤں گا ۔ مگر میرے جوشیلے ارادے بھانپتے ہی انہوں نے سائیکل لے کر دینے سے صاف انکار کر دیا ، جس پر میرے دوستوں نے میرا خوب مذاق اڑایا۔
وقت کے ساتھ ساتھ ان کی محنت اور میری بدتمیزی بڑھتی ہی چلی گئی ، یوں بھی زندگی کومنفی انداز سے دیکھنے والوں کو مثبت راہیں کب نظر آتی ہیں۔ یہ ہی کچھ میرے ساتھ ہوا ۔ پڑھ تو لیا ، مگر کوئی ڈھنگ کی نوکری نہ ملی۔ سمجھ نہیں آتا تھا کہ اماں جو اتنی محنت کر رہی تھیں ، تو کیا سارے پیسے جوڑ کر قبر میں ساتھ لے جائیں گی ؟ کیا میری نوکری کے بدلے رشوت نہیں دے سکتیں؟ میرے پاس بائیک تک نہیں تھی، مگر عجیب فلسفہ تھا ان کا کہ محنت کرو، خود حاصل کرو ، وہ سب چیزیں جو تم چاہتے ہو ۔
پچھلے کئی دنوں سے تو مجھے اُن کی شکل دیکھتے ہی غصّہ آ جاتا تھا ۔ جتنا وہ میرے آس پاس نظر آتیں، مجھے اُسی قدر خار آتی ۔ مجھے ایسا لگتا، جیسے میری ساری محرومیوں، مایوسیوں اور تکلیفوں کی ذمّے دار وہی ہیں۔ اور مَیں اکثر بے سبب ہی چلّا اٹھتا ٫٫ آخر آپ نے کیا ہی کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔میرے لئے ؟ ،، اور وہ حسبِ عادت میری منّت سماجت کر کے کھانا کھانے کے لئے کہتیں ۔ اٹکتے اٹکتے اپنی صفائیاں پیش کرتیں، مجھے بتاتیں کہ انہوں مجھے کیسے پالا ، کتنی راتیں وہ میری خاطر نہیں سوئیں ، کتنی اذیتیں سہہ کے مجھے لوگوں کے بُرے روّیوں اور خراب ماحول سے بچایا ۔ میری زندگی، صحت اور خوشیوں کے لئے کس قدر دعائیں اور مَنّتیں مانگیں ۔ مگر وہ جتنا مجھے سناتیں ، میرا غصّہ اور جنون اُسی قدر بڑھتا چلا جاتا ۔
اپنے غصّے اور نفرت کی آگ میں، مَیں یہ بھی محسوس نہ کر سکا کہ اُن کی کھانسی اور بیماری دونوں بہت بڑھ گئی ہیں۔ ویسے تو میرے سخت، تُرش روّیے کی وجہ سے ان کی اتنی ہمت ہی نہ ہوتی تھی کہ مجھ سے بلا ضرورت بات کریں، لیکن اُس روز انہیں نہ جانے کیا ہوا، اچانک ہی میرے سامنے آ کھڑی ہوئیں ۔ ابا کے انتقال کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ وہ اس طرح میرے پاس آئی تھیں ۔ میں نے شعلے برساتی آنکھوں سے گھورا ، تو انہوں نے ایک پُرانا سا رومال کھول کے میرے آگے کر دیا ۔ سونے کا ایک بیش قیمت سیٹ اُس پُرانے سے رومال میں جگمگا رہا تھا۔
“کہاں سے چُرایا ہے یہ اماں ?” میں نےحسبِ عادت ٫٫ڈنک،، مارا۔
“نہیں بیٹا نہیں “وہ جیسے تڑپ ہی اٹھیں ۔ “میرے لال ! میں نے خود ساری زندگی بچّوں کو سچ بولنے ، چوری نہ کرنے کا سبق پڑھایا ہے۔ میں بھلا ایسا کیسے کر سکتی ہوں۔ ایک کمیٹی ڈال رکھی تھی ، اسکول ٹیچر کے پاس ، وہی کُھلی ، تو یہ میں نے تیری دلہن کے لئے خرید لیا۔ تجھے پسند آیا ؟”اُن کے انگ انگ سے ممتا چھلک رہی تھی ۔ “نہیں، اس لئے کہ صرف اس ایک سونے کے سیٹ کے ساتھ کوئی اپنی بیٹی نہیں بیاہے گا ۔اس گھر میں اور رکھا ہی کیا ہے ؟”میں نے اندر پلتا کچھ اور زہر اُگلا۔
٫٫ دراصل پڑوس والی فریدہ مجھے پسند کرتی تھی اور میں اُسے ۔ لیکن میرے پاس گھر نہ تھا ، نہ کاروبار اور نہ ہی کوئی خاص تعلیم ، اور مجھے اپنی ان تمام تر محرومیوں کی ذمّےدار ، اپنی ماں ہی معلوم ہوتی تھی ۔ جس نے ساری زندگی مشینی انداز میں گزار کر بھی مجھے ایک پُر آسائش زندگی مہیا نہیں کی۔
چند روز خاموش رہنے کے بعد وہ ایک بار پھر بڑے ملتجیانہ انداز میں میرے سامنے کھڑی تھیں۔ ” تو جب چھوٹا سا تھا ناں ، تو میں تجھے اپنے ہاتھوں سے نوالے بنا بنا کے کھلاتی تھی ۔ آج پھر تو وہی چھوٹا سا منّا بن جا ، لے میرے ہاتھ سے کھانا کھا لے ، میرے لخت جگر ، میری جان ، میرے بچّے ۔،، ممتا مجھ سے محبّت کی بھیک مانگ رہی تھی ۔ وہ جلدی سے روٹی توڑ کر ، نوالہ بنا کے سالن میں بھگو کر میرے منہ میں ڈالنے لگیں۔ مگر میں نے تھوک دیا۔
۔” نہیں ، میں نہیں کھاؤں گا۔ میں نے پھر ڈنک مارا اور غصّے سے اُٹھ کھڑا ہوا ۔
اچھا ، یہ دیکھ میں تیرے لیے کیا لائی ہوں ۔،،اچانک انہوں نے ایک پُرانی سی فائل میرے سامنے کر دی ۔ اور میں نےنہ چاہتے ہوئے بھی اُس پر ایک اچٹتی سی نگاہ ڈالی ۔
وہ کسی کمپنی کی انشورنس فائل تھی ۔
“دیکھ میں نے پائی پائی جمع کر کے تیرے لیے یہ انشورنس کروائی ہے ۔ یہ سارا پیسا تجھے ملے گا ، میرا بچے۔ ،، وہ جیسے آج میرے سب گلے شکوے ختم کرنا چاہ رہی تھیں۔
اُن کا سر مسلسل جُھکا ہوا تھا۔
“مگر اس کا بھی کیا فائدہ ، جب تک آپ زندہ ہیں ، یہ میرے کسی کام کی نہیں ۔،، آج میں نے شاید اپنے اندر کے زہر کا آخری قطرہ تک نچوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔ “اور آپ بہت جئیں گی ۔ ہاں البتہ میں اس غربت کے ہاتھوں ضرور مارا جاؤں گا۔”
میں نے دروازے کو ایک ٹھوکر ماری اور گھر کی دہلیز پھلا نگتا باہر نکل آیا۔ اُن کی نحیف آواز دُور تک میرا پیچھا کرتی رہی۔
کافی دیر کی مٹرگشت نے بھوک کی شدت میں اضافہ کیا، تو اِک بار پھر قدم گھر کی طرف اٹھ گئے۔ ابھی گلی میں داخل ہی ہوا تھا کہ اک کونے سے دوسرے کونے تک لوگ ہی لوگ دکھائی دیئے۔ ہجوم چیرتا آگے بڑھا تو خالہ کلثوم کی آواز نے جیسے قدم جکڑ لیے
“تُو کہاں تھا بدبخت ، تیری ماں کو ٹیکسی والا ٹکر مار گیا اور آخری سانس تک تیری راہ تکتی ، تیرے نام کی مالا جپتی دنیا سے چلی گئی۔ ماں چلی گئی …… ماں چلی گئی۔ اور پھر………… ۔ مجھے کچھ یاد نہیں رہا .ہاں، جب انشورنس کمپنی والے نے مجھے ملنے والی خطیر رقم کی تفصیلات بتانا شروع کیں اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ
*٫٫ آپ کی والدہ آپ کی بہت تعریف کیا کرتی تھیں۔ آپ کی سعادت مندی ، فرماں برداری کے قصّے اُن کی زبان پر ہوا کرتے تھے۔ وہ بتاتی تھیں کہ آپ اُن کے بہت خدمت گزار ہیں۔ اپنے ہاتھوں سے نوالے بنا بنا کر انہیں کھلاتے ہیں ، تو ہم سب لوگ اُن پر بہت رشک کیا کرتے تھے ۔ ،،*
انشورنس کمپنی کا ملازم مزید تفصیلات بتائے جا رہا تھا اور میں پتھر کا بُت بنا بیٹھا تھا ۔
*” مگر آپ کی والدہ بھی آپ کے لئے بہت کچھ کر گئی ہیں۔ ہماری انشورنس کمپنی آپ کو اتنا کچھ دے رہی ہے کہ آپ چاہیں تو گھر ، بنگلہ بنائیں یا کوئی کاروبار کریں۔ اور ہمیں اس بات کا سخت افسوس ہے کہ ہمارے دفتر سے نکلتے ہوئے ہی اُن کے ساتھ یہ جانکاہ حادثہ پیش آیا. خدا آپ کو صبر و استقامت دے اور ایسی عظیم ماں کی اچانک موت کا صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ،،*
آج میرے پاس سب کچھ ہے ۔ گھر گاڑی ،دکان، بچّے …… نہیں ہے ، تو بس وہ ٫٫ جنم جلی ، *ماں،،* نہیں ہے، جسے ایک *بچّھو*، اُس کی آستین کا سانپ ہی ڈس گیا۔ ہاں مجھے لگتا ہے ، میں بچّھو ہوں۔ پہلی بار جب میں نے بچّھو دیکھا ، تو میں ڈر کر ماں کی گود میں چُھپ گیا تھا تب انہوں نے مجھ سے کہا تھا ک
*٫بیٹا! یہ بچّھو بڑا خطرناک کیڑا ہے ، یہ کسی کو بھی ڈنک مارے بغیر نہیں چھوڑتا۔ اور اس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ اپنی ماں کو مار کے پیدا ہوتا ہے اور جو اُس کی جان بچائے ، یہ اُسے بھی ڈنک مار دیتا ہے ۔،،*
آہ …….. میں بھی ایک بچّھو ہوں ، جو اپنی ماں کو کاٹ گیا ، مار گیا ، اور اب میں منتظر ہوں ،تو صرف اُس وقت کا، جب مجھے بھی میرے ہی وجود سے جنم لینے والا ایک اور بچّھو ایسا ڈنک مارے گا کہ ایک پَل میں سارا وجود نیلا کر جائے گا ۔ اور تب شاید میری ہر لمحہ تڑپتی روح کو چند لمحوں کے لئے قرار آجائے۔
شاید……!!!
لکھاری کا تعارف
نسیم امیر عالم افسانہ نگار اور کہانی کار ہیں۔ وہ شعبۂ تدریس سے تعلق رکھتی ہیں۔آپ کے مضامین اور دیگر تخلیقات مؤقر اخبارات ورسائل میں پاکستان اور بیرون پاکستان شائع ہوتے رہتے ہیں۔ تعلیمی سفر میں شاندار کارکردگی پر متعدد گولڈ میڈل چکے ہیں۔آپ کو حکومت پاکستان کی جانب سےصدارتی تمغہ براۓ حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا ہے
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.